نواب حمید اللہ خاں اور اقبالؒ
اسپیشل فیچر
نواب سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی چوتھی اور آخری خاتون حکمران تھیں۔ ان کے تین صاحب زادے تھے نواب نصر اللہ خاں ولی عہد ریاست نواب کرنل حافظ عبید اللہ خاں اور نواب حمید اللہ خاں۔ نواب سلطان جہاں بیگم کے وہم و گماں میں بھی یہ بات نہ تھی کہ دو بیٹوں کی موجودگی میں نواب حمید اللہ خاں ریاست کے حکمراں ہو سکیں گے۔ انہوںنے نواب حمید اللہ خاں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجا جہاں سے انہوںنے بی اے پاس کر لیا اور قانون میں داخلہ لیا۔ لیکن بوجوہ تکمیل نہ کر سکے۔ بھوپال واپس آنے کے بعد ان کی والدہ نے یہ کوشش کی کہ وہ ایک اچھے سیاسی لیڈر مدبر اور بااثر شخصیت کی حیثیت سے ہندوستان میں اپنی جگہ بنا لیںگے۔ چنانچہ بھوپال آنے والی سیاسی شخصیتوں سے انہیں متعارف کرایا گیا۔ علمی مجالس کی صدارت انہیں سونپی گئی اور ان گنت تقریبات میں انہیں صدارتی خطبات پڑھنے کیلیے مدعو کیا گیا۔ غالباً1923ء میں جب رابندر ناتھ ٹیگور بھوپال آئے اورمیوزیم ہال میں ایک تقریر کی تو اس جلسہ کے صدر بھی نواب حمید اللہ خاں تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب خواجہ کمال الدین جو لندن میںتبلیغ کا کام کرتے تھے بھوپال آئے اور جلسہ عام سے خطاب کیاتو اس کی صدارت بھی نواب حمید اللہ خاں نے فرمائی۔جس زمانہ میں ان کی والدہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی چانسلر تھیں۔ انہوںنے یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی‘ متعدد شہروںکا دورہ کیا اور مختلف رئیسوں سے ملاقات کی جن میں نظام حیدر آباد بھی شامل تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تحقیقات کے سلسلے میں جو کمیٹی بنی تھی اس میں بھی حمید اللہ خاں شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری بھوپال آ کر شاہی مہمان ہوئے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ مولانا محمد علی جوہر مولانا شوکت علی مولانا حسرت موہانی‘ سر آغا خاں‘ مسز سروجنی نائیڈو اور دیگر سیاسی لیڈروں کی آمد و رفت کا سلسلہ برابر جاری رہا تھا جن سے نواب حمید اللہ خاں نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ ذاتی روابط بھی پیدا کر لیے۔ علما و فضلا میں علامہ شبلی‘ مولوی عبدالحق خواجہ حسن نظامی علامہ سید سلیمان ندوی‘ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری اور عطیہ فیضی کا بھی بھوپال سے ربط و تعلق تھا۔ حمید اللہ خاں کو ان تمام شخصیتوں سے ملنے او ر تبادلہ خیال کرنے کے خصوصی مواقع حاصل تھے۔اس کے علاوہ حمید اللہ خاں بہت اچھے سپورٹس مین بھی تھے۔ یوں تو انہیں ہاکی‘ کرکٹ اور ٹینس سے بھی دلچسپی تھی لیکن وہ پولو کے بہترین کھلاڑی تھے۔ جب ڈیوک آف ونڈسر نے پرنس آف ویلز کی حیثیت سے برطانوی ہند کا دور ہ کیا تو بھوپال میں حمید اللہ خاں سے پولو کا میچ کھیلا۔ کرکٹ کے مشہور کھلاڑی سید وزیر علی کافی عرصہ بھوپال کی فوج سے وابستہ رہے۔ سابق نواب پٹودی بھی برابر بھوپال آتے رہتے تھے۔ غرض کہ حمید اللہ خاں سیاسی علمی اور ادبی میدانو ں اور کھلاڑیوں کے حلقوں میں یکساں مقبول ہو چکے تھے اور جب یکے بعد دیگرے ان کے دونوں بڑے بھائیوں کا انتقال ہو گیا تو نواب سلطان جہاں بیگم 1926ء میں اپنے لائق فرزند نواب حمید اللہ خاں کے حق میںدست بردار ہو گئیں اور زمام حکومت ان کے سپرد کر دی۔ نواب سلطان جہاں بیگم دستبرداری کے بعد تصنیف و تالیف اور یا د الٰہی میں مصروف ہو گئیں اور بالآخر 1930ء میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔نواب محمد حمید اللہ خاں عنان حکومت سنبھالتے ہی برصغیر کی سیاسی‘ سماجی او ر تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی سے حصہ لینے لگے۔ پہلے وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے چانسلر اور دو مرتبہ ایوا ن رئوسائے ہند کے چانسلر منتخب ہوئے پہلی اور دوسری گول میز کانفرنسوں میںشرکت کی۔ اب ان کے تعلقات کچھ اور وسیع ہو گئے تھے قائد اعظمؒ، گاندھی ، چوہدری خلیق الزماں‘ مولانا حسرت موہانی‘ سر فیروز خاں نون۔ اور دوسرے اکابر بھوپال آ کر ان سے ملاقات کرتے تھے کانگرس اور خلافت تحریک کے کئی ممتاز حضرات نواب صاحب کے ایما پر ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ مولانا محمد علی کے داماد شعیب قریشی‘ نواب حمید اللہ خاں کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ شعیب قریشی نے ابتدا میں گاندھی کے رفیق اور ینگ انڈیا کے ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ پنڈت نہرو کے ساتھ انڈین نیشنل کانگرس کے سیکرٹری رہے۔ بعد میں تحریک خلافت سے وابستہ ہو گئے اور خلافت کے طبی وفد میں شامل ہو کر ترکی کا دورہ کیا۔ آپ کے علاوہ مشہور سیاسی رہنما ڈاکٹر نصاری جو نواب صاحب کے طبی مشیروں میں اور اکثر و بیشتر بھوپال آتے تھے، کے اسسٹنٹ ڈاکٹر سید عبدالرحمن اور حسن محمد حیات بھی بھوپال آ گئے اور ریاست بھوپال کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر سید عبدالرحمن جو عام طور پر ڈاکٹر رحمن کے نام سے مشہور ہوئے بعد میں علامہ اقبالؒ کے نگراں معالج مقرر ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ نواب حمید اللہ خاں نہایت روشن خیال عالی دماغ بالغ نظر اور صاحب بصیرت حکمراں تھے انہوںنے اپنے اسلاف کی اعلیٰ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں آگے بھی بڑھایا۔ انہوںنے ریاست کی علمی تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا۔ بلاشبہ ان کا دور حکومت ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا کی حیثیت سے ایک یادگار دور ہے جو 1927ء سے شروع ہو کر 1949ء میں ختم ہو گیا جب برصغیر کی تقسیم یکے بعد ریاست بھوپال کا وجود ختم ہوا۔ لیکن 22 سال کا یہ زمانہ اہم سیاسی سماجی تعلیمی اور ادبی اور فکری انقلابات کا زمانہ ہے۔ جس کے چند عوامل کو مستقبل کا مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا مثلاً برصغیر میں برطانوی اقتدار کے خلاف آزادی کی کشمکش کانگرس اور مسلم لیگ کی عوامی حیثیت اور سیاسی سرگرمیاں‘ ادب اور شاعری میں انقلابی رجحانات اور ان کے اثرات‘ مسلمانوں کی تعلیم نو کے لیے اقبالؒ کی مفکر انہ رہنمائی اور نواب حمید اللہ خاں کی مسلم معاشرہ میں عزت و تکریم اور ان کی رہنمائی میں اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی جدوجہد برصغیر کے سماجی اور اقتصادی اور معاشرتی ڈھانچے میںنمایاں تبدیلی وغیرہ۔ اقبالؒ بھی نواب حمید اللہ خاں کے مداحوں میں شامل تھے۔ اور انہیں یہ علم تھا کہ نواب صاحب اپنی گوناگوں خصوصیات اور صفات کی بنا پر نہایت اعلیٰ مقام پرفائز ہیں اور ہندوستان کی تحریک آزادی میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔اقبال اگرچہ خود عملی سیاست میں نمایاں حصہ نہیں لے رہے تھے لیکن حقیقتاً ان کی تمام ترمساعی مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد ملت کے لیے وقت تھی اور وہ بساط بھر اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ۔۔