عصمت چغتائی اسلام آباد میں
اسپیشل فیچر
اکتوبر ۱۹۷۶ کے وسط میں برِ صغیر پاک وہند کی عظیم افسانہ نگاراورناول نویس محترمہ عصمت چغتائی اسلام آبادآئیں۔ان کاقیام معروف شاعر احسن علی خاں اوران کی اہلیہ پروفیسر اخترجمال صاحبہ کے ہاں تھا۔اخترجمال صاحبہ جنہوں نے حلقہ کی افتتاحی اجلاس کی صدارت کی تھی ،مجھے ان کی متوقع آمدسے پہلے ہی مطلع کرچکی تھیں۔ہم لوگوں نے ان کی تحریروں سے ہمیشہ رہنمائی حاصل کی تھی۔ان کے افسانوں کے علاوہ میں ان کے ناول ٹیڑھی لکیراورمعصومہ اوران کے لکھے ہوئے بہت سے خاکے بھی پڑھ چکاتھااوربے حد متاثرتھا۔خاص طورپران کی بے تکلف ،بامحاورہ زبان اورخوب صورت نثر مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ اس اجلاس کی صدارت قدرت اللہ شہاب نے کی ۔میں نے اس تاریخی اجلاس کی تصویریں اور درجِ ذیل کارروائی کوحلقہ کے رجسٹرمیں محفوظ کرلیا۔حلقہ ارباب ِ ذوق کی ایک یادگارشام (۱۹؍اکتوبر ۱۹۷۶)خواتین وحضرات !جیسا کہ آپ جانتے ہیں حلقہ ارباب ذوق کی یہ خصوصی ا دبی نشست اردو کی نامور افسانہ نگاراور ناول نگار محترمہ عصمت چغتائی کے اعزازمیں منعقد ہو رہی ہے ۔عصمت چغتائی صاحبہ ان دنوں نجی دورے پر اپنے عزیزوں سے ملنے پاکستان آئی ہو ئی ہیںاور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ دو ایک روز کے لیے اسلام آباد تشریف لائیں اور ہمیں شرفِ میزبانی بخشا۔خواتین وحضرات!اردو ہماری قومی زبان ہے اور محترمہ عصمت چغتائی اردو یعنی ہماری قومی زبان کی ادیبہ ہیں اور انہوں نے زندگی بھر اردو زبان وادب کی گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور نا مساعد حالات میں بھی اردو کا چراغ جلائے رکھا۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے عصمت چغتائی صاحبہ کا شمار برصغیر کے عظیم ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے ناول نگاری میں ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘جیسے شاہکار ادب کو دیئے۔ خاکہ نگاری میں دوزخی (عظیم بیگ چغتائی)میرا دوست میرا دشمن(منٹو)اور’ ’ہم لوگ‘(اپنا )جیسے بلند پایہ خاکے لکھے اور فن افسانہ نگاری میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کو نفسیاتی اور تجزیاتی نظر سے دیکھنے کی روایت قائم کی۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت، جرات آمیز اور بیباکانہ اظہار حقیقت ہے۔جو ہمیں منٹو کے سوا اور کہیں نظر نہیں آتا۔ انہیں عظیم بیگ چغتائی کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی اور سعادت حسن منٹو کی ہم جلیسی کا شرف حاصل ہے۔ بعض لوگ انہیں عورتوںکاسعادت حسن منٹوبھی سمجھتے ہیں ۔کسی زمانے میں ان کے جرات مندانہ اظہار حقیقت کو عریاں یا فحش نگاری کا الزام دیا گیا لیکن وقت گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے وقت اور دور سے آگے بڑھ کر سوچا۔آج ہم نے یہاں چند معروف ادبیوں اور نقادوں کو زحمت دی ہے کہ وہ محترمہ عصمت چغتائی کی شخصیت اور فن پر اظہارِ خیال کریں ۔ان میں جنابِ ممتاز مفتی ،جنابِ فتح محمد ملک ،محترمہ اختر جمال ،جنابِ مظہرالاسلام ،جناب منصور قیصر اور ڈاکٹر کنیز یوسف کے نام شامل ہیں۔ آپ آخر میں ان سے ان کا ایک افسانہ اور گفتگو بھی سنیں گے اور وہ حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیں گی۔ آپ سے گزارش ہے کہ سوالات کو اردو زبان وادب تک محدود دکھا جائے اور ذاتی اور سیاسی نوعیت کے سوالات سے اجتناب کیا جائے تاکہ ہماری معززمہمان کو ئی الجھن محسوس نہ کریں اور خوشگوار یادیں لے کر لو ٹیں۔(منشایاد کی کتاب ،حسبِ منشا ء سے اقتباس)