فضائی آلودگی کے نقصانات اور تدارک
اسپیشل فیچر
ہمارے اطراف میں موجود فضا میں جب نقصان دہ اجزا اور گیسیں شامل ہو جاتی ہیں تو اسے فضائی آلودگی کہتے ہیں۔ زندگی کے لیے صاف ہوا ایک اہم عنصر ہے۔ ایک انسان روزانہ اوسطاً 16 تا 20 کلو ہوا سانس کے ذریعے جسم میں داخل کرتا ہے۔ اگر وہ آلودہ ہوا میں سانس لے رہا ہو، تو اندازہ لگایئے کہ وہ کس قدر خطرے میں ہے۔ اگر ہوا میں دوسری گیسیں شامل ہونے لگیں تو ہوا میں آکسیجن کی قدرتی آمیزش کا تناسب کم ہوتا جائے گا۔ ہوا میں ٹھوس ذرات، دھواں، مٹی کے ذرات شامل ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے اور صنعتی شہروں میں فضائی آلودگی سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ بڑے بڑے کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، طرح طرح کی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں وغیرہ آلودگی کو بڑھا رہا ہے۔ عموماً موسم سرما میں دھویں سے دھند سی چھا جاتی ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں اور دوسرے پیڑ پودوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ بنیادی طور پر فضائی آلودگی صحت کے لیے نقصان دہ گیسوں، دھواں، غبار، ٹھوس ذرات کے صاف ہوا میں شامل ہونے سے پھیلتی ہے۔ نقصان دہ گیسوں میں ایک کاربن مونو آکسائیڈ ہے جو گاڑیوں اور کارخانوں کے دھویں میں شامل ہوتی ہے۔ ہوا میں اس کی زیادتی انسان کے دل، پھیپھڑوں اور اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ ایک گیس سلفر کے مرکبات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ پودوں کے سڑنے گلنے، آتش فشاں کے پھٹنے اور تھرمل پلانٹس سے نکلتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ کی ہوا میں زیادتی سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ سر کا درد اور آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے۔ یہ گیس آبی بخارات میں مل کر تیزابی بارش پیدا کرتی ہے جس سے پودوں، عمارتوں اور انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ دیگر نقصان دہ گیسیں نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن ہیں۔ تمباکو نوشی کا دھواں بھی نقصان دہ ہے۔ متعدد مرتبہ تمباکو کا دھواں تمباکو پینے والے سے زیادہ سونگھنے والے کو متاثر کر تا ہے۔ اس سے کینسر لاحق ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ فضائی آلودگی ٹھوس ذرات کے سبب بھی ہوتی ہے۔ ہوا میں سیمنٹ کے ذرات نکل کر شامل ہوتے رہتے ہیں جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ جنگلات کے کٹاؤ اور لکڑی کی بڑی مقدار جلا دینے سے فضا میں گیسوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ گزشتہ سو سال میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے جس سے ہر سال زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس اضافے سے ماحول پر پڑنے والے اثرات کو گرین ہاؤس ایفیکٹ کہتے ہیں۔ سورج کی روشنی جب زمین کی طرف آتی ہے تو فضا کے اوپر موجود اوزون کی پرت سورج کی روشنی سے خارج ہونے والی بالائے بنفشی شعاؤں (الٹراوائیولٹ ریز) کو جذب کر کے گرمی کی شدت کو کم کرتی ہے اور معتدل سورج کی شعاعیں زمین پر پڑتی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے اوزون کی پرت میں سوراخ ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کے سبب خطرہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر موجود برف بھاری مقدار میں پگھلنے لگے گی۔ جس سے سمندروں کی سطح بلند ہو گی اور زمین کے ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے۔ بالائے بنفشی شعاؤں کے مضر اثرات ہوتے ہیں۔ اس سے پودوں میں غذا کی تیاری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس سے جلد کے کینسر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پودے لگانے چاہئیں۔ فضائی آلودگی سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ تنفسی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔ خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ جسم میں آکسیجن کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کے اثرات پودوں پر بھی ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں فضائی آلودگی کو فوری اور مکمل طور پر دور کرنا مشکل ہے۔ تاہم کئی اقدامات کرتے ہوئے فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مناسب قانون سازی اوراس پر سختی سے عمل درآمد سے لوگوں کو پابند کیا جا سکتا ہے۔ نقصان دہ گیسوں کو جذب کرنے والے آلات کا استعمال کیا جائے۔ کارخانوں کی چمنیوں کو بلند کیا جائے تاکہ نقصان دہ گیسیں ہوا سے اڑ کر دور چلی جائیں اور ارد گرد بسنے والے انسانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔نقصان دہ کیمیائی مادوں کا استعمال کم کیا جائے۔ ایندھن کے غیر ضروری استعمال کو روکا جائے۔ غیرضروری گاڑیاں نہ چلائی جائیں۔ ان پرانی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے جو دھواں چھوڑ کر فضائی آلودگی کو بڑھاتی ہیں۔ کارخانوں کے قیام سے پہلے ماہرین ماحولیات سے اجازت حاصل کی جائے۔ آبادی سے کافی دور کارخانے قائم کیے جائیں، کارخانوں کے قریب آبادی کو بسنے سے روکا جائے۔ ڈیزل سے چلنے والی ریل گاڑیوں کو بجلی سے چلایا جائے۔ ایسی توانائی استعمال کی جائے جس میں دھواں نہیں نکلتا جیسے شمسی توانائی۔ ۔ ٭…٭…٭