بچوں کی جذباتی نشوونما

 بچوں کی جذباتی نشوونما

اسپیشل فیچر

تحریر : کنیززہرہ


جذباتی نشوونما سے مراد ہر قسم کے احساسات کی نشوونما ، ان احساسات کے اظہار کے مناسب طریقے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہے مثلاً غصہ، حسد، نفرت، ڈر، خوف، خوشی اور غمی وغیرہ کے احساسات شامل ہیں۔ ان کی نشوونما کا مطلب ان پر قابو رکھنا اور اس کی تنظیم کرنا ہے۔ عام طور پرخیا ل کیا جا تا ہے کہ چھوٹے بچوں میں جذبات نہیں ہوتے لیکن یہ خیال غلط ہے۔ بچو ں میں جذبات اول روز سے ہی ودیعت ہوتے ہیں لیکن محتاج اور دست نگر ہونی کی بنا پر انہیں اظہار نہیں کر سکتے۔ بچہ اپنے ماحول سے ملنے والی توجہ، پیار، محبت یا لاپرواہی کو شروع دن سے ہی محسوس کرنے لگتاہے۔ مثلاً بچہ ماں کی آواز مسکراہٹ یا گود میں لینے کے انداز سے ماں کی اندرونی کیفیت محسوس کر لیتا ہے۔ اسے احساس ہو جاتا ہے کہ ماں غصے میں ہے۔ پیار کریں یا سرد مہری سے پیش آئیں بچہ اپنے جذبات کا اظہار رونے اور ہنسنے کی کیفیات سے کرتاہے مثلاً جب کسی خوشگوار تجربے سے گزرتا ہے تو خوشی کا اظہار اپنے منہ سے آوازیں نکال کر یا پھر اچھلنے اور مسکرانے سے کرتاہے لیکن ناخوشگوار جذبات کا اظہار بچہ جسم اکڑانے اور رونے وغیرہ سے کرتاہے۔ ابتدا میں اس کے جذبات کا اظہار غیر واضح ہوتا ہے۔ لیکن بچہ جسمانی طورپر جوں جوں بڑا ہوتا جاتاہے اس کے جذباتی اظہار کے طریقے بھی زیادہ واضح اور مختلف ہوتے جاتے ہیں مثلاً بچہ ماحول میں ناپسندیدہ اشیا اور آوازوں یا اجنبی لوگوں سے خوفزدہ ہو کر ماں کے پیچھے چھپ کر پناہ لینے دوڑتاہے۔ چوٹ لگنے یا تکلیف کی صورت میں وہ رونے لگتاہے۔ حسد اور عدم تحفظ کی صورت میں جذبات کا اظہار کس طریقے سے کرتا ہے اس کا انحصار اس کی جذباتی نشوونما پر ہوتا ہے۔ جذباتی نشوونما کے لحاظ سے بچوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۱۔ جذباتی بچے: یہ خوشگوار یا نا خوشگوار عوامل کے لیے اپنے جذبات کا اظہار نہایت واضح اور کھلم کھلا انداز سے کرتے ہیں اور ان میں خوب جوش اور ولولہ موجود ہوتا ہے مثلاً زور زور سے چلانا یا قہقہوں سے جذبات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ جذباتی طور پر ناپختہ ہوتے ہیں۔۲۔ جذباتی طورپر پختہ بچے: ایسے بچے ہر قسم کے حالات میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں ان میں جذباتی عمل اور ضبط موجود ہوتا ہے یہ اپنے جذبات کو نہایت دھیمے اور اچھے اندا ز میں ظاہر کرتے ہیں۔۳۔ ’’بے حس‘‘ بچے: یہ بچے غمی خوشی سختی یا نرمی کسی بھی موقع پر جذبات کا اظہار نہیں کرتے اور جذبات سے کم و بیش عاری کہلاتے ہیں۔ جذباتی نشوونما بچے کے اندر تصورات پیدا کرتی ہے۔ یہ اسے زندگی میں کامیاب یا ناکام بنانے کی ضامن ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ناخوشگوار جذبات بچے کی شخصیت میں گہرا گھائو لگا دیتے ہیں اور اسے زندگی کی مایوسیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ جذبات کے اظہار کے جس طریقے کو بار بار دھرایا جائے وہ عادت بن جاتا ہے اور بچہ ہر وقت اس عادت کو دہراتا ہے جس سے اسے سکون ملتاہے۔ یا اس کی خواہش کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اسے شروع میں تو ختم کیا جا سکتاہے لیکن پختہ ہونے پر اس کا رفع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جو بچے جذبات کا شدت سے کھل کر اظہار کرتے ہیں وہ اپنے چلبلے پن اور بے وجہ ہنسنے سے اپنی ناپختگی کا ثبوت دیتے ہیں جسے لو گ ناپسند کرتے ہیں ۔ اسی طرح جذبات کو مکمل طور پر دبانے والے لوگوں کے ذہن میں میانہ روی نہیں پائی جاتی البتہ جذبات پرمکمل قابو رکھنے کے ساتھ جو صحیح طریقے سے اظہار کرنا جانتے ہیں معاشرے میں کامیاب اور پسندیدہ شخصیت ہوتے ہیں۔ خاندان ہر بچے کے لیے سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ہے جہاں ابتدائی عمر میں باپ، ماں اورخاندان سے ہی بچہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ان کانظم و ضبط، رہنمائی اورحوصلہ افزائی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ بہت سے ماں باپ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مکمل بالغ انسانوں کی طرح سمجھتے ہیں اور جب چھوٹا بچہ ان کے معیار کے مطابق کوئی کام نہیں کرتا تو انہیں بہت رنج ہوتاہے اور وہ بلاوجہ بچے سے ناراض ہوتے ہیں اگر انہیں مندرجہ ذیل تین چار باتوں کا خیال رہے تو وہ اس قسم کی مایوسیوں سے دو چار نہ ہوں۱۔ بچہ ہمیشہ اس حالت میں نہ رہے گا۔ وہ آہستہ آہستہ زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہوتا جائے گا اور اس کے پٹھے اور جسم میں بھی بتدریج مضبوطی آتی جائے گی۔۲۔ اگر بچے کو کسی قسم کا نقصان یا تکلیف پہنچے تو وہ جلد بھول جاتاہے اس لیے اگر آپ اس کی کسی بات پر ناراض بھی ہوں تو وہ اس کو اپنے دل میں نہیں رکھتا۔۳۔ ہر ایک بچہ الگ اور انفرادی شخصیت رکھتاہے اس لیے اس کا مقابلہ اس کے کسی بہن بھائی، ہمسایے یا کسی دوست بچے سے نہیں کرنا چاہیے۔۴۔ بچہ اگر کوئی کام خرا ب کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے اس کام کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس قسم کی چھوٹی موٹی عادتیں وہ سیکھتا بھی رہے گا اورا نہیں بھولتا بھی رہے گا۔ کیونکہ یہ سب اس کے سن بلوغت تک پہنچنے کی کڑیاں ہیں۔۵۔ بچے میں بھی احساسات ہوتے ہیں اس لیے اس کی ہر حرکت پر غور کرنے سے اور اس کے چہرے پر جذبات کے اظہار کو سمجھنے سے ہم بچے کی بہت سی باتوں کو جان سکتے ہیں۔بچوں کی رہنمائی اور مسائل حل کرنے کے لیے چند تجاویز۱۔ بچے کے لیے خود مثال بننا۔۲۔ اصول و قواعد پر کاربند ہونا۔۳۔ مشفقانہ اور نرم برتائو کرنا۔۴۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرنا۔۵۔ جزا اور سزا کی کمی۔۶۔ بچے کی غلط عادات اور رویے کا تجزبہ کرنا اور پھر اس کا حل۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: سہیل اصغر ایک بڑا فنکار

یادرفتگاں: سہیل اصغر ایک بڑا فنکار

سہیل اصغر کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جو رائٹر کے لکھے سکرپٹ کے کردار میں رنگ بھرنے کیلئے اپنے پاس سے جو جزئیات شامل کرتے تھے ان کوششوں سے وہ کردار مزید نکھر جایا کرتا تھا۔15جون 1954ء کو ملتان میں پیدا ہونے والے سہیل اصغر 13نومبر 2021ء کواس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔ انہیں بچھڑے تین سال بیت چکے ہیں مگر اپنے کرداروں کی بدولت وہ آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے بولے ہوئے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ خصوصاً ان کا ڈرامہ ''خواہش‘‘ کا ڈائیلاگ ''ایک روپا، ایک روپا‘‘ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ ایک روپے کے عوض لوگوں کوسرکس دکھانے والا یہ باصلاحیت فنکار اب کسی نئے رول میں نظر نہیں آ ئے گامگر جو کام وہ کر گیا اسے بھلانا کسی طور ممکن نہیں۔سہیل اصغر کے والدین توانہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ بن فنکار گئے۔ایم اے انگریزی کرنا شروع کیا تو اس کے چار پیپرز کلیئر ہوگئے، 3 رہ گئے تھے۔ پھر ریڈیو میں آکر جب پیسے ملنا شروع ہوئے تو اِسی شعبے میں آگے بڑھتے چلے گئے۔وہ کہا کرتے تھے ''میں نے 76ء میں ریڈیو پاکستان سے آغاز کیا۔ ساتھ ہی ساتھ تھیٹر کرتا تھا پھر 79ء میں مجھے ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی تھی، پھر میں کزنز کے ساتھ مل کر بزنس کی طرف چلا گیا۔ دو تین برس اس میں لگے۔ اس کے بعد آخر میں مکمل طور پر ڈراموں ہی کی طرف آ گیا۔ 1988ء تک ملتان میں ریڈیو جوکی کے طور پر کام کرتے رہا‘‘۔ والدین نے اس شعبے میں آنے پر ان کی قطعی مخالفت نہیں کی ۔کہتے تھے، ''جب میرا ریڈیو پر پہلا پروگرام آن ایئر ہوا تو میرے والد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے، وہ بہت آرٹسٹک ذہن کے آدمی تھے۔ وہ تو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر پر کلر بھی خود ہی کرلیتے تھے‘‘اس بعد سہیل اصغر نے تھیٹر کے ڈراموں میں اداکاری شروع کردی۔ ''تھیٹر کی طرف لانے والوں میں اپنے دوست شوکت کانام لینا چاہوں گا۔ میرا اس طرف آنے کا ارادہ نہیں تھا، میں تو ایم اے کی کلاسز لیتا تھا۔ شام کو ہم ساتھ بیٹھتے تھے ایک دِن اُس نے میرا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم تھیٹر میں چل کر کام کرو۔ایک دِن تھیٹر پر کام کیا تو لوگوں کی داد ملنا شروع ہوگئی پھر میرا دِل بڑا ہوگیا۔ پھر اطہر شاہ خان جیدی کے بے شمار ڈرامے کئے، لوگوں نے بہت داد دی، میرے کام کو کافی سراہا گیا۔ میں نے ملتان میں رہتے ہوئے، منور سعید، عابد علی اور فردوس جمال کے ساتھ تھیٹر کیا۔ جب میں ملتان میں تھیٹر کرتا تھا تو لوگ مجھے کہتے تھے کہ یہ ہمارے ملتان کا قوی خان ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات تھی۔ قوی خان اپنے دور کے ہر دوسرے ڈرامے اور فلموں میں چھائے رہے ۔لاہور منتقل ہونے کی بات یوں بتاتے۔ ''اکثر لوگ کہتے تھے کہ تم لاہور آکر کام کرو لیکن مجھے ڈر لگتا تھا کیونکہ وہاں تو بڑے بڑے اداکار تھے۔ ایک دِن ایسا آیا کہ میں این او سی لے کر لاہور چلا گیا، وہاں مجھے مختلف پروڈیوسرز سے ملوایا گیا۔ مجھے کام ملنا شروع ہوگیا۔ وہیں نصرت ٹھاکر صاحب بھی ریڈیو ڈرامہ کرنے آتے تھے۔ اُن کے ساتھ ایک دو ڈرامے کئے پھر اُنہوں نے مجھے ٹی وی میں بلالیا وہاں میں نے کوئی آڈیشن نہیں دیا اور سیدھا ڈرامہ کرلیا۔ پھر ڈراموں میں کام چلتا چلا گیا۔ ‘‘سہیل اصغرنے ان گنت ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی ،وہ نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کو اپنا استاد کہتے تھے۔ سرکاری ٹی وی پر وہ ہر دوسرے ڈرامے میں کاسٹ ہوتے تھے۔ ملتان چھوڑ کر لا ہور کے رہائشی بنے ۔ جب رفتہ رفتہ ڈرامہ ا نڈسٹری کراچی شفٹ ہوگئی تو کراچی کے رہائشی بن گئے، یہاں آکر انھوں نے اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔ وہ کہتے تھے! ''فنکار کہیں کا بھی ہو اور کہیں بھی رہتا ہو وہ اپنے فن کی بدولت جانا پہچانا جاتا ہے ‘‘۔سہیل اصغر کے بقول ابتدا میں ان کے سبھی ڈرامے اچھے تھے۔ البتہ ''پیاس‘‘،'' خواہش‘‘،'' چاند گرہن''،'' لاج ‘‘اور ''ملکہ عالیہ‘‘ با کمال ڈرامے تھے ۔جب ''پیاس‘‘ ڈرامہ مقبول ہوا توانہیں فلموں کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ ''جنگجو گوریلے‘‘ ان کی پہلی فلم تھی، اس کے بعد ''اسلحہ‘‘ اور چند دیگر فلموں میں بھی کام کیا۔ فلموں ے متعلق وہ کہتے تھے ''میں نے بہت احتیاط سے مگر اچھے اداروں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا لیکن مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ جس دور میں ہم فلموں میں آئے وہ دور فلموں کیلئے اچھا نہیں تھا، وہ 90ء کا سلطان راہی کا دور تھا اور تمام فلموں میں ''کھڑاک‘‘ ہوتا تھا جبکہ ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر سے گزر کر آئے تھے، ہم یہی کوشش کرتے رہ گئے کہ فلموں میں حقیقت کا رنگ نظر آئے مگر ایسا نہ ہوسکا پھر اس دور کی فلمیں بھی مرنا شروع ہوگئیں ۔ ‘‘ 2012 میں سہیل اصغر کو تمغۂ امتیازکیلئے نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے وصول نہیں کیا۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اگر مجھے یہ اعزاز ملنا تھا تو 1992ء میں ''چاند گرہن‘‘ کے بعد مل جاتا۔ اب میں کسی فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں یا چھوٹے سے لے کر بڑے بڑے ہوٹل تک چلا جائوں ہر جگہ لوگ مجھے اتنا پیار کرتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، میرے لئے سب سے بڑاایوارڈ سرکاری ٹی وی کے تین ایوارڈ ہیں اور تین ایوارڈز بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔‘‘ سہیل اصغر کو1998میں 10 سالہ تقریب میں ' خواہش میں ' ایک روپا، ایک روپا‘‘ والے کردارپر پہلا ایوارڈ ملا تھا۔ دوسرا لاہور اسٹیشن کا ڈرامہ تھا ''کاجل‘‘ اس پر ملا اور تیسرا کراچی میں حیدر امام کا ڈرامہ تھا اس پر دیا گیا۔چند مقبول ڈرامےچاند گرھن، آوازیں، منچلے کا سودا،تیری میری لو سٹوری، آپ کی کنیز، کیسی ہے دیوانگی، اوڑس پڑوسخواہش،پیاس، آسمان، آگمشہور تکیہ کلام''صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے‘‘ (ڈرامہ: آسمان)''ایک روپا، ایک روپا‘‘ (ڈرامہ:خواہش) 

New researchخوش مزاج لوگوں کو میٹھا کیوں کہا جاتا ہے

New researchخوش مزاج لوگوں کو میٹھا کیوں کہا جاتا ہے

شاید اسی لیے آپ کا مزاج بھی ''میٹھا‘‘ ہے۔ دراصل سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ میٹھا کھانے کے شوقین افراد عموماً خوش اخلاق ہوتے ہیںاور انہیں اور ملنساربھی قرار دیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسے لوگ زیادہ نرم مزاج اور ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ''جرنل آف ریسرچ ان پرسنیلٹی‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میٹھی چیزوں کو پسند کرنے کا رجحان خوش اخلاقی سے جڑا ہوا ہے، یہ مطالعہ پنسلوانیا کی گیٹسبرگ کالج کے محققین نے مرتب کیا ہے۔ ان نتائج کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ہم خوش مزاج لوگوں کو ''میٹھے‘‘ کہہ کر کیوں پکارتے ہیں۔ یہ جانچنے کیلئے کہ آیا یہ تعلق عالمی ہے، محققین نے 1,629 شرکاء کو بھرتی کیا اور ان سے ایک سروے مکمل کروایا تاکہ ان کی کشادگی، فرض شناسی، خوش اخلاقی، سماجی پن اور اعصابی پن کی سطحوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کے بعد انہیں 10 میٹھی اشیاء مثلاً کینڈی، میپل سیرپ اور کشمش کو ایک سے چھ تک کے پیمانے پر درجہ دینے کے لیے کہا گیا، جس میں ایک کا مطلب تھا ''انتہائی ناپسند‘‘ اور چھ کا مطلب ''انتہائی پسند‘‘۔آخر میں، انہوں نے میٹھے، کھٹے، نمکین، کڑوے اور مسالے دار کھانوں کے ذائقے کے اعتبار سے اپنی پسندیدگی کی درجہ بندی کی، تاکہ یہ جان سکیں کہ ذائقے کے سپیکٹرم میں وہ کہاں آتے ہیں۔ انہوں نے پایا کہ خوش اخلاقی اور میٹھا پسند کرنے کے درمیان ثقافتی طور پر ایک تعلق موجود ہے۔ محققین نے اعلان کیا کہ ''میٹھی چیزوں کی پسند ایک عالمی انسانی خصوصیت ہے جسے مثبت سمجھا جاتا ہے‘‘۔ اگرچہ اس تعلق کے پیچھے ممکنہ طور پر کئی عوامل ہیں، لیکن محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس کا تعلق زیادہ تر زبان سے ہے، نہ کہ چینی کے اثرات کے نفسیاتی نتائج سے۔انہوں نے لکھا، اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ مٹھاس اور خوش اخلاقی کا تعلق استعارے کے ذریعے جڑا ہوا ہے، اور لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ یا تو خوش اخلاق ہیں یا میٹھا پسند کرتے ہیں، تو لوگ خود کو ایسے فرد کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں جو خوش اخلاق ہے اور میٹھا پسند کرتا ہے۔ لوگ ان تجربات سے مطابقت محسوس کر سکتے ہیں جو ان کی شخصیات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ استعارے شاید اس مطابقت کو جانچنے کا ایک طریقہ ہو سکتے ہیں۔آخر کار، محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان اثرات میں شامل درست میکانزم کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ تحقیق اپنی نوعیت میں ''تعلقی‘‘ ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا گرم مسالے پسند کرنے والے افراد واقعی تیز مزاج ہوتے ہیں، نمکین کھانوں کے شوقین لوگوں کی طبیعت میں کھارا پن ہوتا ہے، یا پھر ٹریل مکس پسند کرنے والے افراد تھوڑے سے ''پاگل‘‘ ہوتے ہیں؟۔ تاہم ماضی کی تحقیقات میں تلخ ذائقے پسند کرنے اور سائیکوپیتھک، مخالفِ سماج اور سادیسٹک (اذیت پسندانہ) شخصیت کی خصوصیات کے درمیان تعلق دکھایا گیا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

خونی اتوار13نومبر1887ء کو لندن میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جسے ''خونی اتوار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آئر لینڈ میں بے روزگاری اور جبرکے خلاف احتجاج اور ایم پی ولیم کی رہائی کا مطالبہ کرنے والوں کی میٹروپولیٹن پولیس اور برطانوی فوج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ یہ مظاہرہ سوشل ڈیمو کریٹک فیڈریشن اور آئرش نیشنل لیگ کے زیر اہتمام کیا جا رہا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق400 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 75افراد بری طرح زخمی ہوئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔اسرائیل کا اردن پر حملہ13نومبر1966ء کو ٹینکوں کے ذریعے اسرائیلی فوج اردن میں داخل ہو گئی جس نے سامو نامی شہر پر حملہ کر دیا، اس حملے میں سیکڑوں شہری ہلاک ہو گئے۔ نومبر کے آغاز سے ہی اردن پر اسرائیلی حملے جاری تھے۔ مغربی کنارے کے ایک گائوں السموع پر اسرائیلی فضائی حملہ کیا جو اس وقت اردن کے زیرِ انتظام تھا۔ اس حملے میں 18 ہلاکتیں ہوئیں اور 54 افراد زخمی ہوئے تھے۔ٹرنہم گرین کی جنگٹرنہم گرین کی جنگ 13 نومبر 1642ء کو ٹرنہم گرین گاؤں کے قریب انگریزی خانہ جنگی کے پہلے مرحلے کے اختتام میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں کنگ چارلس اوّل کی افواج اور ایسیکس کے ارل کی کمان میں بہت بڑی پارلیمانی فوج نے شرکت کی۔ شاہی فوج کے لندن جانے کے راستے کو فوری طور پر روک دیا گیا اور پارلیمنٹیرینز نے ایک اہم اسٹریٹجک فتح حاصل کی کیونکہ انہوں نے چارلس اور اس کی فوج کو موسم سرما کے محفوظ مقامات کیلئے آکسفورڈ کی طرف پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔پرسٹیج آئل لیک2002ء میں آج کے روز 26سال پرانا ایک ناقص ساخت کا آئل ٹینکر77ہزار ٹن ایندھن کے ساتھ ڈوب گیا۔ طوفان کی وجہ سے ٹینکر پھٹا لیکن فرانسیسی، ہسپانوی اور پرتگالی حکومتوں نے جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بعدازاں یہ جہاز گالیسیا کے ساحل سے تقریباً 210کلومیٹر کے فاصلے پر ڈوب گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ٹینکر کے تیل کے پھیلنے سے ہسپانوی، فرانسیسی اور پرتگالی ساحلوں کی ہزاروں کلومیٹر لمبی پٹی آلودہ ہو گئی۔ ماہی گیری کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا۔

نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

12 نومبر کو دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ یہ دن منانے کا مقصد اس بیماری سے بچائو اور احتیاطی تدابیر سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔نمونیا پھیپھڑوں میں ہونے والے انفیکشن کو کہتے ہیں۔یہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کیلئے ایکسرے کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ہزار سے زائد بچے نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ37 ہزار بچوں کی موت نمونیا کی وجہ سے ہوئی۔ سب سے زیادہ نمونیا پائے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں 2018ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے نمونیا سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بھارت دوسرے اور نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ روزانہ کم از کم 2200 بچے نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عمر بچوں میں دیکھنے میں آئیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار بچے زندگی کے پہلے مہینے میں ہی نمونیا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بچوں کی طرح بزرگ افراد بھی نمونیا کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ، ذیابیطس اور امراض قلب،انہیں اگر نمونیا ہوجائے تو یہ ان کیلئے شدید خطرے کی بات ہے۔جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔علامات : بلغم والی کھانسی ،تیز بخار، سانس لینے میں دشواری ،سینے میں درد ،بہت زیادہ پسینے آنا، معدہ یا پیٹ کا درد ،پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا ،بھوک ختم ہونا کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا ،حد درجہ تھکاوٹ، ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔علاج: نمونیا میں ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر کورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہوجائے تب بھی کورس کو ادھورا نہ چھوڑا جائے۔نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟: اگر ڈاکٹر کو نمونیا کا شبہ ہوتو ممکن ہے کہ آپ کے بچے کے سینے کا ایکسرکرے۔ ڈاکٹر آپ کے بچے کے خون کے کچھ ٹیسٹ بھی کروانے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ وائرس کے باعث ہونے والے نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹک سے کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وائرل اور بیکٹیریل کی الگ الگ وجوہات بتانا مشکل ہو سکتی ہیں۔ اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کرنے سے پہلے آپ کے بچے کا ڈاکٹر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا۔ اس مرض سے متاثرہ شدہ پھیپھڑے ایکسرے میں سفید آتے ہیں یہ سفید سایہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں مادہ بننے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔کھانسی :اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ کے بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے، جیسے ہی نمونیا تحلیل ہوتا ہے آپ کا بچہ بلغم سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کھانسے گا۔ ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔ احتیاط :اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کیلئے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہے۔ اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ عام طور پر بازار میں دستیاب ادویات کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہو گیا ۰ہو۔متاثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ 

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیش گوئی تو آئن سٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت 64سال پہلے ہوئی۔پہلی مرتبہ لیزر شعاعوں کو سولہ مئی 1960ء کو امریکی انجینئر تھیوڈور میمن نے دنیا سے متعارف کروایا تھا۔64 سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کیلئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دْنیا میں جاری ہے۔حال ہی میں چین کے سائنسدانوں نے ایک حقیقی ''ڈیتھ اسٹار‘‘لیزر ہتھیار میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نیا ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار کئی چھوٹی برقی مقناطیسی لہروں کو یکجا کر کے ایک بڑا لیزر بیم بناتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ''اسٹار وارز‘‘کی ڈیتھ اسٹار نے کئی چھوٹی شعاعوں کو یکجا کر کے ایک طاقتور شعاع سے سیاروں کو تباہ کیا تھا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ''ultra-high time precision synchronization‘‘ کے عمل میں ہے، جو شعاعوں کو آپس میں جوڑنے اور ایک ہی مقام پر مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق، چھوٹی لیزر شعاعوں کے درمیان وقت کی تفریق 170 پیکو سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی سیکنڈ کے کھربوں حصوں کے برابر۔ محققین نے یہ کامیابی آپٹیکل فائبرز کی مدد سے حاصل کی۔ یہ عظیم ٹیکنالوجی کی ترقی جو آپٹیکل فائبرز کے استعمال سے ممکن ہوئی نے ہتھیار کے نظام کو فوجی تجربات میں کامیاب ہونے کی اجازت دی۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار امریکی جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹس کے سگنلز کو دبا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ شعاعوں کی مشترکہ طاقت انفرادی شعاعوں کی طاقت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ ہتھیار خلا میں استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ زمینی، بحری یا فضائی افعال کیلئے۔ چین لیزر ہتھیاروں پر طویل عرصے سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت ایک ''دماغی خلل ڈالنے والا‘‘ ہتھیار تیار کر رہی ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی ممالک کے فوجی اور حکومتی عہدیداروں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسٹ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو نے کہا کہ یہ ہتھیار ممالیہ کے دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ چین نے چند سال قبل ایک پروٹو ٹائپ لیزر رائفل بھی تیار کی تھی جو نصف میل کی دوری سے ہدف کو جلا سکتی تھی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مائی لائی قتل عام12 نومبر 1969ء کو امریکہ کے ''پولٹزر ایوارڈ‘‘ یافتہ صحافی سیمر ہیرش نے دنیا کو ویتنام میں ہونے والے ''مائی لائی قتل عام‘‘ سے آگاہ کیا۔ اس قتل عام میں امریکی فوجیوں نے بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ویت نام جنگ کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فوجیوں نے مائی لائی اور میرا کیہ کے گاؤں میں ویتنامی شہریوں کا یہ قتل عام 6 مارچ 1968ء کو کیا تھا۔جرمنی میں ریفرنڈم12نومبر1933ء کو جرمنی میں لیگ آف نیشنز سے دستبرداری کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا گیا۔اس ریفرنڈم کو95.1فیصد لوگوں نے منظور کیا۔ یہ ہٹلر کی قیادت میں ہونے والا پہلا ریفرنڈم تھا۔ بیلٹ پیپر پر یہ سوال تحریر کیا گیا تھا کہ '' کیا آپ جرمن حکومتی پالیسی کو منظور کرتے ہیں اور کیا آپ اپنی رائے اور مرضی کے اظہار کے طور پر اس بات کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘؟پیرس نمائش 12 نومبر 1900ء میں بین الاقوامی پیرس نمائش دیکھنے والے زائرین کی تعداد 50 ملین (5کروڑ)کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ اس نمائش میں سلطنت عثمانیہ کے آجروں سمیت 76 ہزار سے زائد آجروں نے شرکت کی۔ نمائش میں سینما ، فلمیں اورچلتی سیڑھیاں زائرین کی توجہ کا مرکز بنیں۔جہازوں کا ہوا میں تصادم12نومبر1996ء کو بھارت کی فضا میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا۔ سعودی عرب کی پرواز 763 اور قازقستان ایئر لائنز کی پرواز 1907دہلی کے مغرب میں 100کلومیٹر دور واقعہ چرخی دادری میں ایک دوسرے سے ہوا میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں دونوں طیاروں میں سوار349افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ فضاء میں ہونے والے حادثات میں سب سے مہلک حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حادثے کی وجہ قازقستان ایئر لائنز کے عملے کا جہاز کی بلندی برقرار نہ رکھنا تھا۔ ایس ٹی ایس ٹو خلائی شٹل''ایس ٹی ایس ٹو‘‘ ناسا کی جانب سے بھیجا جانے والا دوسرا خلائی شٹل مشن تھا۔ جس کا آغاز 12نومبر1981ء کو کیا گیا اور دو دن بعد14نومبر کو یہ اپنے مدار میں داخل ہوا۔ اس شٹل کے ذریعے بہت سے تجربات کئے گئے جن میں شٹل امیجنگ ریڈار کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس شٹل کی جانب سے سرانجام دیئے جانے والے اہم کاموں میں ''آربیٹل مینیوورنگ سسٹم‘‘ پر مختلف ٹیسٹ بھی شامل تھے۔ جن میں مدار میں رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنا اور اس کے مدار میں مختلف ایڈجسٹمنٹ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔ایردوت معاہدہایردوت معاہدہ 12نومبر1995ء کو جمہوریہ کروشیا اور مقامی حکام کے درمیان سرکاری طور پر طے کیا جانے والا ایک معاہدہ تھا۔ مشرقی کروشیا میں جنگ آزادی کے پرامن حل پر مشرقی سلاونیا، بارانجا اور مغربی سیرمیم کے علاقے کے سرب حکام نے مرکزی حکومت کے کنٹرول کا عمل شروع کیا اور اقلیتوں کے حقوق اور پناہ گزینوں کی واپسی پر ضمانتوں کا ایک سیٹ فراہم کیا۔ اس معاہدے کا نام ایردوت Erdut رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر دستخط ایردوت گاؤں میں کئے گئے تھے۔