بچوں کی جذباتی نشوونما
جذباتی نشوونما سے مراد ہر قسم کے احساسات کی نشوونما ، ان احساسات کے اظہار کے مناسب طریقے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہے مثلاً غصہ، حسد، نفرت، ڈر، خوف، خوشی اور غمی وغیرہ کے احساسات شامل ہیں۔ ان کی نشوونما کا مطلب ان پر قابو رکھنا اور اس کی تنظیم کرنا ہے۔ عام طور پرخیا ل کیا جا تا ہے کہ چھوٹے بچوں میں جذبات نہیں ہوتے لیکن یہ خیال غلط ہے۔ بچو ں میں جذبات اول روز سے ہی ودیعت ہوتے ہیں لیکن محتاج اور دست نگر ہونی کی بنا پر انہیں اظہار نہیں کر سکتے۔ بچہ اپنے ماحول سے ملنے والی توجہ، پیار، محبت یا لاپرواہی کو شروع دن سے ہی محسوس کرنے لگتاہے۔ مثلاً بچہ ماں کی آواز مسکراہٹ یا گود میں لینے کے انداز سے ماں کی اندرونی کیفیت محسوس کر لیتا ہے۔ اسے احساس ہو جاتا ہے کہ ماں غصے میں ہے۔ پیار کریں یا سرد مہری سے پیش آئیں بچہ اپنے جذبات کا اظہار رونے اور ہنسنے کی کیفیات سے کرتاہے مثلاً جب کسی خوشگوار تجربے سے گزرتا ہے تو خوشی کا اظہار اپنے منہ سے آوازیں نکال کر یا پھر اچھلنے اور مسکرانے سے کرتاہے لیکن ناخوشگوار جذبات کا اظہار بچہ جسم اکڑانے اور رونے وغیرہ سے کرتاہے۔ ابتدا میں اس کے جذبات کا اظہار غیر واضح ہوتا ہے۔ لیکن بچہ جسمانی طورپر جوں جوں بڑا ہوتا جاتاہے اس کے جذباتی اظہار کے طریقے بھی زیادہ واضح اور مختلف ہوتے جاتے ہیں مثلاً بچہ ماحول میں ناپسندیدہ اشیا اور آوازوں یا اجنبی لوگوں سے خوفزدہ ہو کر ماں کے پیچھے چھپ کر پناہ لینے دوڑتاہے۔ چوٹ لگنے یا تکلیف کی صورت میں وہ رونے لگتاہے۔ حسد اور عدم تحفظ کی صورت میں جذبات کا اظہار کس طریقے سے کرتا ہے اس کا انحصار اس کی جذباتی نشوونما پر ہوتا ہے۔ جذباتی نشوونما کے لحاظ سے بچوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۱۔ جذباتی بچے: یہ خوشگوار یا نا خوشگوار عوامل کے لیے اپنے جذبات کا اظہار نہایت واضح اور کھلم کھلا انداز سے کرتے ہیں اور ان میں خوب جوش اور ولولہ موجود ہوتا ہے مثلاً زور زور سے چلانا یا قہقہوں سے جذبات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ جذباتی طور پر ناپختہ ہوتے ہیں۔۲۔ جذباتی طورپر پختہ بچے: ایسے بچے ہر قسم کے حالات میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں ان میں جذباتی عمل اور ضبط موجود ہوتا ہے یہ اپنے جذبات کو نہایت دھیمے اور اچھے اندا ز میں ظاہر کرتے ہیں۔۳۔ ’’بے حس‘‘ بچے: یہ بچے غمی خوشی سختی یا نرمی کسی بھی موقع پر جذبات کا اظہار نہیں کرتے اور جذبات سے کم و بیش عاری کہلاتے ہیں۔ جذباتی نشوونما بچے کے اندر تصورات پیدا کرتی ہے۔ یہ اسے زندگی میں کامیاب یا ناکام بنانے کی ضامن ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ناخوشگوار جذبات بچے کی شخصیت میں گہرا گھائو لگا دیتے ہیں اور اسے زندگی کی مایوسیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ جذبات کے اظہار کے جس طریقے کو بار بار دھرایا جائے وہ عادت بن جاتا ہے اور بچہ ہر وقت اس عادت کو دہراتا ہے جس سے اسے سکون ملتاہے۔ یا اس کی خواہش کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اسے شروع میں تو ختم کیا جا سکتاہے لیکن پختہ ہونے پر اس کا رفع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جو بچے جذبات کا شدت سے کھل کر اظہار کرتے ہیں وہ اپنے چلبلے پن اور بے وجہ ہنسنے سے اپنی ناپختگی کا ثبوت دیتے ہیں جسے لو گ ناپسند کرتے ہیں ۔ اسی طرح جذبات کو مکمل طور پر دبانے والے لوگوں کے ذہن میں میانہ روی نہیں پائی جاتی البتہ جذبات پرمکمل قابو رکھنے کے ساتھ جو صحیح طریقے سے اظہار کرنا جانتے ہیں معاشرے میں کامیاب اور پسندیدہ شخصیت ہوتے ہیں۔ خاندان ہر بچے کے لیے سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ہے جہاں ابتدائی عمر میں باپ، ماں اورخاندان سے ہی بچہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ان کانظم و ضبط، رہنمائی اورحوصلہ افزائی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ بہت سے ماں باپ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مکمل بالغ انسانوں کی طرح سمجھتے ہیں اور جب چھوٹا بچہ ان کے معیار کے مطابق کوئی کام نہیں کرتا تو انہیں بہت رنج ہوتاہے اور وہ بلاوجہ بچے سے ناراض ہوتے ہیں اگر انہیں مندرجہ ذیل تین چار باتوں کا خیال رہے تو وہ اس قسم کی مایوسیوں سے دو چار نہ ہوں۱۔ بچہ ہمیشہ اس حالت میں نہ رہے گا۔ وہ آہستہ آہستہ زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہوتا جائے گا اور اس کے پٹھے اور جسم میں بھی بتدریج مضبوطی آتی جائے گی۔۲۔ اگر بچے کو کسی قسم کا نقصان یا تکلیف پہنچے تو وہ جلد بھول جاتاہے اس لیے اگر آپ اس کی کسی بات پر ناراض بھی ہوں تو وہ اس کو اپنے دل میں نہیں رکھتا۔۳۔ ہر ایک بچہ الگ اور انفرادی شخصیت رکھتاہے اس لیے اس کا مقابلہ اس کے کسی بہن بھائی، ہمسایے یا کسی دوست بچے سے نہیں کرنا چاہیے۔۴۔ بچہ اگر کوئی کام خرا ب کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے اس کام کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس قسم کی چھوٹی موٹی عادتیں وہ سیکھتا بھی رہے گا اورا نہیں بھولتا بھی رہے گا۔ کیونکہ یہ سب اس کے سن بلوغت تک پہنچنے کی کڑیاں ہیں۔۵۔ بچے میں بھی احساسات ہوتے ہیں اس لیے اس کی ہر حرکت پر غور کرنے سے اور اس کے چہرے پر جذبات کے اظہار کو سمجھنے سے ہم بچے کی بہت سی باتوں کو جان سکتے ہیں۔بچوں کی رہنمائی اور مسائل حل کرنے کے لیے چند تجاویز۱۔ بچے کے لیے خود مثال بننا۔۲۔ اصول و قواعد پر کاربند ہونا۔۳۔ مشفقانہ اور نرم برتائو کرنا۔۴۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرنا۔۵۔ جزا اور سزا کی کمی۔۶۔ بچے کی غلط عادات اور رویے کا تجزبہ کرنا اور پھر اس کا حل۔٭…٭…٭