علامہ اقبالؒ کی شعر گوئی اور داغ
اسپیشل فیچر
1895ء میں علامہ اقبالؒ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور اس طرح لاہور میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ بعض شواہد سے پتا چلتا ہے کہ لاہور میں اپنے قیام (1895ئ) سے خاصا عرصہ پیشتر علامہ اقبالؒ شاعری کا آغاز کر چکے تھے۔ رسالہ ’’ آجکل‘‘ دہلی کے 15جولائی 1944ء کے شمارے میں علامہؒ کی دو غزلیں ہمیں ملی ہیں جو دراصل رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی کے شمارہ نومبر1893ء اور فروری 1894ء سے نقل کی گئی ہیں۔ نومبر1893ء اور فروری 1894ء وہ زمانہ ہے جب علامہ اقبال ؒسیالکوٹ میں ایف اے کی کلاس میں سال اول اور سال دوم کے طالب علم تھے۔ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی کا مذکورہ شمارہ جس میں سب سے پہلے یہ غزلیں شائع ہوئیں، کتب خانہ ’’ الاصلاح‘‘ دیسنہ ضلع پٹنہ کے مجموعہ رسائل میں محفوظ ہے اور اسی سے نقل کر کے رسالہ ’’ آجکل‘‘ کے 15جولائی 1944ء کے شمارے میں یہ غزلیں شائع کی گئی ہیں۔ بقول ’’ آج کل ‘‘ ان غزلوں کے شروع میں ’’ تلمیذ بلبل بند حضرت داغ دہلوی‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اقبالؒ اس زمانے میں داغ کی شاگردی اختیار کر چکے تھے۔ ’’ آجکل ‘‘ کے نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اقبالؒ پہلے پہل صاحب عالم میرزا ارشد گورگانی دودمان مغلیہ سے مشورہ سخن کیا کرتے تھے، مگر اصلاح کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تو نواب فصیح الملک میرزا داغ دہلوی کو اپنا کلام بھیجنے لگے۔ یہ دونوں غزلیں طرحی ہیں اور علامہؒ کے کسی مجموعہ کلام میں شائع نہیں ہوئیں:’’ غزل مندرجہ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی، بابت ماہ نومبر1893ئ:‘‘خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کاکیا مزہ بلبل کو آیا شیوۂ بیداد کاڈھونڈتی پھرتی ہے اڑ اڑ کر جو گھر صیاد کاکس بت پردہ نشیں کے عشق میں ہوں مبتلاحسرت دل پر ہے برقع دامن فریاد کاجب دعا بہر اثر مانگی تو یہ پایا جوابغیر رو کر لے گئے حصہ تری فریاد کاہوں وہ ناداں ڈر سے زیر دام پنہاں ہو گیادور سے چہرہ نظر آیا اگر صیاد کاسن کے اس کو بے رخی سے بھاگ جاتا ہے مدامکیا اثر معشوق ہے اے دل تری فریاد کاشرم آئی، جب مری رگ میں لہو نکلا نہ کچھآب میں ہے غرق گویا نیشتر فصاد کاقمریوں نے باغ میں دیکھا ہے اس خوش قد کو کیاہے چھری ان کے لیے پتا ہر اک شمشاد کابھول جاتے ہیں مجھے سب یار کے جور و ستممیں تو دیوانہ ہوں اے اقبال! تیری یاد کاغزل مندرجہ رسالہ ’’ زبان‘‘ دہلی، بابت ماہ فروری 1894ئ:یہ اشارے مجھے پیغام قضا دیتے ہیںجان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیںپھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیںکوچہ یار میں ساتھ اپنے سلایا ان کوبخت خفتہ کو مرے پاؤں دعا دیتے ہیںبدگمانی کی بھی کچھ حد ہے کہ ہم قاصد سےقسمیں سو لیتے ہیں، جب ایک پتا دیتے ہیںموت بازار میں بکتی ہے تو لا دو مجھ کوہم نشیں کے لیے جینے کی دعا دیتے ہیںرحم آتا ہے ہمیں قیس کی عریانی پردھجیاں دامن صحرا کی اڑا دیتے ہیںایسی ذلت ہے مرے واسطے عزت سے سواخود وہ اٹھ کر مجھے محفل سے اٹھا دیتے ہیںغیر کہتے ہیں کہ یہ پھول گیا ہے مردہقبر پر میری جو وہ پھول چڑھا دیتے ہیںموت بولی جو ہوا کوچہ قاتل میں گزرسر اسی راہ میں مردان خدا دیتے ہیںان کو بیتاب کیا، غیر کا گھر پھونک دیاہم دعائیں تجھے اے آہ رسا دیتے ہیںگرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت اقبالحضرت داغ کے اشعار سنا دیتے ہیںشاگردی داغ کے سلسلے میں علامہ کا وہ خط خاصا اہم ہے جو انہوں نے مولانا احسن مارہروی کو لکھا تھا۔ اس کا ضروری حصہ نذر قارئین ہے:’’۔۔۔۔ اگر آپ کے پاس استادی حضرت میرزا داغ کی تصویر ہو تو ارسال فرمائے گا۔ بہت ممنون ہوں گا۔ اگر آپ کے پاس نہ ہو تو مطلع فرمائیے گا کہ کہاں سے مل سکتی ہے۔ میں نے تمام دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے فوٹو جمع کرنے شروع کر دیے ہیں۔ چنانچہ انگریز، جرمن اور فرنچ شعرا کے فوٹو کے لیے امریکا لکھا ہے۔ غالباً کسی نہ کسی استاد بھائی کے پاس حضرت کا فوٹو ضرور ہو گا۔ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو از راہ عنایت جلد مطلع فرمائیے۔ حضرت امیر مینائی کے فوٹو کی بھی ضرورت ہے۔ والسلام خاکسار محمد اقبالاز لاہور گورنمنٹ کالج بورڈنگ ہاؤس، 28فروری 1899ئ‘‘حکیم احمد شجاع، جن کا 76سال کی عمر میں4جنوری 1969ء کو انتقال ہوا، اقبالؒ کو اس زمانے سے جانتے تھے جب وہ بھاٹی دروازہ لاہور کے اندر ان کے ہاں مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ’’ نقوش‘‘ لاہور میں بھی ’’ لاہور کا چیلسی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون اقبالؒ پر لکھا ہے اور اپنی سوانح حیات’’ خوں بہا‘‘ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ رسالہ ’’ نقوش‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:’’ 30نومبر1895ء کو پہلا جلسہ مشاعرہ حکیم امین الدین بار ایٹ لا کے عالی شان مکان پر شام چھ بجے ہوا۔ اس بزم مشاعرہ کے دوسرے مشاعرے میں حضرت اقبالؒ نے بھی شرکت کی تھی اور سب سے پہلے اپنی غزل پڑھی تھی۔ اس محفل مشاعرہ کی روداد ’’ شور محشر‘‘ بابت دسمبر1895ء میں ان کی غزل پر ان کا نام اس طرح درج ہے:‘‘’’ جناب شیخ محمد اقبال صاحب اقبال، تلمیذ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی۔‘‘۔۔۔