علی سردار جعفری
اسپیشل فیچر
29 نومبر 1913ء کو بلرام پور اترپردیش (بھارت) میں پیدا ہونے والے علی سردار جعفری نے اپنا بچپن بلرام پور میں گزارا۔ شعرو شاعری سے رغبت انہیں شروع سے ہی تھی۔ شروع شروع میں وہ جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور فراق گورکھپوری سے متاثر تھے۔ 1933ء میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، جہاں جلد ہی یہ علم ہو گیا کہ وہ کمیونزم کے حامی ہیں۔ 1936ء میں انہیں سیاسی وجوہات کی بنا پر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ تاہم انہوں نے 1938ء میں ذاکر حسین کالج دہلی سے گریجوایشن کر لی۔ وہ لکھنؤ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایشن کر رہے تھے لیکن یہ سلسلہ ادھورا رہ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہیں 1940-41ء میں جنگ کے خلاف نظمیں لکھنے اور انڈین نیشنل کانگرس کی طرف سے شروع کی گئی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت وہ یونیورسٹی کی طلبا یونین کے سیکریٹری جنرل تھے۔ علی سردار جعفری نے 1938ء میں اپنا ادبی کیرئیر شروع کیا۔ اس سال ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’منزل‘ شائع ہوا۔ 1944ء میں ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’پرواز‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس سے پہلے 1936ء میں وہ لکھنؤ میں ہونے والی ترقی پسند ادبیوں کی کانفرنس کی صدارت کر چکے تھے۔ دراصل 1936ء میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور اس کے قیام میں منشی پریم چند نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ پہلے اجلاس میں کرشن چندر، مہند راناتھ، خواجہ احمد عباس کے علاوہ کئی اور ادیبوں نے شرکت کی۔ علی سردار جعفری بعد میں بھی ترقی پسند ادیبوں کی کانفرنس کی صدارت کرتے رہے۔ 1939ء میں وہ ادبی جریدے ’’نیا ادب‘‘ کے معاون ایڈیٹر بن گئے۔ یہ جریدہ ترقی پسند تحریک کے اغراض و مقاصد کی ترویج کے لیے شروع کیا گیا تھاجو 1949ء تک شائع ہوتا رہا ۔ علی سردار جعفری کئی سماجی، سیاسی اور ادبی تحریکوں کا حصہ رہے۔ انہوں نے فلمی نغمات بھی لکھے جن میں فلم ’’دھرتی کے لعل‘‘ اور ’’پردیسی‘‘ شامل ہیں۔ لیکن وہ فلمی گیت نگاری کو زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے۔ 1948ء اور 1978ء کے درمیان ان کی شاعری کے آٹھ مجموعے شائع ہوئے جن میں نئی ’’دنیا کو سلام، خون کی لکیر، امن کا ستارہ، ایشیا جاگ اٹھا، پتھر کی دیوار، ایک خواب اور، پیرہنِ شرر، میرا سفر اور لہو پکارتا ہے‘‘ شامل ہیں۔ اس کے بعد ان کے مجموعے ’’صبح فردا، اور ان کا آخری مجموعہ ’’سرحد‘‘ شائع ہوئے۔ 1999ء میں جب بھارت کے صدر اٹل بہاری واجپائی بس کے ذریعے لاہور آئے تو علی سردار جعفری کا مجموعہ ’’سرحد‘‘ ساتھ لے کر آئے۔ علی سردار جعفری کا ادبی سفر پانچ دہائیوں پر محیط تھا۔ ان کی کتاب ’’محفلِ یاراں ‘‘ بھی بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویو کیے تھے۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے معروف ادبی جریدے ’’گفتگو‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے خود نوشت بھی لکھی۔ علی سردار جعفری کی شاعری بڑی اثر انگیز اور شدت احساس سے معمور ہے۔ ان کے ہاں کئی رنگ ملتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر انسان اور انسانی صورت حال کو بیان کرنے والے شاعر ہیں۔ ان کے ہاں جمالیاتی طرزاحساس بھی ملتا ہے۔ ذیل میں ان کے کچھ اشعار قارئین کی خدمت میںپیش ہیں۔ اے وطن، خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گےبچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعداب آگیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جاچمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جااک صبح ہے جو ہوتی نہیں ہےایک رات ہے جوکٹی نہیں ہے۔ تیرگی جتنی بڑھے حسن ہو افزوں تیراکہکشاں مانگ میں ماتھے پہ ضیا مانگتے ہیںمیں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤمیری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ علی سردار جعفری نے جنوری 1948ء میں شادی کی۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ یکم اگست 2000ء کو یہ نادرِ روزگار شاعر اس دارِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ انہوں نے بڑا شاندار کام کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔