اُچ شریف اس تاریخی شہر کی اپنی جغرافیائی، ثقافتی اور ادبی اہمیت ہے
اسپیشل فیچر
ضلع بہاولپور کا شہر اُچ اپنی تاریخ، قدامت اور تہذیب کے سبب بہت اہم مقام کا حامل ہے۔ یہ بہاولپور سے جنوب مغرب کی طرف 38 میل کے فاصلے پر پنجند کے سنگم پر واقع ہے۔ کسی زمانے میں یہ سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ اسے اس وقت زوال آیا جب وسطی ایشیاء سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ کر ڈالا،یہ 400ء کا واقعہ ہے۔ یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اس کی بنیاد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن سے دریائے سندھ کے کنارے آباد ’’کیکیا‘‘ نامی ایک سلطنت کا سراغ ملتا ہے۔ راجہ کیکیا کی بہن کیکئی راجہ دسرتھ کی وہ مشہور رانی تھی، جس کے باعث رام چندر جی کو بن باس کاٹنا پڑا۔ دریائے سندھ کے کنارے ان دنوں ’’مید‘‘ اور ’’جاٹ‘‘ قبائل آپس میں بے حد لڑتے رہے تھے۔ روایت کے مطابق کچھ مصلحت اندیش لوگوں نے راجہ دریو دھن کے دربار میں ایک نمائندہ بھیج کر خواہش ظاہر کی کہ وہ اس مسلسل لڑائی کے خاتمہ کیلئے اپنی طرف سے نائب مقرر کرے چنانچہ راجہ دریو دھن نے اپنی بہن دہسلا رانی کو سندھ کا گورنر بنا دیا۔ رانی دہسلا نے اپنا مرکز ’’اسکلندہ‘‘ کو بنایا، جو بعد میں اسکندریہ اوسرا اور اوچ کے نام سے معروف ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق ملتان کے بعد جب سکندر اعظم نے اوچ پر قبضہ کر لیا، تو اس شہر کا نام اسکندریہ اور اسکالندہ مشہور ہوا۔ملفوظاتِ خانوادہ بخاریہ اوچ شریف کے مطابق اس علاقے میں راجہ ہودی کی حکومت تھی، جس نے ’’ہود‘‘ کے نام سے اس شہر کی بنیاد رکھی جو مرور زمانہ سے ’’ہوج‘‘، ’’ہوچ‘‘ اور پھر ’’اُچ‘‘ ہو گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس شہر کی بنیاد راجہ سوڈی کے ایک گورنر چچ نے رکھی تھی، جو وقت گزرنے کے ساتھ اوچ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح حضرت موسیٰ پاک شہید کے ملفوظات کے حوالے سے یہ روایت بہت مشہور ہے کہ اوچ شہر ایک قدیم او بہت اونچے کھنڈر پر حضرت صفی الدین گاذروئی نے آباد کیا تھا۔ اسی بدولت یہ شہر اوچا اور بعد میں اوچ کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کا قدیم نام ’’دیو گڑھ‘‘ تھا۔ ان مختلف روایات سے ہٹ کر یہ بات طے ہے کہ یہ شہر 550قبل مسیح کے آباد ہوا۔165 قبل مسیح میں باختر کے بادشاہ ’’انرا ڈی تس‘‘ نے سندھ پر حملہ کرکے اسے فتح کیا اور125 برس تک یہاں اس کے جانشین حکومت کرتے رہے۔ اس زمانے میں اسے ایک صوبہ کی حیثیت حاصل رہی۔ محمد بن قاسم کے فتح سندھ کے وقت یہ شہر سیاسی، معاشی اور تہذیبی لحاظ سے بے مثل تھا۔ محمود غزنوی کے حملے سے پہلے اوچ سندھ کا ایک صوبہ تھا اور یہاں ہندوؤں کی حکومت تھی۔ 1025ء میں سلطان محمود غزنوی نے خلیفہ قادر باللہ کے مامور شدہ حاکم اوچ و ملتان کو بھگا دیا جبکہ 1228ء میں سلطان شمس الدین التمش کے وزیر نظام الملک محمد بن اسعد نے اوچ فتح کر لیا۔بعد ازاں التمش نے اوچ اور ملتان پر ’’سنجر‘‘ کو حاکم مقرر کیا، لیکن وہ زیادہ عرصہ یہاں حکومت نہ کر سکا۔1293ء میں جلال الدین خلجی نے اپنے بیٹے ارک علی خان کو اوچ اور ملتان کا حاکم بنا دیا۔ 1397ء میں امیر تیمور کے پوتے مرزا پیر محمد نے قلعہ اوچ کا محاصرہ کرکے سارنگ خان کے سپہ سالار تاج الدین کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔1469ء کے انتہائی شورش زدہ زمانے میں اوچ اور ملتان کے لوگوں نے شیخ یوسف قریشی کو اپنا حاکم بنا لیا۔ 1524ء میں مرزا شاہ حسن ارغون نے لنگاہوں اور بلوچوں سے ایک بڑی جنگ کے بعد قلعہ اوچ چھین لیا۔ قتل و غارت کرنے کے بعد شہر میں بہت زیادہ لوٹ مار کی، لیکن وہ یہاں قیام کرنے کی بجائے دھن دولت سمیٹ کر اپنے ساتھ لے کر واپس بکھر چلا گیا۔ بعد ازاں یہاں ایران کے صفوی حکمرانوںکی حکومت قائم ہو گئی۔ 1543ء میں شاہ ایران طہماسپ صفوی نے سلطان محمود خان کو اوچ اور اس کے مضافات کا علاقہ بطور جاگیر عطا کیا۔ 1713ء میں سندھ کے میاں دین محمد کلہوڑا کے سپہ سالار مقصودی نے شہزادہ معز الدین کے لشکر سمیت دیگر لوگوں کو بھی قتل کر دیا اور اوچ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ میاں نور محمد کلہوڑا کے مسلسل حملوں سے تنگ آ کر صادق محمد خان عباسی اول نے حاکم ملتان نواب حیات اللہ خان سے چودری (لیاقت پور) کا علاقہ حاصل کیا اور الٰہ آباد میں رہ کرہی داؤد پوترہ عباسیوں نے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ریاست بہاولپور کی بنیاد رکھی۔ اس دوران میں مخدوم حامد محمد گنج رابع سجادہ نشین اوچ گیلانی نے نواب بہاول خان عباسی دوم کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کیں، جس سے ریاست کے نظام میں خلل اندازی کا سلسلہ شروع ہوا ،تو عباسی خاندان نے اُچ پر قبضہ کرکے اسے بھی ریاست بہاولپور میں شامل کرلیا۔ اُچ میں علوم اسلامی کی آمد محمود غزنوی کے زمانے سے ہوئی۔ مولانا صفی الدین گاذروئی 980ء میں اوچ آئے اور یہاں انہوں نے اسلامی درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سلطان شہاب الدین غوری اس ادارے کا پہلا مربی تھا۔ اس کے بعد غوری حکمرانوں نے اُچ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ غور سلطنت کے زوال سے اُچ کو بھی زوال آیا۔ منگولوں کے حملوں کے دوران اکثر علما و فضلا نے ہجرت کرکے اُچ کا رُخ کیا اور یہاں سکونت اختیار کی۔ منگولوںنے اگرچہ اس شہر کو کئی بار تاراج کیا، مگر اس کی اہمیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ساتویں صدی ہجری میں ابن ِبطوطہ اس شہر کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ایک بڑا شہر ہے۔ شاندار بازار اور گلیاں ہیں۔ بڑے کھلے مکان ہیں۔ یہ شہر علوم کا مرکز ہے، یہاں بہت سارے علمائے دین رہتے ہیں اور مدرسہ فیروزیہ بہت مشہور ہے۔یہاں افغانستان، ترکستان، ایران اور کئی دیگر ملکوں سے مسلمان علم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ شہر مختلف مذاہب، تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز بنا رہا۔ اسے سوا لاکھ بزرگان دین اور اولیاء کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر اوچ بخاری، اوچ گیلانی اور اوچ مغلیہ نام کے تین حصوں میں تقسیم ہے۔مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد میں اس شہر کی پرانی عظمت بحال ہو گئی تھی، تاہم اورنگزیب عالمگیر کے بعد سے اوچ کی اہمیت بتدریج کم ہونے لگی۔ رنجیت سنگھ نے اس شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا البتہ بہاولپور کے عباسیوں نے اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اوچ شریف اولیائے کرام کا مقام ہے۔ سادات بخارا کے سیّد جلال الدین بخاری سرخ پوش، ان کے صاحبزادے سیّد احمد کبیر بخاری اور ان کے صاحبزادے مخدوم جہانیاں،جہاں گشت، مخدوم راجن قتال ، بی بی جیوندی، حضرت بہاول حلیم اور حضرت بندگی محمد غوث جیسے اکابر صوفیاء کے مقبرے یہیں ہیں۔یہ مزارات نہایت شکستگی کے عالم میں ہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق پاکستان میں جن 24آثار کو عالمی ورثہ میں شامل کیا جا چکا ہے۔ ان میں چار آثار مزاربی بی جندوڈی:، مزار حضرت بہائول حلیم، مزار سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاری اور مسجد سرخ پوش بخاری اُچ شریف میں ہی واقع ہیں۔ اساطیری عہد سے لے کر موجودہ دور تک اوچ شریف کی تاریخ کئی الم ناک مرحلوں سے گزری ہے، لیکن پُرآشوب ادوار کے اس سارے جبر کے تناظر میں مثبت اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ علم و عرفان اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔شعر و ادب کے اعتبار سے محمد اختر تاتاری، عطاء الرحمن شرر اور خواجہ محسن رضا محسن یہاں کے ممتاز نام تھے۔ موجودہ دور میں ہمراز سیال اُچوی، سیّد اعجاز کاظمی، سیّد فہیم کاظمی، منظور منتظر اُچوی، منظور شوق اور ظہور حسین مجبور یہاں کے اُردو اور سرائیکی کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہمراز سیال اُچوی پنجابی، سرائیکی، اُردو اور فارسی میں شاعری کرتے ہیں۔ گُھنڈ کھول اور ہر پُھل زخمی ان کے شعری مجموعے شائع ہوئے۔ محمد اخترتاتاری مرحوم کا شعری مجموعہ حیاتی دے پندھ اولڑے شائع ہوا تھا۔اُچ شریف کی آبادی1981ء میں13306 اور1998ء میں29476 نفوس پر مشتمل تھی، اب آبادی30 ہزار کے قریب ہے۔( تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭