عہدمیرا مجھے پہچان نہ پایا عارفؔ عارفؔ عبدالمتین انہوں نے شاعر، نقاد اور استاد کی حیثیت سے ایک عہد کو متاثرکیا
پاکستان میں کئی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے صرف شاعری کے میدان میں ہی اپنی فنی عظمت کے جھنڈے نہیں گاڑے بلکہ ادب کی دوسری اصناف میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اُن میں ایک بہت اہم نام عارف عبدالمتین کا بھی ہے ،جنہوں نے شاعر، نقاد اور اُستاد کی حیثیت سے ایک عہد کو متاثر کیا۔یکم مارچ 1923ء کو امرتسر (بھارت) میں پیدا ہونے والے عارف عبدالمتین ،امرتسر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آ گئے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کی، جن میں ’’ادب لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘،’’ جاوید‘‘، ’’اوراق‘‘ اور’’ ماحول‘‘ کے نام شامل ہیں۔ وہ چشتیہ ہائی سکول میں پہلے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور پھر ایم اے او کالج میں پڑھاتے رہے۔ 1983ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔عارف عبدالمتین کا شمار اُردو اور پنجابی کے اہم جدید شعراء میں ہوتا ہے۔ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی اُن کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ اُن کے شعری مجموعوں میں ’’دیدہ و دل‘‘،’’ آتش سیال‘‘،’’ موج درموج‘‘،’’ صلیب غم‘‘،’’ اکلدپے‘‘ ’’دامسافر‘‘،’’ سفر کی عطا‘‘،’’ دریچے اور صحرا‘‘ اور’’ امبریتری تھاں‘‘ شامل ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’امکانات اور پرکھ پڑچول‘‘ بھی قارئین ادب کو بہت پسند آئے۔ ’’پرکھ پڑچول‘‘ پر انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ کا انعام بھی ملا۔ تنقید پر اُن کی یہ کتاب سی ایس ایس کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ عارف عبدالمتین کے نعتیہ مجموعے ’’بے مثال‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ انہوں نے زندگی بھر ادب کی خدمت کی اور اُن کی تخلیقات ادب کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔عارف عبدالمتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شروع شروع میں ترقی پسندادب کی طرف مائل تھے۔ بعد میں شاید انہوں نے اپنے نظریات تبدیل کرلئے، لیکن ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ مارکسی نظریات سے متاثر ضرور تھے، لیکن وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ ہر ادبی فن پارے کو مارکسی نظریات کے تابع ہونا چاہیے۔ ادب کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور یہ زندگی کے ہر رنگ کو منعکس کرتا ہے۔ ادب کو زندگی کی تمام جہتوں کے ساتھ تخلیق کرنا چاہیے۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول ِپاکﷺ کی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے تمام اصول بیان کیے گئے ہیں۔ سماجی اور معاشی حوالے سے بھی ہمیں وہ کچھ ملتا ہے کہ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسا احمد ندیم قاسمی سے ایک بار پوچھا گیا کیا آپ کمیونسٹ ہیں ،تو انہوں نے جواب میں کہا: کمیونسٹ تو نہیں ہوں بلکہ مسلمان ہوں، لیکن میری مسلمانی میں ترقی پسندی کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنا یہ شعر بھی پڑھا :بھیک مانگے کوئی انسان تو چیخ اٹھتا ہوںبس یہ خامی ہے مرے طرزِ مسلمانی میںعارف عبدالمتین کا فلسفہ حیات بھی یہی تھا۔ وہ سماجی اور معاشی انصاف کو بہت اہمیت دیتے تھے۔عارف عبدالمتین کی شاعری کے بہت سے رنگ ہیں، بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کو جس ہنرمندی سے اشعار کا لباس پہنایا ہے، وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ ان کے شاعری میں جمالیاتی اور شعری طرز احساس بھی ہے اور فکر کی گہرائی بھی۔ فیض احمدفیض ؔاور احمد ندیم قاسمی اُن کے استادوں میں سے تھے۔ ساحرؔ لدھیانوی اور حمید اختر سے بھی اُن کی دوستی رہی۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ جب انہوں نے ’’جاوید‘‘ میں شائع کیا تو ان پر اور منٹو صاحب پر مقدمہ چلایا گیا۔ سعادت حسن منٹو نے اس مقدمے کی پوری تفصیل اپنے مضمون ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں بیان کی ہے۔عارف عبدالمتین جس عہد میں زندہ رہے، انہوں نے اس کے آشوب کو پوری طرح اپنی شاعری کی زبان دی۔ وہ خواب ضرور دیکھتے تھے، لیکن ان کے خواب بہت حسین ہوتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حیات افروز رجائیت کے قائل تھے اور یہی رجائیت انہیں بدترین حالات میں بھی مایوسی کے اندھیروں سے بچائے رکھتی تھی۔ انہوں نے عمربھر رزق حلال کمایا اور اکثر اوقات معاشی تنگدستی کا بھی سامنا کیا، لیکن کبھی شکایت کا ایک حرف بھی ان کی زباں پر نہیں آیا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ احمد فراز نے اپنے شعر میں یہ کیوں کہا:میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتےہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والاتو انہوں نے کہا احمد فراز کی اپنی سوچ ہے۔ میں تو سنگین ترین حالات میں بھی بہاروںمیں چمن کو جلتے نہیں دیکھوں گا بلکہ مجھے ہر طرف پھول ہی نظر آئیں گے۔ بہرحال یہ اپنا اپنا طرز فکر ہے۔ عارف صاحب نے معروضی حقائق سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ وہ اس نظریے کے حامل تھے کہ ایسا کرنا بددیانتی کے مترادف ہے۔ ان کی ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:زمیں سے تابہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیںمگر افق کی طرف کوئی دیکھتا ہی نہیںمجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتھرمیں درد مند کہاں، درد آشنا بھی نہیںجیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ عارف صاحب کی شاعری کی بہت سی جہتیں ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں بعض اوقات ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں شاعر نے اپنی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔عارف عبدالمتین بڑئے وسیع النظر اور وسیع القلب انسان تھے۔ جب ہمارے کچھ ترقی پسند شاعر نثری نظم کی مخالفت کر رہے تھے تو انہوں نے اس کی وکالت شروع کردی اور پھر خود بھی بڑی فکرانگیز نثری نظمیں تحریر کیں۔ ان کی نثری نظم جس تخلیقی تجربے کی حامل ہے۔ اسے معاشرتی سیاق و سباق سے الگ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی نثری نظمیں پڑھ کر بھی قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تلخیوں کا زہر پی کر بھی وہ اپنے معتدل مزاج رویے سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ سچائی کی آبرو بن کر ابھرتے ہیں۔ذیل میں ان کی نثری نظم ’’ میں سقراط ہوں‘‘ ملاحظہ کریں:میں سقراط ہوںایتھنز کے رب مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک میرے خیالات نوجوانوں کے اخلاق بگاڑتے ہیں موت کا خوف مجھے صداقت کے بے محابہ اظہار سے نہیں روک سکتا۔عارف عبدالمتین بہت حلیم الطبع اور منکسرالمزاج شخص تھے اور بے حد حساس تھے۔ یہ حساسیت اُن کی شاعری میں بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ وہ ایک مخلص، دیانتدار اور انسان دوست شخص تھے۔ مقام رنج ہے کہ اُن کی وفات کے بعد انہیں بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ کیا ایسے شاندار لوگ نظرانداز کیے جا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔30 جنوری2001ء کو عارف عبدالمتین طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی ادبی خدمات کبھی نہیں بھلائی جاسکتیں۔٭…٭…٭