علاج پرہیز سے بہتر ہے
اسپیشل فیچر
وہ دن گئے جب اخبار کا مطلب محض خبریں ہوتا تھا۔ خبریں تو آدمی ریڈیو سے بھی سن سکتا ہے۔ چنڈو خانے میں بھی سن سکتا ہے، حجام کے بال کٹواتے ہوئے اور پنساری کے ہاں سودا لیتے ہوئے بھی۔ بلکہ یہ خبریں اخبار سے زیادہ تازہ ہوتی ہیں۔ اخبار فی زمانہ بارہ مسالے کی چاٹ ہے، یہ بات نہیں کہ خبریں نہیں ہوتیں۔ سب خبریں ہوتی ہیں، جن کی آپ کو ضرورت ہے، جن کی آپ کو ضرورت نہیں بھی ہے، صرف حال کی نہیں مستقبل کی بھی۔ آپ اپنی تاریخ پیدائش یاد رکھیے اور اپنا برج معلوم کیجیے، پھر فی الفور معلوم ہو جائے گا کہ آپ کتنے پانی میں ہیں اور کل کتنے پانی میں ہوں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام اخبارات اور رسالوں میں آپ کے مقدر کے بارے میں ایک ہی بات لکھی ہو، بے شک تقدیر پتھر کی تقدیر نہیں ہوتی لیکن اخبار تو سیاہی کی لکیریں ہوتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ جس میں آپ کا مستقبل خوش آئند بتایا گیا ہے اس پر اعتبار کیجیے۔ باقی کو چھوڑ دیجیے۔ بہرحال موضوع سخن ہمارا یہ نہیںہے۔ اخبار میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ گوبھی پکانے کی ترکیبیں، میزپوش کی کشیدہ کاری کے نمونے، کپڑوں سے اچار کے داغ چھڑانے کے نسخے بھی اور طبی مشورے بھی اور اشتہار بھی۔ ویسے آدھے سے زیادہ اشتہارات بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کو طبی مشورے ہی کہنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ اخبار میں ڈاکٹر اور حکیم کا کالم استعمال کرلیں، یعنی اس کالم میں دیے ہوئے مشورے اور کچھ فائدہ نہ ہو تو کہاں جائیں۔ آپ کے مایوس العلاج مریضوں کے لیے ہی تو یہ سارے حکیم، سنیاسی باوا، پروفیسر اور عامل کامل اور جرمن، جاپان، خراسان، چین، انڈونیشیا اور لنکا کے دواخانے ہیں۔ فقیروں کی چٹکیاں ہیں، طلسمی انگوٹھیاں ہیں، مقناطیسی چھلے ہیں اور کراماتی تعویذ ہیں۔ تاہم بعض اخبار واقعی مستند ڈاکٹروں کے طبی مشورے بھی دیتے ہیں۔ کبھی مقامی ڈاکٹروں کے، کبھی غیرملکی ڈاکٹروں کے، بعض ان میں کافی مختصر بھی ہوتے ہیں۔ دلچسپ بھی اور کارآمد بھی۔۔۔ اس وقت ہمارے پاس جو تراشا ہے، وہ یہ ہے کہ سیڑھیوں کے پھسلنے سے جو حادثات ہوتے رہتے ہیں کیا ان کا سدباب ممکن ہے!آپ شاید کہیں گے کہ یہ تو طبی تحقیق نہ ہوئی، یہ وضاحت کر دیں کہ جب سیڑھی گرتی ہے تو عموماً اس اوپر کوئی آدمی چڑھا ہوتا ہے اور وہ طبی مدد کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اگر نہ بھی چڑھا ہو تو سیڑھی تو بہرحال ٹوٹتی ہے۔ اگر بانس کی سیڑھی ہے تو اس کے مالک کو اس کے ٹوٹنے کا دکھ اپنی ٹانگ کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ بانس تو امرتسر کا ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے انٹینا اونچا کرنے کے کام آتا ہے۔ ٹانگ تو اس کام نہیں آ سکتی۔ اپنے منہ مانگے دام نہیں پا سکتی۔بہرحال اوپر ہم نے صرف سوال درج کیا ہے۔ اصل چیز جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ہاں سدباب ممکن ہے ، اگر سیڑھی کے استعمال میں احتیاط برتی جائے تو حادثوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مثلاً سیڑھی کے اوپر تک نہیں جانا چاہیے۔ دو تین ڈنڈے نیچے رہنے سے توازن نہیں بگڑتا۔ حادثہ عدم توازن کے باعث ہوتا ہے۔‘‘آپ کہیں گے کہ دو تین ڈنڈے نیچے رہنے سے حادثہ تو بے شک نہیں ہوتا، لیکن آدمی پر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ہم اس کج بحثی کے جواب میں یہ عرض کریں گے کہ آپ کو اپنی جان اور اپنی سیڑھی زیادہ عزیز ہے یا چھت پر پہنچنا؟ آپ چھت پر جائیں ہی کیوں۔ چراکارے کند عاقل کہ با آید پشیمانی۔ آپ چھت پر جائیں گے تو اور بھی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ آپ ہمسائے کے گھر میں جھانکیں گے تو اس سے لپاڈگی ہوگی اور سیڑھی چڑھنے سے آپ کی ٹانگ نہیں ٹوٹی تو یوں ٹوٹ جائے گی بلکہ کچھ اور بھی۔بس ہمارا صائب مشورہ یہی ہے کہ اگر آپ کو سیڑھی پر چڑھنے کا بہت شوق ہے تو سیڑھی کے اوپر تک نہ جائیے۔ آدھی سیڑھی جا کر ڈنڈے پر بیٹھ جائیے اور پھر نیچے اتر آئیے۔ صرف بانس کی سیڑھیوں کی تخصیص نہیں۔ جو لوگ سیاست کی سیڑھی یا افسری کی سیڑھی میں بالکل چوٹی پر چلے جاتے ہیں وہی زیادہ گرتے ہیں اور گزند اٹھاتے ہیں، جو سیڑھی چڑھتے ہی نہیں ان کو ہم نے گرتے کم دیکھا ہے۔ وہ جو کسی کا شعر ہے۔گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میںوہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلےاس کا درپردہ مطلب بھی یہی نصیحت ہے کہ طفل کے نقش قدم پر چلو، اگر شہ سواری کے شوق میں گھوڑے پر چڑھ گئے تو ہم تمہارے گرنے اور ہاتھ پاؤں تڑوانے کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔شیخ سعدیؒ سے بڑا دانا کون ہوگا۔ انہوں نے اپنی حکایات میں مشورہ دیا ہے اگر خواہی سلامت برکنار است، یعنی اگر ڈوبنا مقصود نہیں تو پانی میں مت اترو، ہم نے لوگ سفینوں میں تو ڈوبتے دیکھے ہیں لیکن خشکی پر کھڑا کوئی آدمی آج تک نہیں ڈوبا ہوگا۔اگر آپ امتحان میں فیل نہیں ہونا چاہتے تو اس کا شرطیہ نسخہ ہے کہ پڑھیں ہی نہیں۔ الیکشن میں ضمانت ضبط نہیں کرانا چاہتے تو الیکشن میں کھڑے ہی نہ ہوں اور آپ کو اپنے بال بچوں کے مستقبل کی فکر ہے، ان کی فیسوں اور بیماریوں اور آوارگیوں اور پڑھ کر نوکریوں کی تلاش کے خیال سے وحشت ہوتی ہے تو بچے ہی نہ پیدا کریں۔۔۔ ان سب امور میں ہمارا مفت اور طبی مشورہ ہے کہ علاج سے پرہیز بہتر ہے۔٭…٭…٭