سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ
اسپیشل فیچر
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒرحمت خداوندی تھے۔ اس گراں قدر سرمایہ کا چھن جانا ایک عظیم سانحہ ہے۔ حضرت شاہؒ نے اس سرزمین پاک و ہند کے عوام میں انگریزی سامراج کے خلاف جس ہمت اور شجاعت سے کام کیا ہے۔ اس کی مثال تحریک حُر ّیت میں نہیں ملتی۔ انہوں نے انگریزی سلطنت کے خلاف ایک ذہن پیدا کیا۔ ان کا کام یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ عوام میں حکومت برطانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ جب حریت پسندوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے تھے۔ جب انگریزی رعب ودبدبہ عوام کے دل و دماغ پر مسلط ہوچکا تھا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے خیبر سے لے کر کلکتہ تک اور مدراس سے لے کر ہمالیہ تک نئی امنگ پیدا کی۔ ملک کی فضا کو انقلاب زندہ باد کی گونج میں تبدیل کر دیا۔ آپؒ کے ان تھک ارادوں کے سامنے کوئی طاقت نہ ٹھہر سکی اور چند ہی برسوں میں اس دھرتی کے لوگوں میں عظیم جذبۂ حریت پیدا کر دیا۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے زمزمے فضا میں گونج گئے۔ تحریک ترکِ موالات، تحریک خلافت، تحریک کشمیر، تحریک نمکین، تحریک ختم نبوت ہو یا تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ (۱۹۳۹ئ) سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آزاد آواز پورے ملک کے اندر گونج گئی۔ لاکھوں مجاہدین اپنے اس محبوب اور سرفروش رہنما کی آواز پر سربکف اپنے گھروں سے نکل پڑے اور انگریز سامراج کی جیلوںکو بھر دیا۔حضرت امیر شریعتؒ کے کام اور انداز اور اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کے جذبہ اور ولولۂ حریت کا اندازہ آپ اس ایک تاریخی کارنامے سے لگا سکتے ہیں کہ جب ۱۳؍مارچ ۱۹۳۰ء کو ملک کے اندر انگریزوں کے خلاف تحریک نمکین شروع ہوئی تو آپؒ نے اپنا طوفانی دورہ لاہور سے شروع کیا۔ لاہور سے چل کر یہ بطل حریت امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ میں اپنے نعرہ ہائے حریت سے فضا کو مسحور کرتا ہوا سہارن پور پہنچا۔ یہاں سے پھر امروہہ پورے یوپی، سی پی سے ہوتا ہوا بہار میںداخل ہوا اور یہاں سے پھر بنگال میں دیناج پور کے مقام پر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا اور گرفتاری کے وقت ایک تاریخی فقرہ کہا کہ ’’میں نے پورے ہندوستان کی سرزمین کو انگریزوں کے خلاف کھڑا کردیا ہے اور اب آگے سمندر ہے لہٰذا اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں‘‘۔یاد رہے کہ لاہور میں پہلے ہی خطاب سے ہندوستان بھر کی پولیس آپؒ کو گرفتار کرنے کی سر توڑ کوشش کرتی رہی لیکن آپؒ پولیس کو جل دے کر آگے نکل جاتے۔ کہیں پر بھی ہندوستانی پولیس آپؒ کو گرفتار نہ کرسکی۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے فرزند عزیزالرحمن لدھیانوی اپنی کتاب ’’رئیس الاحرار اور ہندوستان کی جنگ آزادی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں: ’’اس سارے دورے میں حضرت شاہ صاحب کی تقریروں سے متاثر ہو کر ایک لاکھ سے زیادہ فرزندان توحید نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا۔‘‘یہ تھا آپؒ کے کام کرنے کا انداز اور جذبہ کہ جس کے آگے ہندوستان جیسے وسیع ملک کے طول و عرض سکڑ تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔آپؒ کہا کرتے تھے کہ دنیا میں مجھے ایک چیز سے محبت ہے اور ایک چیز سے نفرت، قرآن سے محبت اور انگریز سے نفرت۔ آپؒ نے اپنی زندگی کے تقریباً دس سال قید افرنگ کی نذر کردیے۔ آپ مخالفین اسلام کے لیے دو دھاری تلوار تھے جو ہمیشہ کفر و باطل کی طاقتوں کے سر پر لٹکتی رہی۔ آپؒ آسمانی بجلی تھے جو منکرین ختم نبوت پر عذاب الٰہی بن کر گری اور کام کر گئی۔ آپؒ کی للکار، آپؒ کی گفتار اور آپؒ کے کردار کے آگے بڑے بڑے فرعون نہ ٹھہر سکے۔ آپؒ کے عزم و استقلال کی قسمیں صدیوں تک کھائی جاتی رہیں گی۔ آپؒ حق گوئی، بہادری، شجاعت، خودداری اور غیرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے جو اب بھی لاکھوں انسانوں کے دل و دماغ پر نقش ہو کر انہیں دین کے لیے کچھ کر گزرنے پر اکساتی رہتی ہے۔ شاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والا یہ مردِ درویش و حق پرست، جس نے بڑے وقار اور تمکنت سے شاہی شان و شوکت کے رخسار پر طمانچے مارے، اسے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے 58 سال بیت چکے ہیں جس کے ساتھ تاریخ پاک و ہند کا وہ دور بھی ختم ہوگیا جو آپؒ کی انوکھی خطیبانہ خوبیوں اور آپؒ کے عزم و استقلال سے روشن ہے۔آپؒ ہمارے درمیان نہ رہے تو کیا۔ آپؒ کا نام آپؒ کا کام اور آپؒ کا حسن کلام ہمیشہ زندہ و باقی رہے گا۔