مرزا اسد اللہ غالب کا خاندانی پس منظر
اسپیشل فیچر
تاریخ ولادت: مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف بہ میرزانوشہ، المخاطب بہ نجم الدولہ، دبیزالملک، اسداللہ خان بہادر نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در غالب در فارسی و اسد در ریختہ، شبِ ہشتم ماہ رجب 1212 ہجری کو شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔ خاندان: مرزا کے خاندان اور اصل و گوہر کا حال، جیسا کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں جا بجا ظاہر کیا ہے، یہ ہے کہ ان کے آباؤاجداد ایبک قوم کے ترک تھے اور ان کا سلسلہ نسب تور ابن فریدوں تک پہنچتا ہے۔ جب کیانی تمام ایران و توران پر مسلط ہوگئے اور تورانیوں کا جاہ و جلال دنیا سے رخصت ہو گیا تو ایک مدتِ دراز تک تور کی نسل ملک و دولت سے بے نصیب رہی مگر تلوار کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹی، کیونکہ ترکوں میں قدیم سے یہ قاعدہ چلا آتا تھا کہ باپ کے متروکہ میں سے بیٹے کو تلوار کے سوا اور کچھ نہ ملتا تھا؛ اور کل مال و اسباب اور گھر بار بیٹی کے حصے میں آتا تھا۔ ایک مدت کے بعد اسلام کے عہد میں اسی تلوار کی بدولت ترکوں کے بختِ خفتہ نے پھر کروٹ بدلی اور سلجوقی خاندان میں ایک زبردست سلطنت کی بنیاد قائم ہوگئی۔ کئی سو برس وہ تمام ایران و توران و شام و روم (یعنی ایشائے کوچک) پر حکمران رہے۔ آخر ایک مدت کے بعد سلجوقیوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اورسلجوق کی اولاد جا بجا منتشر و پراگندہ ہو گئی۔ انہیں میں سے ترسم خان نامی ایک امیرزادے نے سمرقند میں بودوباش اختیار کر لی تھی۔ مرزا کے دادا جو شاہ عالم کے زمانے میں سمرقند سے ہندوستان میں آئے، وہ اسی ترسم خان کی اولاد میں سے تھے۔ مرزا کے دادا کی زبان بالکل ترکی تھی اور ہندوستان کی زبان بہت کم جانتے تھے۔ اس زمانے میں ذوالفقار الدولہ مرزا نجف خاں شاہ عالم کے دربار میں دخل کلی رکھتے تھے۔ نجف خاں نے مرزا کے دادا کو سلطنت کی حیثیت کے موافق ایک عمدہ منصب دلوایا۔ ان کے کئی بیٹے تھے، جن میں سے دو کے نام معلوم ہیں: ایک مرزا کے باپ عبداللہ بیگ خان عرف میرزا دولہا اور دوسرے نصراللہ بیگ خان۔ عبداللہ بیگ خان کی شادی خواجہ غلام حسین خان کمیدان کی بیٹی سے ہوئی، جوکہ سرکار میرٹھ کے ایک معزز فوجی افسر اور عمائدِ شہر آگرہ میں سے تھے۔ مرزا عبداللہ بیگ خان نے بطور خانہ داماد کے تمام عمر سسرال میں بسر کی، اور ان کی اولاد نے بھی وہیں پرورش پائی۔ مرزا عبداللہ بیگ کے دو بیٹے ہوئے: ایک مرزا اسد اللہ خان، اور دوسرے مرزا یوسف خان جو ایامِ شباب میں مجنوں ہو گئے تھے اور اسی حالت میں 1857ء میں انتقال کیا۔ مرزا کے والد عبداللہ خان، جیسا کہ مرزا نے خود ایک خط میں لکھا ہے، اول، لکھنؤ میں جا کر نواب آصف الدولہ کے ہاں نوکر ہوئے، اور چندروز بعد وہاں سے حیدر آباد پہنچے اور سرکار آصفی میں تین سو سوار کی جمعیت سے کئی برس تک ملازم رہے، مگر وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی، اور وہ واپس آگرے میں چلے آئے۔ یہاں آ کر انہوں نے الور کا قصد کیا۔ راجہ بختاور سنگھ نے ابھی ان کو کوئی خاطر خواہ نوکری نہیں دی تھی کہ انہیں دنوں گڑھی کے زمیندار راج سے پِھر گئے۔ جو فوج اس گڑھی پر سرکوبی کے لیے بھیجی گئی، اس کے ساتھ مرزا عبداللہ بیگ خان کو بھی بھیجا گیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی ان کو گولی لگی اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، اور راج گڑھ میں دفن ہوئے۔ مرزا کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے ان کی پرورش کی۔ جب انگریزسرکار کی عملداری ہندوستان میں اچھی طرح قائم ہو گئی اور نواب فخرالدولہ احمد بخش خان لارڈ لیک کے لشکر میں شامل ہوئے، تو انہوں نے مرزا غالب کے چچا نصراللہ بیگ خان کو، جن سے نواب موصوف کی ہمشیرہ منسوب تھیں، سرکاری فوج میں بعہدہ رسالداری ملازم کرا دیا۔ ان کی ذات اور رسالے کی تنخواہ میں دو پرگنے یعنی سون اور سونسا، جو نواح آگرہ میں واقع ہیں، سرکار سے ان کے نام پر مقرر ہو گئے۔ جب تک وہ زندہ رہے دونوں پرگنے ان کے نامزد رہے اور ان کی وفات کے بعد ان کے وارثوں اور متعلقوں کی پنشن سرکار نے فیروز پور جھرکہ سے مقرر کرا دی جس میں سے سات سو روپیہ سالانہ مرزا کو آخر اپریل 1857ء تک برابر ملتا رہا۔ مگر فتحِ دہلی کے بعد تین برس تک یہ پنشن بند رہی۔ آخر جب مرزا کی ہرطرح سے بریت ہو گئی، تو پنشن پھر جاری ہو گئی، اور تین برس کی واصلات بھی سرکار نے عنایت کیں۔ لطیفہ: اکثر لوگ پنشن کا حال کرنے کو خط بھیجتے تھے۔ ایک دفعہ میر مہدی نے اسی مضمون کا خط بھیجا تھا۔ اس کے جواب میں مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’میاں بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آ گیا ہے، اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینہ روزے کھا کھا کر کاٹا، آگے خدا رازق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم ہی سہی‘‘۔٭…٭…٭