علامہ سید احمد سعیدکاظمیؒ کی دینی خدمات
اسپیشل فیچر
حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ؒکی ذات بابرکات علمی روحانی کمالات میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ان کا ظاہر وباطن ایک سا تھا ۔ آپؒ کی ولادت 1332ھ،1913ء کو امروہ کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ آپؒ کے والد ماجد علامہ سید محمد مختار کاظمیؒاپنے وقت کے نامور علماء میں شمار ہوتے تھے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظمؒ سے جا ملتا ہے چنانچہ اسی نسبت سے آپؒ کاظمی کہلاتے ہیں۔ ابھی چند برس کے تھے کہ آپؒ کے والد گرامی دنیافانی سے پردہ فرماگئے۔ والد محترم کے وصال کے بعد آپؒ کے برادر اکبر علامہ سید محمد خلیل کاظمی محدث امروہی نے آپ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری نبھائی۔ اس وقت کے جید علماء میں آپ نہایت ممتاز مقام کے حامل تھے اور ان دنو ں شاہ جہانپور کے مدرسہ جامعہ بحرالعلوم میں درس وتدریس فرما رہے تھے جس وجہ سے حضرت سیداحمد سعید کاظمیؒ کو حصول تعلیم میں کوئی دشواری درپیش نہ ہوئی اور صرف سولہ برس کی قلیل مدت و عمر میں علوم و فنون سے فراغت حاصل کرکے سند حاصل کی۔ حضرت سید شاہ حسین اشرفی کچھوچھویؒنے ایک پروقار تقریب میں صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی ؒ،علامہ نثار احمد کانپوری،ؒجیسی جید علمی شخصیات کی موجودگی میں دستار بندی فرمائی۔ تعلیم سے فارغ ہوکرآپؒ 1929ء میں لاہور تشریف لائے۔ یہاں علامہ سید دیدار علی شاہ اور علامہ سید احمد ابوالبرکات ؒجیسی عظیم اکابر ہستیوں کی صحبت آپؒ کو میسر آئی۔ ایک دن آپؒ لاہور کی تاریخی و قدیم درسگاہ جامعہ نعمانیہ دیکھنے گئے۔ وہاں علامہ حافظ محمد جمالؒ مسلم الثبوت کادرس دے رہے تھے۔ آپؒ درس میں بیٹھ گئے۔ جب آخر میں طلبہ سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو آپؒ نے بھی اس میں حصہ لیا ۔آپؒ کی دینی قابلیت اور ذہانت نے حافظ محمد جمال ؒکو اس قدر متاثر کیا کہ بعد میں انہوں نے تفصیلی گفتگو کر کے آپؒ کو جامعہ نعمانیہ میں مدرس کے عہدے کی پیشکش کی جسے آپؒ نے بخوشی قبول فرما لیا۔ آپؒ کا مسند تدریس پر رونق افروز ہونے اور علمی جاہ و جلال کا جلد ہی دور دور تک چرچا ہونے لگا اور عاشقان علم گروہ در گروہ یہاں آنے لگے۔ پھر وطن کی یاد نے آپؒ کو ستایا تو آپؒ آبائی علاقہ امروہ چلے گئے اور وہیں مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں درس وتدریس شروع فرما دی۔ تقریبا ً چاربرس بعد آپؒ اوکاڑہ کے حکیم جان عالم کے بے حد اصرار پر اوکاڑہ تشریف لے آئے۔ یہاں ایک سال درس وتدریس اور اشاعت اسلام میں مشغول رہے۔ ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز ؒکے عرس پاک کے تقریبات میں شرکت کے لئے آپؒ ملتان حاضر ہوئے۔ یہاں آپؒ نے جو سحر انگیز خطاب فرمایا تو حاضرین کے دل نور معرفت سے جگمگا نے لگے، پھر خطاب سے متاثر ہو کر ملتان کے اکابرعلماء و مشائخ نے آپؒ کو ملتان میں سکونت اختیار کرنے کی دعوت دی اور آپؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ملتان کو اپنا مسکن بنا لیا ۔یہاں اپنے گھر پر ہی درس وتدریس شروع کر دی۔ دور دراز سے لوگ حصول علم کی خاطر آنے لگے تو جگہ تنگ ہونے لگی۔ 1935ء میں ملتان میں آپؒ نے ایک عظیم الشان درسگاہ جامعہ انوارالعلوم کے نام سے قائم فرمائی اور تاحیات یہیں سے علم وفن کے گوہر لٹاتے رہے۔ آپؒ تحریک پاکستان کے موقع پر بھی علماء و مشائخ کے ہر اول دستہ میں شامل رہے ۔ آپؒ نے اکابر علماء ومشائخ کی رفاقت میں قیام پاکستان کے لئے بھرپور سعی کی اور جگہ جگہ جلسے جلوس اورتحریر و تقریر کے ذریعہ قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ آپؒ نے قرارداد پاکستان کی تجوید و توثیق کے لئے علماء ومشائخ کے ساتھ بنارس میں ہونے والی آل انڈیا سنی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ قیام پاکستان کے بعدآپؒ نے تحریک ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ آپؒ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی عظیم شخصیت اور ان کی تعلیمات سے بے حد متاثر تھے جس کا اثر آپؒ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ آپؒ کے علمی کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ قرآن پاک کا اردو ترجمہ ہے جو کہ البیان کے نام سے معروف عام ہے۔ آپؒ کا وصال مبارک 25رمضا ن المبارک 1986ء کو ہوا۔