اشفاق احمد… ایک باکمال افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس آج ان کی 13ویں برسی منائی جا رہی ہے
اسپیشل فیچر
کچھ فنکار ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک میدان میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر کئی میدانوں میں وہ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انہی نادر روزگار لوگوں میں ایک نام اشفاق احمد کا بھی ہے جو افسانہ نگار بھی تھے‘ ڈرامہ نویس بھی اور ناول نگار بھی تھے۔22 اگست 1925ء کو پیدا ہونے والے اشفاق احمد نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انہیں ان کی خدمات پر تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی ضلع مکتسر سے حاصل کی ۔تقسیم ہند سے تھوڑا عرصہ قبل وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ ان کی اہلیہ بانو قدسیہ بھی ان کی ہم جماعت تھیں۔ اشفاق احمد کے بارے میں کہا جاتا ہی کہ تقسیم ہند کے بعد جب اشفاق احمد والٹن کے مہاجر کیمپ پہنچے تو وہ 24 گھنٹے میگافون پر لاکھوں مہاجرین کو ہدایات جاری کیا کرتے تھے۔ بعدازاں انہیں ریڈیو پاکستان آزاد کشمیر میں نوکری مل گئی۔ پھر انہیں دیال سنگھ کالج لاہور میں دو سال کیلئے لیکچرر شپ مل گئی۔ اس کے بعد وہ روم چلے گئے جہاں انہوں نے اردو نیوز کاسٹر کی حیثیت سے ریڈیو روم میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہ روم یونیورسٹی میں اردو بھی پڑھاتے تھے۔یورپ میں قیام کے دوران اشفاق احمد نے اطالوی اور فرانسیسی زبانوں میں ڈپلومے حاصل کیے۔ انہوں نے نیویارک یونیورسٹی سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ میں خصوصی ڈپلومہ حاصل کیا۔انہوں نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھیں جو پھول (بچوں کا جریدہ) میں شائع ہوتی تھیں۔ یورپ سے پاکستان آنے کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی ادبی جریدہ نکالا جس کا نام تھا ’’داستان گو‘‘۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان میں سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ حکومت پاکستان نے انہیں صوفی غلام مصطفی تبسم کی جگہ مشہور اردو ہفت روزہ لیل و نہار کا ایڈیٹر مقرر کردیا۔ 1962 میں اشفاق احمد نے اپنا مشہور زمانہ ریڈیو پروگرام ’’تلقین شاہ‘‘ شروع کیا۔ اس ڈرامے کی وجہ سے وہ گائوں اور قصبوں کے لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ 1966ء میں انہیں مرکزی اردو بورڈ کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ جس کا بعد میں نام اردو سائنس بورڈ رکھ دیا گیا۔ وہ اس عہدے پر 29 برس تک کام کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وزارت تعلیم میں بطور مشیر کام کرتے رہے۔بعد کے سالوں میں اشفاق احمد کا رجحان صوفی ازم کی طرف ہو گیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان کی قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کے ساتھ گہری وابستگی تھی۔ وہ سرکاری ٹی وی کے پروگرام ’’بیٹھک‘‘ اور ’’زاویہ‘‘ میں جلوہ گر ہوتے تھے جہاں وہ سامعین کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیتے۔جہاں تک اشفاق صاحب کی ڈرامہ نویسی کا تعلق ہے تو اس میدان میں بھی انہوں نے کمالات دکھائے۔ انہوں نے ایسے شاندار ڈرامے لکھے کہ لوگ ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ ان کے ڈراموں کا سلسلہ ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کو بے حد پسند کیا گیا۔ ڈراموں کی ان سیریل میں یادگار ڈرامے تخلیق کئے گئے۔ خاص طور پر ان کا ایک ڈرامہ ’’قراۃ العین‘‘ شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ڈرامے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی طویل دورانیے کے ڈرامے بھی لکھے جنہوں نے بے حد مقبولیت حاصل کی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ بانو قدسیہ نے بھی معرکہ آرا ڈرامے لکھے۔ ان کے کئی افسانے اردو ادب کے بہترین افسانے ہیں اور خاص طور پر ’’گڈریا‘‘ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ ’’گڈریا‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جسے جتنی بار پڑھا جائے کم ہے۔ مذہبی تنگ نظری اور تعصب پر شاید اس سے بڑا افسانہ آج تک نہیں لکھا گیا۔ ان کی تصنیفات میں ’’ایک محبت سو افسانے‘ گڈریا‘ ایک ہی بھول‘ طلسم ہوش ربا‘ سفر مینا‘ کھیل تماشا‘ سفردر سفر‘ کھٹیا وٹیا‘ بابا صاحبا‘ عرض مصنف‘ زاویہ‘ من چلے کا سودا‘ بند گلی‘ طوطا کہانی‘ ایک محبت سو ڈرامے‘ ننگے پائوں‘ اچے برج لہور دے‘ حیرت کدہ‘ گلدان‘ جنگ بجنگ‘ حسرت تعمیر‘ دیھینگا مشتی‘‘ اور کئی دوسری کتابیں شامل ہیں۔سرکاری ٹی وی پر ان کی دو پنجابی سیریلز ’’ٹاہلی تھلے اور اچے برج لہور دے‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ ان پنجابی سیریلز نے بے شمار اداکاروں کو متعارف کرایا۔ ان میں سے کئی ایک فلموں کے بھی مقبول اداکار بن گئے۔ اشفاق صاحب کے اقوال بھی بڑے مشہور ہوئے۔ خاص طور پر ’’برداشت‘‘ کے حوالے سے ان کا یہ قول بہت مشہور ہے ’’برداشت کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے۔ بس ذرا اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے‘‘۔اشفاق احمد اپنی رہائشگاہ ’’داستان سرائے‘‘ میں اپنے مداحوں سے خطاب بھی کیا کرتے تھے اور ان باتوں میں بہت سے سوالوں کے جواب ہوتے تھے۔ وہ ہر کسی کا سوال تحمل سے سنتے اور پھر تسلی بخش جواب دیتے۔ ان کی باتوں سے علمیت جھلکتی تھی اور سننے والے غوروغوض کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ان سے کئی لوگ اختلاف بھی کرتے تھے لیکن وہ بڑے صبروتحمل سے ان کی بات سنتے اور پھر مدلل جواب سے ان کو قائل کر لیتے تھے۔ ایک زمانے میں وہ سوشلزم سے بھی متاثر تھی لیکن پھر وہ صوفی ازم کی طرف راغب ہو گئے۔ ان کے نزدیک صوفی ازم ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسانی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ان کے لیکچرز میں طمع‘ لالچ‘ بے حسی اور خودغرضی جیسے موضوعات شامل ہوتے تھے اور وہ ان تمام برائیوں کی جڑیں تلاش کرتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کا حل بھی بتاتے تھے۔اشفاق احمد ایک بلند پایہ شخصیت تھے اور ان کے فن کی کئی جہتیں تھیں۔ ان کے مداحین کا حلقہ بہت وسیع تھا جو آج بھی ان کے شیدائی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے لاتعداد لوگوں کو متاثر کیا۔ 7 ستمبر 2004ء کو اشفاق صاحب عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ ایسے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔