ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات
اسپیشل فیچر
پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بلاشبہ بہت سی انسانی سرگرمیاں ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں اور ماحول کی خرابی بڑا مسئلہ بنتا جا رہا۔ بالخصوص پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے لیے یہ زیادہ شدید ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان میں پانی کی کمی ہو سکتی ہے جس سے زراعت کو شدید خطرات ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم گرما میں گرمی کی شدید لہروں اور سرما میں سموگ کا مسئلہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا سکتا ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود انسانوں نے سب کچھ گنوایا نہیں بلکہ ان کی ایک معقول تعداد ماحول کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ جنگلات کو بہت بے دردی اور تیزی سے دنیا بھر میں کاٹا جا رہا ہے اور یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تقریباً 52 ہزار مربع کلومیٹر پر سالانہ جنگلات اگائے جاتے ہیں۔ نئے جنگلات اگانے کی وجہ سے جنگلات کے خاتمے کا عمل سست ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ جنگلات کاٹنے کی رفتار جنگلات اگانے سے کم و بیش دگنا ہے۔ دنیا میں ایسی مصنوعات کو فروغ دیا جا رہا ہے جن کی تیاری میں جنگلات کو نقصان نہیں پہنچتا اور مارکیٹ میں ان کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ دنیا میں جانوروں کی مختلف قسمیں انسانی آبادی کے پھیلاؤ، ماحولیاتی مسائل اور بیماریوں کی وجہ سے ناپید ہو رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سو برسوں میں جانوروں کی 50 انواع ناپید ہوئیں جس کی بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ لیکن سب کچھ تاریک نہیں۔ خطرے سے دوچار جانوروں کی انواع کو ناپید ہونے سے بچانے کے لیے بہت سے افراد، تنظیمیں اور ادارے سرگرم ہیں۔ اندازاً خطرے سے دوچار انواع 12 سو سے زائد ہیں۔ ان کی بقا کا سوال اب عالمی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ 2010ء تک خیال کیا جاتا تھا کہ دنیا کے جنگلات میں 3200 چیتے باقی بچے ہیں۔ سابقہ سو سال کی نسبت یہ ان کی آبادی میں 97 فیصد کمی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے ان کی آبادی میں اضافے کے لیے مختلف پروگرامز شروع کیے گئے، اور اب مختلف ممالک میں ان کی آبادی بڑھنے لگی ہے۔ توانائی کے ماحول دوست ذرائع کو رواج ملا ہے۔ ان میں شمسی اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی شامل ہے۔ اب شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی جدید سے جدید تر ہوتی جا رہی ہے اور اس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نیز ایسی ٹیکنالوجی متعارف ہو رہی ہے جو شمسی ٹیکنالوجی سے چلتی ہے۔ اسے کاروں تک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا ایک پہلو پانی، بالخصوص دریاؤں اور سمندروں کے پانی کا آلودہ ہونا ہے۔ چونکہ دریاؤں کا بہاؤ سمندروں کی طرف ہوتا ہے اس لیے ان کا آلودہ پانی بھی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس سے آبی حیات کے ساتھ ساتھ وہ آبادیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں جن کا روزگار سمندر سے وابستہ ہے یا جو ساحل کے قریب ہیں۔ اس سے سمندری خوراک پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ اب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا مسئلہ عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی معاہدے وجود میں آ چکے ہیں۔ اب مختلف ممالک پر ان گیسوں کے اخراج کی حدیں قائم کی جا رہی ہیں۔ توانائی کے پرانے ذرائع جیسا کہ کوئلہ اور خام تیل ماحول دوست نہیں سمجھے جاتے لیکن شمسی اور ہوائی توانائی کے فروغ سے یہ مسئلہ دھیرے دھیرے حل کی جانب گامزن ہے۔ یقینابہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ عالمی ماحول میں خرابی بہت تیزی سے ہو رہی ہے لیکن اگر ہم چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور ہم ماحول کی بہتری کے لیے عمل کرنے کی جانب مائل ہوتے ہیں۔