علامہ اقبالؒ کے استاد سید میر حسن جن کے بارے اقبالؒ نے کہا ’’میں خود ان کی تصنیف ہوں‘‘
اسپیشل فیچر
علامہ محمد اقبالؒ کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سید میر حسن (1844ء تا 1929ئ) کی شخصیت حاوی ہے۔ سید میر حسن ایک منورالفکر اہل علم تھے جو شاگردوں کو مصالح دین اور مصالح دنیا پیش نظر رکھ کر تربیت دیتے تھے۔ وہ نہ صرف علوم اسلامی اور عرفان و تصوف سے آگاہ تھے بلکہ علوم جدیدہ، ادبیات، لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ اپنے شاگردوں میں اردو، فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کر دیتے۔ انہیں عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر ازبر تھے۔ فارسی کے کسی شعر کی تشریح کرتے وقت وہ اس کے مترادف اردو اور پنجابی کے بیسیوں اشعار پڑھ ڈالتے تاکہ اس کا مطلب پوری طرح ذہن نشین ہو جائے۔ اپنی تدریسی مصروفیات کے باوجود مسلسل اور متواتر مطالعہ بھی جاری رکھتے۔ وہ ایک راسخ الاعتقاد اور عبادت گزار مسلمان تھے۔ حافظ قرآن تھے اور قرآن مجید سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ عام طور پر نہایت فصیح اور سلجھی ہوئی اردو میں بات چیت کرتے۔ اخلاق کے مجسم تھے۔ سادگی، سنجیدگی، قناعت، استغنا، تواضع، خوش طبعی اور احسان مندی مزاج کی نمایاں خصوصیات تھیں، انہیں شاگرد شاہ صاحب کہہ کر خطاب کرتے۔ ان کا معمول تھا کہ نماز تہجد یا نماز فجر سے فراغت پا کر روز پہلے قبرستان جاتے اور اپنے اعزا و احباب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ شاگرد انہیں قبرستان ہی میں آ ملتے اور واپسی پر سارا راستہ سبق لیتے۔ گھر پہنچ کر پھر تدریس میں مشغول ہو جاتے۔ سکول کے وقت سے پہلے جلدی جلدی کھانا کھاتے اور اسکول چل دیتے۔ رستہ میں شاگرد ساتھ لگے رہتے۔ دن بھر سکول پڑھاتے۔ شام کو گھر آنے اور تدریس کا سلسلہ رات تک جاری رہتا۔ سودا سلف بازار سے خود لاتے اور آمدورفت میں بھی شاگرد ساتھ نہ چھوڑتے۔ سید میر حسن نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے، معمولی مگر صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے۔ وہ اپنی تمام عمر اسکاچ مشن سکول ہی سے وابستہ رہے جہاں ان کی تنخواہ ان کی وفات تک ایک سو بیس سے زائد ہونے نہ پائی۔سید میر حسن نے اقبال کو عربی، فارسی اور اردو ادبیات، علم و حکمت اور تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر علوم قدیمہ اور اسلامیہ کے لیے ان کے دل میں بے حد تشنگی پیدا کر دی تھی۔ اقبالؒ کی اپنی طبیعت کی سادگی، قناعت، استغنا، ظرافت اور نکتہ سنجی سب سید میر حسن کے مزاج کا عکس تھیں۔ جب تک وہ زندہ رہے اقبالؒ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے علمی مسائل میں ان سے ہدایت و رہبری لیتے تھے۔ بعض اوقات انہیں مطالعہ کے لیے نئی کتب ارسال کرتے تھے۔ اقبالؒ بارہا یہ کہتے سنے گئے کہ شاہ صاحب کی صحبت میں بیٹھ کر اطمینانِ خاطر نصیب ہوتا ہے اور فکرمندی دور ہو جاتی ہے۔ اقبالؒ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے روبرو کبھی شعر سنانے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں اقبالؒ نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ شاہ صاحب کے سامنے صرف ایک مرتبہ ان کی زبان سے ایک مصرعہ نکل گیا، اور وہ بھی اتفاقی طور پر۔ ہوا یوں کہ شاہ صاحب کسی کام کے لیے گھر سے نکلے۔ ایک بچہ احسان نامی جو ان کے عزیزوں میں سے تھا، ان کے ہمراہ تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا، اقبالؒ اسے گود میں اٹھا لو، اقبالؒ نے اسے اٹھا تو لیا مگر تھوڑی دیر چل کر تھک گئے۔ چنانچہ انہوں نے احسان کو کسی دکان کے تختہ پر کھڑا کر دیا اور خود سستانے لگے۔ شاہ صاحب بہت آگے نکل چکے تھے۔ اقبالؒ کو نہ پا کر لوٹے اور قریب پہنچ کر کہا:’’اس کی برداشت بھی دشوار ہے؟‘‘اقبالؒ کے منہ سے بے اختیار نکل گیاتیرا احسان بہت بھاری ہےاقبالؒ کو سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک کا احساس سید میر حسن کی وساطت سے ہوا تھا۔ اسی نسبت کی بنا پر بعد میں جب اقبالؒ کی ملاقات سرسید کے پوتے سرراس مسعود سے ہوئی تو ان کے گہرے دوست بن گئے اور ان سے والہانہ محبت کرنے لگے۔ 1898ء میں جب سرسید کی وفات کا تار سید میر حسن کو ملا تو وہ سکول جا رہے تھے۔ رستہ میں اقبالؒ مل گئے جو ان دنوں تعطیلات گزارنے کے لیے لاہور سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے۔ سید میر حسن نے انہیں سر سید کی رحلت کی اطلاع دی۔ 1905ء میں اقبالؒ نے انگلستان جاتے ہوئے دہلی میں جو نظم خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر پڑھی تھی (التجائے مسافر)، اس میں سید میر حسن کے متعلق تحریر ہےوہ شمع بار گہہ خاندان مرتضویرہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کونفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلیبنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کودعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمیںکرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کواقبالؒ کو 1923ء میں سر کے خطاب کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے گورنر پنجاب سے کہا کہ جب تک ان کے استاد سید میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے، وہ خطاب قبول نہ کریں گے۔ گورنر نے پوچھا کہ کیا سید میر حسن کی کوئی تصانیف ہیں؟ اقبالؒ نے جواب دیا ’’میں خود ان کی تصنیف ہوں۔‘‘ چنانچہ اقبالؒ کے خطاب کے موقع پر سید میر حسن کو بھی شمس العلما کا خطاب ملا۔ اقبالؒ نے سید میر حسن کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار یوں بھی کیا ہے۔ مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہےپلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں(کتاب ’’زندہ رود‘‘ سے اقتباس)٭…٭…٭