’’عینک‘‘
اسپیشل فیچر
ہمارے دوست ’’جیم‘‘ صاحب نے عینک پہلی بار نہ جانے کب لگائی تھی تا ہم اس عینک کو داد دینی پڑے گی جو پہلی بار پہننے کی پاداش میں ہی ان کے گلے کا طوق بن گئی۔ جبکہ یہی حرکت اس سے بیشتر ’’جیم‘‘ صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ روا رکھتے تھے، نظر والی اور سادہ عینک میں عمومی فرق رنگ کا ہوتا ہے۔ لیکن ’’جیم‘‘ صاحب کی آنکھوں پر براجمان ہو تو یہ فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ نئے دور میں عینک لگانے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن اکثریت ایسے اصول بالائے طاق رکھتی ہے، کچھ لوگ عینک لگا کر خود کو کولہو میں بندھا بیل محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ کی ساری زندگی ہی کولہو کے بیل سی گذرتی ہے۔ ہمارے ہاں امراء اور غرباء کی عینکوں میں بھی فرق واضح دکھائی دیتا ہے۔ امیراء چھاؤں میں بھی کالی عینک لگائے رکھتا ہے۔ غریب نے دھوپ میں عینک لگائی ہوتی ہے، لیکن پھٹے پر بیچنے کیلئے، امیر آدمی تب عینک لگاتا ہے جب اسے صاف دکھائی نہ دے۔ جبکہ غریب اس لیے لگاتا ہے تا کہ کوئی اسے دیکھ لے۔ خواندہ آدمی پڑھا لکھا دکھائی دینے کیلئے عینک لگاتا ہے، جبکہ بعض پڑھے لکھے عینک لگا کر ناخواندہ دکھائی دیتے ہیں۔ بے شک عینک لگانا ایک فن ہے جبکہ اتارنا اس سے بھی بڑا فن، ہماری اداکارائیں فیشن کیلئے عینک لگاتی ہیں۔ جبکہ اداکار ضرورتاً، کئی اداکاروں کا خیال ہے کہ فلم پروڈیوسرز کو سب سے زیادہ عینک کی ضرورت ہوتی ہے (نظر والی) کچھ فلمی پریوں کا کیرئیر ہی داؤ پر لگ گیا تھا لیکن پھر کنٹیکٹ لینز نے مسئلہ حل کیا۔ عینک کے نقصانات اس کے فوائد کی نسبتاً کم ہیں۔ آج عینک ہر ایک کی ضرورت بن چکی۔ لیکن جو سہولت کالے شیشوں کی عینک نے بھکاریوں کو فراہم کی ہے وہ لاجواب ہے۔ اسی کی بدولت وہ ہرکس و ناکس کے آگے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ ان کے آگے بھی جنہوں نے دامن پھیلائے ہوتے ہیں لیکن دکھائی اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بند ہوتے ہیں۔ عینک استعمال کرنے والوں کے مزاج کا بھی پتہ لگانا اب نہایت آسان ہے۔ مثلاً گھریلو ازدواجی الجھنوں کا جکڑا آدمی عینک بار بار صاف کرے گا۔ اور جو ایک بار لگا کر کبھی صاف نہ کرے تو جان لیجئے وہ بیوی کا نافرمان ہے۔ دفتر میں کام چوری کے باعث باس کی جھڑکیاں سہنے والے کی عینک ہمیشہ اس کی ناک کی نوک پر اڑی ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس آدمی کو بیک وقت لکھنے اور باس کے تیوروں کا اندازہ لگاتے رہنے کی مشکل سے گذرنا پڑتا ہے۔ جس آدمی کی عینک اس کی آنکھوں سے بوس دکنار میں مصروف ہو تو جان لیجئے وہ آدمی نا صرف باس کی جھڑکیوں سے نالاں ہے بلکہ موقع ملنے پر اس سے لپت گریبان ہونا چاہتا ہے۔ جس شخص کی لاسکٹ کی جیب میں سے ہمیشہ عینک جھانکتی نظر آئے تو سمجھ لیجئے اس کا اخبار سے اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا کہ پکوڑے والے کا۔ جو آدمی عینک ڈھونڈتا پھرے اور اسے نہ ملے تو سمجھئے اسے اخبار پڑھنی نہیں آتی۔ اور جس آدمی نے عینک ہاتھ میں پکڑی ہو اس کے بارے میں یقین کر لیجئے کہ اس نے اخبار کبھی خرید کر نہیں پڑھی۔ بچے ہمیشہ باپ کی عینک لگانے کی ضد کرتے ہیں اور باپ چھپانے کی جتن۔عینک لگا کر جس آدمی کی چال نہ بدلے سمجھو اس کو عینک لگانی نہیں آئی۔ عینک انسان کی خوبصورتی کا حصہ بن گئی ہے لیکن کچھ لوگ اسے بدصورت بنانے کے لیے سوچتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ عینک کے بغیر زندگی کس قدر بے رونق ہوتی لیکن اپنے دوست ’’جیم‘‘ صاحب کو دیکھ کر مجھے اپنی سوچ پر ہمیشہ نظرثانی کرنی پڑتی ہے۔٭…٭…٭