سلطان نور الدین زنگیؒ کا واقعہ
اسپیشل فیچر
مملکتِ اسلامیہ کے دارالحکومت دمشق میں ایک پُرسکون رات میں ہر طرف سنا ٹا طاری تھا۔ بادشاہ وقت نماز عشاء سے فارغ ہو کر ذکر اذکار اور حضرت نبی اکرمؐ پر درود پڑھنے میں مشغول تھا۔ بعد میں بستر پر گیا، نیند نے آلیا۔ تہجد کے وقت حسبِ معمول آنکھ کھل گئی۔ نماز تہجد ادا کی، پھر سو گیا ۔ چند ہی لمحے گزرے تھے کہ بادشاہ اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ چہرے پر اضطراب کی کیفیت نمایاں تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ استغفار پڑھنے کے بعد کہنے لگا ’’میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ ہو نہیں سکتا‘‘۔ خواب کا خوفناک منظر بادشاہ کے قلب و ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی اکرمؐ اس کے سامنے جلوہ افزوز ہیں اور آپؐ دو افراد کی طرف اشارہ کرکے فرما رہے ہیں ’’ یہ دو آدمی مجھے ستا رہے ہیں، ان کے اس شر کا خاتمہ کر دو‘‘۔بادشاہ نے فوراً نرم نرم بستر کو خیر باد کہا اور اپنے دانشمند وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا اور اس کے سامنے خواب میں جو کچھ منظر دیکھا، وزیر کو بیان کر دیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ’’اب ہم یہاں ایک پل بھی نہیں ٹھہریں گے بلکہ ابھی مدینہ کی طرف جائیں گے، مدینہ جانے کی تیاری کی جائے۔‘‘بادشاہ اپنے وزیر اور بیس آدمیوںکو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ اس کے ساتھی ہی نہیں بلکہ شہرِ دمشق کے رہنے والے بھی حیران تھے کہ اچانک سفر کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ 557ھ (1162ئ) کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں عمومی طور پر دمشق سے مدینہ کا فاصلہ بیس (20) سے پچیس(25) دنوں میں طے ہوتا تھا لیکن بادشاہ نے تمام راستہ میں اپنے ساتھیوں کو کہیں آرام کرنے نہ دیا۔ بادشاہ نے یہی فاصلہ 16 دنوں میں طے کر لیا۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل بادشاہ نے غسل کیا۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد شہر کے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ سیدھا مسجدِ نبویؐ پہنچا۔ ریاض الجنہ میں نفل ادا کیے اور روضہ رسولؐ پر ھدیۂ درود وسلام کے بعد بادشاہ شہر کے حکام سے مخاطب ہوا کہ کل شہر کے تمام باشندوں کی ہماری طرف سے دعوتِ عام ہے۔ مقررہ اوقات میں مدینہ شہر کے سب لوگ دعوت میں شریک ہوئے۔ بادشاہ ہر شخص کو بڑے غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو اشخاص نظر نہ آئے جن کی طرف خواب میں آنحضورؐ نے اشارہ کیا تھا۔ بادشاہ کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ بادشاہ نے حکامِ شہر سے استفسار کیا کہ ’’ کیا سب لوگ دعوت میں آئے؟‘‘ حاکمِ شہر نے واضح کیا کہ صرف دو اشخاص جو مغربی زائرین ہیں اور ایک عرصہ سے یہاں رہائش پذیر ہیں، وہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور باقی سارا دن جنت البقیع میں زائرین کو پانی پلاتے رہتے ہیں، ان کی لمبی لمبی داڑھیاں ہیں ۔ بس یہی دو اشخاص ہیں جو دعوت میں نہیں آئے۔بادشاہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ حکم دیا کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کیا جائے، جب ان افراد کو بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو ان شیطان خصلت انسانوں کو دیکھتے ہی بادشاہ کے دل نے گواہی دی کہ یہ تو وہی دو آدمی ہیں جن کے متعلق نبی اکرمؐ نے خواب میں اشارہ فرمایا تھا۔ بادشاہ نے دونوں افراد سے پوچھا ’’ تم کہاں کے رہنے والے ہو‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ ہم مغرب سے ہیں۔ مکہ میں حج کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ حج کے بعد روضۂ رسولؐ پر حاضری دی اور اب یہاں سے واپس جانے کو دل نہیںچاہ رہا۔‘‘ بادشاہ نے پھر پوچھا ’’تمہارا قیام کہاں ہے؟‘‘ انہوںنے جواب دیا کہ ’’حجرہ نبویؐ کے قریب ہی ایک کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔‘‘فرمانروائے سلطنت نے ان دونوں اشخاص کو اپنے ماتحتوں کے پاس چھوڑا اور ان کے بتائے ہوئے پتہ پر اس مکان میں چلا گیا ۔ دیکھنے میں بظاہر کوئی چیز ایسی نہ تھی جس پر اعتراض کیا جاسکے۔ مختصر سا مسافرانہ سامان، سونے کے لیے ایک چٹائی اور دو چار کھانے پینے کے برتن پڑے ہوئے تھے! بادشاہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ چلتے پھرتے ایک جگہ اس نے چٹائی کے نیچے فرش کچھ لرزتا ہوا محسوس کیا۔ چٹائی ہٹائی تو نیچے ایک چوڑی سل نظر آئی۔ ہدایت پر سل کو سرکایا گیا تو بادشاہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سل کے نیچے ایک سرنگ کھدی ہوئی تھی۔ یہ سرنگ حضرت نبی اکرمؐ کے روضۂ اطہر کی طرف جا رہی تھی۔ حکمران کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ بادشاہ تیز تیز قدموں سے لوٹا اور حکم دیا کہ ان دونوں شیطان صفت آدمیوں کو پابہ زنجیر میرے سامنے پیش کیا جائے۔ بادشاہ نے ڈانٹ کر پوچھا کہ ’’سچ سچ بتاؤ کہ تم کون لوگ ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘بادشاہ کی گرجدار آواز سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ دونوں بہروپئے اپنے اصل روپ میں پہچانے جا چکے تھے۔ دونوں نے جواب دیا کہ ’’ہم مغرب سے آئے ہیں۔ ہمیں اپنی قوم کی طرف سے آپ کے پیغمبرؐ کی آخری آرام گاہ (نعوذ باللہ) چرانے پر مامور کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس جب ہمارا تھوڑا سا کام باقی رہ گیا تھا، ہمیں گرفتار کر لیا گیا۔‘‘ فرمانروا نے دونوں مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دیں۔ حکمران کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ اٹھا، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بادشاہ نے سسکیوں کے درمیان کہا کہ ’’یہ میرے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضور پاکﷺ نے اس غلام کو منتخب فرمایا‘‘۔ناپاک سازش کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ حکمران نے معمار بلائے اور ہدایت کی کہ روضۂ رسول کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھو دی جائے کہ پانی نکل آئے اور پھر اس خندق کو پگھلائے ہوئے سیسہ سے بھر دیا جائے۔ اس پر عمل ہوا، یہ خندق روضۂ رسول ؐ کے گرد آج بھی موجود ہے۔ یہ سعادت جس عظیم مسلمان فرمانروا کو نصیب ہوئی، دنیا اسے سلطان نور الدین زنگیؒ، کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے اپنے اٹھائیس سالہ دورِ حکومت میں (1146ء تا 1174ئ) مغرب کی صلیبی طاقتوں کو پے در پے شکستوں سے دو چار کرکے ان کا سکون تہ و بالا کر دیا اور ان کے غاصبانہ قبضہ سے بیت المقدس کی با زیابی کی راہ ہموار کی۔ ان کا عہد بلاشبہ اسلامی تاریخ کا ایک عہد زریں تھا۔ ٭…٭…٭