زلزلے کے دوران حفاظتی اقدامات
اسپیشل فیچر
زلزلہ ایک قدرتی عمل اور کائناتی نظام کا حصہ ہے۔ سورج، زمین اور چاند اپنے اپنے راستوں پر گردش کر رہے ہیں لیکن جب سورج اور زمین کے درمیان چاند آ جائے تو پھر ہمیں دوپہر میں بھی سورج دکھائی نہیں دیتا، اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج گہنا جاتا ہے۔ اگر ہم بے کل ہو کر گھروں سے باہر آئیں اور آسمان پر سورج ڈھونڈنے لگیں تو بینائی کھو بیٹھیں گے۔ اسی طرح زیرزمین چٹانی پلیٹیں بھی مسلسل حرکت کر رہی ہیں۔ ان کے اندر دباؤ جمع ہونے اور پھر اس کے یکلخت باہر نکلنے کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔ ان زلزلوں سے بچاؤ کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم چٹانوں میں دباؤ جمع نہ ہونے دیں اور کسی ذریعہ سے زیرزمین جمع شدہ توانائی کو آہستہ آہستہ خارج ہونے کا کوئی راستہ مہیا کر دیں۔ اس طرح زلزلے بند ہو جائیں گے یا کم از کم بڑے زلزلے رک جائیں گے۔ تاہم اس وقت انسان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ انڈین پلیٹ کو یوریشین پلیٹ کے ساتھ ٹکرانے والی قوت سے لڑ سکے۔فی الوقت زلزلے سے بچاؤ کا وہی طریقہ موجود ہے جو سورج گرہن کے نقصانات سے بچنے میں مدد دیتا ہے یعنی حفاظتی اقدامات۔زلزلے کے جھٹکوں سے کوئی نہیں مرتا بلکہ تقریباً تمام اموات مکانوں اور بلند عمارتوں کے گرنے سے ہوتی ہیں۔ اگر ہم اپنی عمارات اس انداز سے تعمیر کریں کہ وہ زلزلے کے جھٹکے برداشت کر لیں تو ہم جانی نقصان سے محفوظ رہیں گے نیز جائیداد کا زیاں بھی کم ہو گا۔زلزلوں سے بچاؤ کی سمت میں پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں ایسے علاقوں کا علم ہونا چاہیے جہاں ماضی میں زلزلے آ چکے ہیں اور مستقبل میں بھی آنے کا امکان ہے۔ اس قدرتی آفت سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ جو شہر جس رسک زون میں واقع ہو اس میں انجینئر ایسی عمارتیں ڈیزائن کریں جو اس درجے کے زلزلے کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ اسے بلڈنگ کوڈ کی تعمیل کہا جاتا ہے۔ کوئٹہ کی عمارتوں کا بلڈنگ کوڈ دیگر شہروں سے سخت ہو گا کیونکہ سیسمک زون فور میں واقع ہے، ہزارہ ڈویژن، گلگت اور چترال میں بھی قوانین کی پابندی درکار ہوگی جبکہ زون تھری کے شہر اسلام آباد اور راولپنڈی کا بلڈنگ کوڈ کوئٹہ سے مختلف ہو گا۔اگر عمارتیں اپنے کوڈ کے مطابق تعمیر کی جائیں یعنی منزلوں کی تعداد کم ہو، ستونوں میں سریے کی مقررہ تعداد ڈالی جائے اور انہیں بلڈنگ کوڈ میں بیان کردہ ہنر مندی اور احتیاط سے باندھا جائے تو پھر یہ عمارات زلزلہ پروف ثابت نہ بھی ہوں تو کم از کم زلزلے کے خلاف مدافعت ضرور کریں گی۔ ہو سکتا ہے شدید نوعیت کا زلزلہ ان میں دراڑیں ڈال دے اور پلستر اکھڑ جائے مگر ان کی چھتیں اپنی جگہ جمی رہیں گی اور جانی نقصان نہیں ہوگا۔زلزلے سے بچاؤ کے لیے تیسرا کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہر فرد کو زلزلہ آنے پر کئے جانے والے حفاظتی اقدامات بارے علم ہو نیز حکومتی اداروں میں بھی ایسا نظام پہلے سے طے کیا جا چکا ہو۔ زلزلے آتے ہی ان اداروں کو امدادی کام میں لگ جانا چاہیے تاکہ ملبے تلے دبے لوگوں کو بروقت نکال کر طبی امداد دی جا سکے۔ ہمارے خطے میں زلزلہ آتا ہے تو اموات ہزاروں کی تعداد میں ہوتی ہیں۔ آٹھ اکتوبر کو آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بنے، ایرانی شہر بام کے زلزلے میں چالیس ہزار اور ترکی میں ساٹھ ہزار افراد نے اپنی جان گنوائی۔ چند دہائیاں قبل چین میں آنے والا زلزلہ اپنے پیچھے کم از کم ڈھائی لاکھ لاشیں چھوڑ گیا۔ تقریباً سو سال سے زیادہ عرصہ قبل یہی زلزلے جاپان میں سوا لاکھ اور اٹلی میں ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد کی جان لے چکے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ قبل امریکی ریاستوں میں اتنے ہی شدید زلزلے سے صرف 83 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ قوانین پر پابندی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا نتیجہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں قدرتی آفات کی زد میں ہونے کے باوجود ان کے خوف اور نقصانات سے کافی حد تک پیچھا چھڑا چکی ہیں۔زلزلے کے رسک زون میں واقع گنجان شہروں میں نقصانات کا خطرہ دیگر علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی میں درمیانے درجے کا زلزلہ کیرتھر کے پہاڑوں میں آنے والے شدید زلزلے سے زیادہ نقصان دہ بن سکتا ہے۔ ملتان، ڈیرہ غازیخان اور رحیم یار خان جس رسک زون میں واقع ہیں اس میں زلزلے کا قابل ذکر خدشہ نہیں ہے، اس کے برعکس ٹھٹھہ، کراچی اور گوادر کو زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شہروں میں زلزلے سے بچاؤ کے انتظامات کی بھی اتنی ہی زیادہ ضرورت ہے۔ کراچی گنجان آبادی، کثیرالمنزلہ عمارتوں اور صنعتوں کا شہر ہے۔ زلزلے کے حوالے اس شہر کا گزشتہ سو سالہ ریکارڈ زیادہ برا نہیں۔ یہاں صرف چھوٹے اور درمیانے درجے کے زلزلے آتے رہے ہیں۔ بڑے زلزلے کراچی سے کم و بیش سو کلومیٹر کی دوری پر آئے جن سے یہ شہر محفوظ رہا۔ 1945ء میں مکران کے ساحلوں پر سمندر میں نسبتاً بڑا زلزلہ آیا مگر سمندری جوار بھاٹا اترا ہونے کے باعث شہر سونامی کی لہروں سے محفوظ رہا۔2001ء میں بھارتی شہر بھوج میں زلزلہ آیا۔ یہ جگہ کراچی سے 300 کلومیٹر دور ہے اور سیسمک لہریں کراچی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ لیکن اس علاقے میں آنے والے دو پرانے زلزلے ایسے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان میں سے ایک 1050ء میں آنے والا بھنبھور کا زلزلہ ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ زلزلہ موجودہ کراچی سے محض ساٹھ کلومیٹر کی دوری پر آیا۔ دوسرا بڑا زلزلہ 1668ء میں پیری کے مقام پر آیا جہاں آج کل سٹیل مل واقع ہے مگر تاریخی کتابوں میں اس زلزلے کی مزید تفصیلات دستیاب نہیں۔ احتیاطی تدابیر:ترقی یافتہ ممالک کے شہری ہر قسم کی صورت حال خصوصاً قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ سماجی اور معاشی سطح پر منظم ہونے کی وجہ سے ترقی یافتہ ملک کسی بھی قدرتی آفت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہیں جبکہ تیسری دنیا اس حوالے سے غیر معمولی حد تک پسماندہ ہے۔ 26 جنوری 2001ء کو بھارتی شہر بھوج میں زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیسمک لہریں کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں سے بھی گزریں جس کے باعث بہت سی عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اس موقع پر یہ سوال سامنے آیا کہ پاکستان کے کسی علاقے میں بڑا زلزلہ آجائے تو اس سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ زلزلہ سوچنے سمجھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا موقع نہیں دیتا اور آفت گزر جانے کے بعد صرف امدادی کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔ اکثر پاکستانی علاقے زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں تاہم لوگ زلزلے کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زلزلے کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں کو تیار رکھا جاتا ہے، خون کا ذخیرہ بھی جمع ہوتا ہے۔ زلزلے سے پہلے اور بعد میں اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے حصے میں ایسی تدابیر آتی ہیں جو لوگ اپنے گھر اور خاندان کے لیے کر سکتے ہیں جبکہ دوسرا حصہ ان طریقوں پر مشتمل ہوگا جو حکومتی اداروں کو اختیار کرنا چاہئیں۔ زلزلہ آنے پر لوگوں کا رد عمل دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیسی احتیاطی تدابیر استعمال کریں گے۔ جاپان میں تواتر سے زلزلے آتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے خود کو ان کے تقاضوں کے مطابق بدل لیا ہے۔ وہاں ایسی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں جو زلزلے کے جھٹکے برداشت کر سکتی ہیں نیز گھروں کی اندرونی ساخت کچھ اس طرح رکھی جاتی ہے کہ زلزلہ آنے کی صورت میں نقصان کم از کم ہوتا ہے۔ زلزلے کے نقصانات پر قابو پانے کے لیے درج ذیل تیاریاں ناگزیر ہیں۔زلزلے سے پہلے: ایسا علم پیشگی حاصل کیا جائے کہ زمین ہلنے کی صورت میں کیا کرنا ہو گا۔ اکثروبیشتر زلزلے چند سیکنڈ دورانیے کے ہوتے ہیں اور انہی لمحوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سا اقدام فائدہ مند ہوگا۔تمام اہل خانہ کو زلزلے سے بچاؤ کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ دوسروں کو بتایا جائے کہ زمین میں ارتعاش پیدا ہونے کی صورت میں کمرے کے محفوظ ترین مقام پر چلے جائیں اور مضبوط دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوں۔ کھڑکیوں، شیشے، چھت سے لٹکے پنکھوں اور آرائشی سامان وغیرہ کے نیچے کھڑے ہونا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔پانی کی بوتلیں، بیٹری سے چلنے والے ریڈیو، تین ہفتوں کی خوراک، ابتدائی طبی امداد کا سامان، پانی، گیس اور بجلی کی فراہمی منقطع کرنے والے آلات نیز ایندھن کا پیشگی بندوبست کیا جانا ضروری ہے۔ایسی اشیا، چولہوں، گیزر اور ہیٹر وغیرہ سے دور رکھی جائیں جن کے بھڑک اٹھنے کا خدشہ ہو۔ تمام اہل خانہ کو علم ہونا چاہیے کہ بجلی، گیس اور پانی کی سپلائی بند کرنے کے سوئچ اور والو وغیرہ کہاں نصب ہیں۔ بھاری فرنیچر اور ریفریجریٹر وغیرہ کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں سے اس کے گرنے کا اندیشہ نہ ہو۔زلزلے کے دوران: زلزلے کے موقع پر آپ جس جگہ موجود ہیں کم و بیش وہیں رہیں۔ جھٹکے محسوس ہوتے ہی کمرے کے محفوظ مقام کی طرف چلے جائیں۔ بڑی میز وغیرہ موجود ہو تو اس کے نیچے پناہ لینا مناسب ہے۔ زلزلے میں چھتوں کا درمیانی حصہ گرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لیے دیوار کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ کھڑکیوں کے قریب پناہ نہ لیں۔اگر گھر سے باہر ہیں تو کھلی جگہ پہنچنے کی کوشش کریں جہاں کسی شے کی زد میں آنے کا خدشہ نہ ہو۔ عمارتوں، بجلی کے کھمبوں اور تاروں نیز درختوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔زلزلے کے وقت کھانا پکا رہے ہوں تو چولہا فوراً بند کر دیں۔ ڈرائیونگ کررہے ہیں تو گاڑی سڑک کنارے احتیاط سے روک لیں۔ دوران زلزلہ پل، انڈر پاس، بجلی کی سپلائی لائن یا کسی ہورڈنگ کے تلے پناہ نہ لیں۔ کوئی جگہ میسر نہ ہو تو گاڑی میں ہی بیٹھے رہیں۔ اگر زلزلے کے بعد ملبے تلے دب گئے ہیں تو ہوش و حواس قائم رکھیں۔ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔