گھڑے
اسپیشل فیچر
اس روز ہم تمام دوست میرے گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ مولوی ارشد اچانک کہنے لگا ’’یار دلبر کمار اللہ بخشے میرے نانا جان کا نشانہ ایسا تھا کہ وہ گھڑے میں پانی ڈال کر لٹکا دیتے اور نشانہ لگاتے تو گھڑا وہیں رہ جاتا اور پانی نیچے آ جاتا‘‘ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا اچھو منہ بنا کر بولا ’’اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ میرے نانے کا نشانہ ایسا تھا کہ جب وہ نشانہ مارتے تو پانی وہیں رہ جاتا اور گھڑا ٹوٹ کر نیچے آ جاتا‘‘ مولوی آج شاید اچھے موڈ میں تھا اس لئے مسکرا کر گنگنانے لگا ’’گھڑا کمیاراں دا سُن جو گیا وے‘‘پھر وہ واقعہ سنانے لگا کہ ’’ایک دفعہ اچھو کا نانا حمام میں کچھ گنگناتے ہوئے سوچنے لگا کہ لعنت ہے مجھ پر اور اہل دنیا پر۔ خدا نے اتنی اچھی آواز عطا کی ہے لیکن آج تک اس کا فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی دنیا والوں نے اس سے محظوظ ہونے کی طرف کوئی توجہ کی۔ اب بھی وقت ہے آواز بدستور گائوں میں ہے۔ اگر موقع ملے تو فن موسیقی کی خدمت کر سکتا ہوں ۔یہ خیال آتے ہی گائوں کے بڑے چودھری کے پاس گیا اور کہا آج میں اپنے متعلق ایک ایسا انکشاف کرنے والا ہوں جس کے بارے مجھے خود بھی علم نہ تھا۔ میرا اشارہ اپنی شیریں آواز کی طرف ہے۔ میں بہت اچھا گویا ہوں۔چودھری نے یہ سن کر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ تشریف رکھیے اور حاضرین کو محظوظ کیجئے‘‘ اس کے نانے نے کہا کہ ’’اس سے پہلے کہ میں گانا شروع کروں۔ مجھے دو چیزیں مہیا کر دیں۔ پانی کا ایک گھڑا جو آدھا بھرا ہوا ہو اور ایک پورا بھرا ہوا ڈرم۔ حاکم نے کہا ڈرم تو اس وقت ڈیرے میں ہیں ہاں پانی کا گھڑا ابھی میسر آ سکتا ہے۔ چنانچہ گھڑا فورا لایا گیا اور اس کو پانی سے نصف بھر دیا گیا۔ نانا جی نے اپنا منہ گھڑے پر رکھ کر بڑی دلخراش اور مکروہ آواز نکالنی شروع کر دی یہ دیکھ کر ڈیرے دار کی طبیعت بے حد خراب ہوئی اور اس نے سارے ملازمین کو حکم دیا کہ اس گھڑے کے پانی سے اپنے ہاتھ تر کر کے اس کے منہ پر طمانچے لگائو، جب تک گھڑے کا پانی ختم نہ ہو جائے یہ عمل جاری رہے۔ اس کے نانے نے جب دو طمانچے کھائے تو سجدے میں گر پڑے اور خدا کا شکر ادا کرنے لگے۔ چوھری نے کہا، اس وقت شکر کا کیا مقام ہے ؟نانے نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ خوش قسمتی سے گھڑے میں منہ ڈال کر گانے لگا اگر ڈرم میں گاتا تو شاید کئی سال تک تھپڑ کھاتا رہتا مگر اس کا پانی ختم نہ ہوتا اور میرے ساتھ یہ تمام ملازمین بھی مصیبت میں گرفتار رہتے۔ اچھو جھیپ کر ایک واقعہ سنانے لگا کہ ایک مرتبہ مولوی کے ابّا ایک بڑا سا گھڑا لے کر بس میں سوار ہوئے کنٹریکٹر نے کہا، دو روپے تمہارے اور چار روپے اس گھڑے کے۔ اس پر اس کے ابا نے کافی دیر تک کنڈیکٹر سے جھگڑا کیا کہ گھڑے کا کرایہ نہ لگے۔ لیکن اس کی ایک نہ چلی آخرکار اس نے گھڑا کھولا اور کہنے لگا ارشد بیٹا باہر نکل آئو اس طرح تمہارا کرایہ کم لگے گا۔ اس سے پہلے کہ مولوی باہر نکلتا اس کا چھوٹا بھائی بولا ابا جان گھر سے چلتے وقت گھڑے میں ایک چوہا گر پڑا تھا۔ ابا گھبرا کر چلائے،پھر تم نے کیا کیا؟۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا، کرنا کیا تھا میں نے بلی کو بھی گھڑے میں ڈال دیا کہ وہ اسے کھا لے۔٭…٭…٭