گلزار کو بس گلزار ہی سمجھیں!
اسپیشل فیچر
سبھی دوست آپ کو کسی نہ کسی حیثیت سے جانتے تھے۔ کسی کو آپ کے گیتوں سے لگائو تھا، لیکن نام سے شناسائی نہ تھی___کوئی زندگی سے واقف تو تھا، لیکن آپ کے کام تک رسائی نہ تھی___ اور کچھ تو آپ کو مجھ سے زیادہ اور بہتر جانتے تھے، لیکن شاہد کے سوال کے پہلے حصے ’’گلزار کون ہے؟‘‘،’’کچھ بتائوناں ان کے بارے میں‘‘ سے مجھے آپ کی بات یاد آنے لگی کہ ’’وہ لوگ گھروں میں نہیں رہتے۔ فن کار ہیں، وہ لوگ! گھروں میں تو رکتے ہیں بس، رہتے کہیں اور ہیں۔ سُروں میں رہتے ہیں اور پَلوں میں بستے ہیں۔‘‘ سوچنے لگا کہ پلوں میں بسنے والوں کے گھر کا نقشہ کیسے بنایا جائے۔ساتھ ہی خیال آیا، جو کمرے میں موجود اپنے دوستوں سے شیئربھی کیا کہ آپ کی زندگی مختلف واقعات سے بھری پڑی ہے، جن سے میں واقف نہیں، پھر ان واقعات کی آپ کے نزدیک اہمیت اور آپ کی زندگی پر پڑنے والے اثرات سے بھی آگاہی نہیں،پھر آپ کی شاعری کو نثر میں بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔گلزار صاحب یہ بات کرنا تو وشال بھاردواج، امجد اسلام امجد، اقبال نظر، فرحانہ محمود اور نصیر احمد ناصر جیسے لوگوں کا کام ہے۔ نصیر احمد ناصر، گلزار صاحب کو کہتے ہیں:تم جس خواب کا جادو لے کراپنے گیت بناتے ہوتم جس آنکھ سے آنسو لے کراپنا درد سناتے ہو،بادل جیسے رندھ رندھ کر آتے ہوتم جس یاد کی خوشبو لے کراپنی شام سجاتے ہولفظوں کو مہکاتے ہوتم جس پیڑ کی چھائوں اوڑھےدینہ نام کا گائوں اوڑھےرستہ رستہ، مٹی مٹیاگتے اور اگاتے ہودھوپ میں پھول کھلاتے ہوبرکھا، باد، پرندہ اور چھتری بن جاتے ہومیں اس خواب کے جادو،آنکھ کے آنسو،یاد کی خوشبواور اس پیڑ کی چھائوں سےرستوں اور دشائوں سےایک سنہری نظم بناتا ہوں!’’لیکن گل شیر! اس کا ہر گزیہ مطلب بھی نہیں کہ تم گلزار صاحب اور ان کی شاعری پر بات ہی نہیںکر سکتے۔ درست کہا کہ شاعری، نثر میں اپنا حسن کھو دیتی ہے ،لیکن یہ بھی کہاں درست ہے کہ شاعری پر بات ہی نہ کی جائے‘‘ عزیز کی منطق نے مجھ میں بات کرنے کی جرأت پیدا کی اور میں سوچنے لگا کہ مجھے تو گلزار صاحب کے بارے میں وہی کہنا ہے، جو میں نے جانا اور سمجھا، اور ضروری تو نہیں کہ دوسرے لوگ میری سوچ اور فہم سے اتفاق کریں۔ کسی کے ساتھ اختلاف رائے سے بات کرنے کا حق تو نہیں چھن جاتااور پھر گلزار صاحب کی وہ بات یاد آ گئی کہ ’’اور وہ جو تم سے متفق نہیں، وہ تعداد میں تم سے زیادہ ہیں‘‘آپ کی شخصیت کو پرت در پرت کھولتے ہوئے بچپن تک پہنچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ کا اصل نام یا یوں کہیے پیدایشی نام سمپورن سنگھ ہے اور آپ سردار مکھن سنگھ کالرہ اور سجان کور کی سکھ فیملی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سردار مکھن سنگھ لمبے اور خوب صورت جاٹ تھے۔ آپ کی تاریخ پیدایش کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ دستاویزات میں تاریخ پیدایش ۱۹۳۴ء درج ہے، تو کچھ میں۱۹۳۶ء اسی طرح کچھ دستاویزات میں ان کی تاریخ پیدایش ۵ ستمبر۱۹۳۴ء تحریر ہے۔ زیادہ معتبر حوالہ ۱۸اگست ۱۹۳۴ء کو دینہ، ضلع جہلم (پاکستان) میں پیدا ہونے کا ہے۔آپ کے دادا سردار نہال سنگھ ’’دینہ‘‘ کے قریب کرلاں گائوں میں رہتے تھے اور آپ کے والد سردار مکھن سنگھ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اپنے کاروبار میں وسعت کے لیے کرلاں سے ’’دینہ‘‘ چلے آئے اور ’’دینہ‘‘ میں بزازی کی دکان کھولی۔ ان کے والد کا اپنے کاروبار کے سلسلہ میں دہلی بھی آنا جانا رہتا تھا۔ اس لیے وہ دینہ اور دہلی کے درمیان سفر میں رہتے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے دہلی میں دوسری دکان کھول لی۔ جوںہی دہلی میں ان کا کاروبار بڑھا، تو انہوں نے زیادہ وقت دہلی میں گزارنا شروع کر دیا جبکہ باقی خاندان دینہ میں رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ دہلی جانے لگے تو ریلوے سٹیشن پر گلزار صاحب کو روتا دیکھ کر ان کو اپنے ساتھ دہلی لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ گلزار صاحب کی والدہ سجان کور، سردار مکھن سنگھ کی دوسری بیوی تھیں۔ پہلی بیوی جن کا نام راج تھا، ان سے ان کے تین بچے تھے، جس میں بیٹا جسمیراور دو بیٹیاں مہندر اورسرجیت شامل ہیں۔ گلزار ابھی غالباًسال کے تھے کہ ان کی والدہ سجان کور کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعدان کے والد نے ودیاوتی سے تیسری شادی کی، جس سے سردار مکھن سنگھ کے پانچ بچے تھے،ترلوچن، ہرشوتم، جگبیر، بیٹی روِندر(گڈی) اور دوسری بیٹی بچپن ہی میں فوت ہو گئی۔گلزار صاحب کی والدہ سجان کور ، بھاگ سنگھ کی بیٹی تھیں۔ بھاگ سنگھ دینہ اور جہلم کے درمیان ’’کالا‘‘ نامی گائوں کے رہائشی تھے۔ گلزار صاحب کو اپنے نانا کی طرف سے ایک آنا اور نانی کی طرف سے دو آنہ ملنا یاد ہے۔’’تو کیا گلزار صاحب مسلمان نہیں؟‘‘ ندیم پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ مسلمان نام کی وجہ سے راکھی اور بمل رائے کی طرح ندیم بھی آپ کو مسلمان سمجھنے لگا تھا،لیکن گلزار صاحب کی کوئی بھی فلم مسلمان کردار کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ ان کی نظموں میں بھی مذاہب ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی حقیقی زندگی بھی مسلمانوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ چاہے وہ میناکماری ہو یا اللہ دتہ، جو گلزارصاحب کے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے اور جسے گلزارصاحب کے والد دینہ سے دہلی لے گئے تھے، جو گلزارصاحب کے ساتھ ہی پلے بڑے۔ کہتے ہیں ’’اللہ دتہ مجھے آج بھی بھائی لگتے ہیں اور بڑے بھائی لگتے ہیں اور کہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ مسلمان ہیں یا ہندو ہیں۔‘‘میں نے رکھی ہوئی ہیں آنکھوں پرتیری غمگین سی اداس آنکھیںجیسے گرجے میں رکھی خاموشیجیسے رہلوں پہ رکھی انجیلیںایک آنسو گرا دو آنکھوں سےکوئی آیت ملے نمازی کوکوئی حرفِ کلامِ پاک ملے( گل شیر کی کتاب ’’ گلزار : آواز میں لپٹی خاموشی ‘‘سے مقتبس)٭…٭…٭