ہیپی کرسمس کرسمس ٹری کیوں سجاتے ہیں؟
اسپیشل فیچر
کرسمس کے دنوں میں بہت سارے مسیحی اپنے گھروں میں سرو کے پودے کو رنگ برنگی روشنیوں اور دوسری سجاوٹ کی چیزوں سے مزین کرتے ہیں۔ اگر اصل درخت میسر نہ ہو تو عموماً اسی طرز کے مصنوعی درخت کا اس استعمال بھی عام ہے۔ سدا بہار درخت کے کرسمس سے تعلق کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بریٹانیکا انسائکلوپیڈیا کے مطابق قدیم مصری، چینی، اور عبرانی لوگ سدا بہار درختوں، پشپانجل، اور پھولوں کے ہار کو ابدی زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کرتے تھے. یورپیوں کے درمیان بھی مسیحت کے فروغ سے پہلے درختوں کی پوجا کا رواج عام تھا جو کہ مسیحت کو اپنانے کے بعد بھی قائم رہا۔چونکہ مسیحت کا آغاز دو ہزار سال قبل اس وقت ہوا جب رومی ثقافت اپنے عروج پر تھی اور بیت المقدس رومی تسلط میں تھا اس لئے رومی ثقافت کا مسیحی لوگوں پر اثرانداز ہونا ایک فطری عمل تھا۔ دنیائے مسیحت کے مشہور میگزین میں بتایا گیا ہے کہ زمانہ قدیم سے لوگ سدا بہار درختوں کو موسم سرما کے وسط میں زندگی کے نشان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ رومی نئے سال کے موقع پر سدا بہار درختوں کی شاخوں کے ساتھ اپنے گھروں کو سجایا کرتے تھے۔ اسی طرح شمالی یورپ کے قدیم باشندے سردیوں میں سدا بہار درختوں کی شاخوں کو کاٹ کر گھروں کے اندر لگاتے. کئی ابتدائی مسیحی راہنما اس طرز عمل کے مخالف تھے. دوسری صدی عیسوی کے مذہبی عالم ٹرٹولین موسم سرما میں شہنشاہ کے اعزاز میں منائے جانے والے تہوار میں مسیحیوں کی شمولیت کے مخالف تھے۔کرسمس ٹری کا موجودہ رواج اپنے اندر کچھ اور بھی تاریخی حقائق لیئے ہوئے ہے۔ بریٹانیکا انسائکلوپیڈیا کے مطابقجدید کرسمس ٹری کا آغاز جرمنی سے ہوا. اماں حوّا اور بابا آدم پر بنائے گئے قرون وسطی کے ایک مقبول ڈرامے میں ایک سدا بہار درخت کو \"جنت کے درخت\" کے طور پر دیکھایا جاتا تھا۔ جرمنی میں 24 دسمبر کا دن اماں حوّا اور بابا آدم کے احترام میں عید کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اس روز گھروں میں \"جنت کا درخت\" سجایا جاتا تھا جس پر سیب لٹکائے جاتے۔مسیحی میگزین کے مطابقابتدائی قرون وسطی میں یہ کہانی بھی عام تھی کہ یسوع مسیح موسم سرما کے آخر میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پیدائش کے موقع پر ہر درخت سے معجزانہ طور پر برف جھڑ گئی اور سر سبز نئی کومپلیں پھوٹ پڑییں۔ اسی زمانہ میں جو مسیحی مشنری جرمن اور سلاوک لوگوں میں تبلیغ کا کام سرانجام دے رہے تھے، ان کا ثقافتی رسومات کے بارے میں قدرے نرم نقط نظر تھا۔ یہ مشنری خیال کرتے تھے کہ یسوع کے تجسم سے مسیح کی ہر چیز پر حاکمیت قائم ہو گئی ہے جس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ ثقافتیں، مادی دینا سے مسطار لی گئی علامات اور روایات بھی شامل ہیں۔وکی پیڈیا انسائکلوپیڈیا کے مطابق کرسمس ٹری کی جدید رسم کا آغاز پروٹیسٹنٹ مغربی طبقات میں مارٹن لوتھر نے کیا۔ کا تھولک لوگ چرنی سجاتے تھے جبکہ پروٹیسٹنٹ لوگ درخت سجاتے تھے۔اس ساری گفتگو سے واضع ہوتا ہے کہ دو ہزار سال پہلے شروع ہونے والی مذہبی تحریک نے مختلف ادوار اور ثقافتوں سے اپنے اندر کئی رنگ بھرے ہیں۔ کرسمس کی خوشیاں ان ہی رنگوں کی قوس و قزح سے پیدا ہونے والی مذہبی اور ثقافی گرمجوشی کا نام ہے جس میں صرف مسیحی ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کو ماننے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔تاریخبرطانیہ میں پہلا کرسمس ٹری ملکہ وکٹوریہ کے شوہر پرنس البرٹ نے 1841ء میں ونڈ سرمحل میں سجایا۔ انہوں نے اس درخت میں موم بتیاں‘ ٹافیاں اور کئی قسم کے پھل سجائے اس کے بعد ملک کے دیگر امیر لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی۔ 1850ء میں عظیم ناول نگار، چارلس ڈکنز ، نے کرسمس ٹری کو کھلونوں‘ چھوٹے چھوٹے سازوں‘ ٹافیوں اور پھلوں سے سجایا تھا۔ امریکہ میں پہلا کرسمس ٹری1830 میں سجایا گیا تھا جسے جرمنی کے آبادکاروں نے ایک چرچ کے لئے چندا جمع کرنے کے لئے عمارت کے باہر رکھا تھا۔ شروع میں امریکہ کے لوگوں نے اس رسم کی مخالفت کی مگر 1890ء تک یہ رسم امریکہ میں مقبول ہو چکی تھی۔یورپ کے لوگ چھوٹے کرسمس ٹرے سجاتے ہیں جن کی اونچائی چار فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ امریکہ میں کرسمس ٹری کی اونچائی کمرے کی چھت تک ہوتی ہے۔ پولینڈ میں کرسمس ٹری پر فرشتوں کی شبیہیں، پرندے اور ستارے نمایاں ہوتے ہیں۔ سویڈن میں کرسمس ٹری کو لکڑی کے بنے ہوئے رنگ دار کھلونوں اور جانوروں سے سجایا جاتا ہے۔ ڈنمارک میں کرسمس ٹری کو قومی جھنڈوں ‘ گھنٹیوں‘ برف کے گولوں اور دل کی شکل کے غباروں سے سجایا جاتا ہے۔ جاپان میں کاغذ سے بنے کھلونے‘ پنکھے اور لالٹین کرسمس ٹری کی زینت بنتے ہیں۔ چیکو سلواکیہ کے کرسمس ٹری کو مکڑی اور اس کے جالے سے سجایا جاتا ہے کیونکہ وہاں مکڑی اور اس کے جالے کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی کرسمس ٹری سجانے کا رواج مقبول ہو چکا ہے اور ہر مسیحی گھر اور کرسمس کی تقریب میں کرسمس ٹری خونصورتی سے سجا ہوا نظر آتا ہے۔ کرسمس ٹری کو سجانے کی ذمہ دار خاص طور پر بچوں کے سپرد ہوتی ہے۔کرسمس کی روایت میں گرجا گھروں میں چرنی کو سجانا اور گھروں کی چھتوں اور گرجا گھروں میں ستارے روشن کرنا بھی شامل ہے۔ انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ چند دانشور خداوند یسوع کی پیدائش پر ستارے کی راہنمائی میں بیت اللحم میں خداوند یسوع مسیح کی جائے پیدائش پر پہنچے اور ننھے بچے یسوع کا دیدار حاصل کیا تھا۔عیسائی خاندانوں میں 24 دسمبر کی رات کرسمس ٹری کے پاس بچوں کے نام تحائف رکھ دئیے جاتے ہیں اور بچوں کو نقدی بھی دی جاتی ہے کیونکہ کرسمس کا مطلب ہی خوشیاں بانٹنا ہے۔ اس موقع پر غریب اور مستحق عیسائیوں میںتحائف بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔کرسمس کا ذکر آتے ہی ذہن میں سانتا کلاز کا تصور آتا ہے تو دسمبر کی شدید سردی میں محبت کی گرمی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ آج لوگ جسے سانتا کلاز کے نام سے جانتے ہیں ان کا اصل نام سینٹ نکولس تھا اور وہ 271 ء میں ترکی کے ایک ساحلی قصبے کے انتہائی امیر شخص کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ بچپن ہی میں ان کے والدین وفات پا گئے۔ سینٹ نکولس بچپن ہی سے مہربان شخصیت کے حامل تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ہمسایہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اوراس کی تینوں بیٹیوں کی جہیز نہ ہونے کی وجہ شادی میں رکاوٹ تھی تو انہوں نے خاموشی سے ان کی مدد کی اور ان کی تینوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی۔ سینٹ نکولس رومن کیتھولک چرچ کی تاریخ میں سب سے کم عمر بشپ تھے۔ آپ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ رومن کیتھولک چرچ نے انہیں باقاعدہ سینٹ قرار دے دیا اور ان کا یوم وفات 6 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس روز خاص طور پر بچوں کو تحفے تحائف دئیے جاتے ہیں۔ اس وقت انگلستان میں چار سو ،بیلجیئم میں تین سو اور روم میں ساٹھ کلیسا سینٹ نکولس کے نام سے منسوب ہیں۔ ان کی سخاوت کا چرچا ڈچ ملاحوں کے ذریعے یورپ تک پہنچا اور اب کرسمس فادر اور سانتا کلاز ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں جو ایک ہی شخص کی نمائندگی کرتے ہیں۔کرسمس کینڈل روشن کرنا کرسمس کی روایات کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ شمع نور کا تصور پیش کرتی ہے۔ کینڈل لائٹ عبادت 25 سمبر سے پہلے آنے والے اتوار کو کی جاتی ہے اور یہ ایک گھنٹہ کی عبادت ہوتی ہے۔ اس عبادت کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میںانبیاء اکرام کی پیشن گوئیاں اور دوسرے حصے میں حضرت دائود پر نازل ہونے والی زبور میں سے مقدس گیت گائے جاتے ہیں۔گرجا گھروں میں کرسمس کی عبادات کا سلسلہ دسمبر کی پہلی اتوار سے شروع ہو جاتا ہے۔ گرجا گھروں کوخوب سجایا جاتا ہے۔ 24 دسمبر کی رات 11 بجے گرجاگھروں میں عبادت شروع ہو جاتی ہے اور 12 بجتے ہی کرسمس کی مبارکباد دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ رات کرسمس کی چاند رات ہوتی ہے۔ ایسے گائوں جہاں تمام عیسائی ہی آباد ہیں وہاں لوگ گروپوں کی صورت میں نکل کر گاتے بجاتے ہیں اور گائوں کے ہر گھر میں جا کر کرسمس کی مبارک باد دیتے ہیں۔ اس موقع پر ڈرائی فروٹ سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔کرسمس کے موقع پر کچھ لوگ خصوصی طور پر کیک بھی تیار کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ بریانی قورمہ اور کباب اس دن کے مخصوص پکوان سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی تہذیب وثقافت کے حوالے سے بھی پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ کرسمس کی تیاریاں 24 دسمبر کی رات تک اپنے نقطہ عروج تک پہنج جاتی ہیں اور مڈ نائٹ سروس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔مسیحی برادری میں دو بڑے مسلک ہیں ایک رومن کیتھولک اور دوسرا پروٹیسٹنٹ۔ ان کے عقائد میں بنیادی طور پر کوئی خاص فرق نہیں ہے ماسوائے چند ایک چیزوں کے جن پر رومن کیتھولک چرچ میں زور دیا جاتا ہے لیکن پروٹیسٹنٹس میں نہیں دیا جاتا۔٭…٭…٭