ٹرائے کیسے تباہ ہوا؟
اسپیشل فیچر
ہومر کی ایلیڈ (Iliad) جنگوں کے متعلق سنائی جانے والی کہانیوں میں غالباً سب سے پہلی اور عظیم کہانی ہے۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ٹرائے کے بادشاہ پریام کا بیٹا پارس سپارٹا کے بادشاہ مینی لاس کی بیوی ہیلن کو اغوا کر لیتا ہے۔ مینی لاس کی بیوی ہیلن اس وقت دنیا کی حسین ترین عورت سمجھی جاتی تھی۔
ہومر ٹرائے سے بدلہ لیے جانے کا گیت گاتا ہے۔ جب پارس اغوا شدہ ہیلن کی واپسی کے متعلق استہزائیہ طور پر انکار کر دیتا ہے تو مینی لاس کا بھائی آگا میمنون جو مسی نی کا بادشاہ اور یونان کا حکمران اعلیٰ تھا، ٹرائے کے ایک قومی حریف کی حیثیت سے آگے آتا ہے۔ یونان کے تمام بادشاہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ بہادر اکلیز، من چلا اوڈی سیوس، شہ زور اجاکس اور دوسرے ایک بڑی فوج کے ساتھ ٹرائے کے میدان میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ لیکن ٹرائے، پارس کے جنگجو بھائی، ہیکٹر کی قیادت میں نو سال تک انہیں اپنی طرف پیش قدمی سے باز رکھتا ہے۔ ایلیڈ کے علاوہ اوڈیسی میں ہومر نے ہمیں بتایا ہے کہ طویل محاصرے کے بعد چالاک اوڈی سیوس اپنی جنگی چال سے ٹرائے شہر کی دیواریں توڑ کر اسے نیست و نابود کر دیتا ہے۔
ہزاروں سال تک اس کہانی کو محض ایک فرضی قصہ سمجھا جاتا رہا اور ٹرائے کا وجود خود بھی افسانوی ہی رہا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں جرمنی کے ایک شخص ہنرخ شلیمان نے ہومر کا ٹرائے دریافت کرنے اور افسانے سے حقیقت ثابت کرنے کا عزم کیا۔ 1868ء میں وہ ٹرائے ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا۔
بحیرہ ایجہ (Aegean Sea) کے شمال مشرقی کنارے حصارلک کے مقام پر اسے بالآخر ٹرائے مل گیا۔ اگرچہ 1822ء میں چارلس میک لارن نے اس مقام پر ایک ٹیلے میں مدفون شہر کے کھنڈرات کو ہومر کے ٹرائے کے کھنڈرات قرار دیا تھا، مگر شلیمان کی کوششوں سے پہلے اسے کسی نے بھی ٹرائے کے طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ شلیمان کو حصارلک کے مقام پر یکے بعد دیگرے نو شہروں کی باقیات ملیں، جو تین ہزار ق م کے ٹرائے سے لے کر تیسری صدی قبل مسیح کے الیئم یا الیئون (Ilion) تک سے تعلق رکھتی تھیں۔
کانسی کے زمانے سے تعلق رکھنے والے اس شہر کا محل وقوع بہت خوب تھا۔ یہ عین اسی بری راستے پر واقع تھا جو ایشیائے کوچک سے یورپ کو جاتا تھا۔ یہ اس بحری راستے کے بہت قریب تھا جو درۂ دانیال سے گزرتا تھا۔ صرف قزاقوں کے خوف سے پہلے آباد کاروں نے اپنا شہر سمندر سے کچھ فاصلے پر بسایا تھا، اگرچہ سمندر سے دوری کی وجہ سے تجارت کرنے والوں کو دقت محسوس ہوتی تھی۔ سب سے پہلا ٹرائے دو دریاؤں کے درمیان ایک پہاڑی چٹان پر بنایا گیا تھا جنہیں بعد میں یونانیوں نے سامندر اور سیموئس کے نام دیے۔
پھر یہ شہر نو تمدنی تبدیلیوں سے گزرا اور کبھی اجڑا اور کبھی آباد ہوا۔ چودھویں صدی ق م کے وسط میں ایک زلزلے نے ٹرائے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، بڑی بڑی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی تھیں اور عمدہ مکانات کو زمین بوس کر دیا تھا۔ لیکن اس تباہی کے بعد یہ شہر جس مقام پر آباد ہوا، وہ ماہرین اثریات کے نزدیک ٹرائے سات یا ہفتم الف ہے۔ یہی دراصل پریام کا شہر تھا۔ یہ زلزلے سے پہلے آباد ٹرائے سے اگرچہ کچھ چھوٹا تھا مگر اس میں زندگی کی نہج بالکل وہی تھی جیسی تباہی سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ ٹرائے سات الف جلد ہی ایک سیاسی اور اقتصادی مرکز کے طور پر جانا جانے لگا۔ 1200 ق م کے قریب یونان کی دیگر ریاستوں نے اس کی اس ترقی سے پریشان ہو کر اس کے خلاف آگامیمنون کی قیادت میں اتحاد قائم کیا۔
ہومر کی بیان کردہ داستان ہیلن کی حقیقت کے متعلق تو بہت سے محققین نے افسانوی ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اسی قسم کا واقعہ ہوا ہو لیکن ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک بادشاہ کی بیوی کو اغوا کر لیے جانے کا واقعہ یونانی حکمرانوں کو ٹرائے کے خلاف جنگ پر نہیں اکسا سکتا تھا۔ یونان اس قدر بکھرا اور منقسم تھا کہ اس قسم کا واقعہ اسے سیاسی طور پر متحد نہیں کر سکتا تھا۔
لیکن ٹرائے پر حملے کی دوسری اور بہتر وجوہات موجود تھیں۔ ٹرائے ایک حددرجہ دولت مند شہر تھا۔ اس کی فتح سے بہت سا مال غنیمت اور غلام ہاتھ لگ سکتے تھے۔ ٹرائے ایک پریشان کن شہر تھا جس نے درۂ دانیال کی تجارتی راہ مسدود کر رکھی تھی۔ ٹرائے کو راستے سے ہٹا دینے سے یونانی جہاز آزادی سے ایشیا تک جا سکتے تھے۔ پھر ٹرائے تجارتی منڈیوں میں بھی ایک بڑا مدمقابل تھا جس نے اپنی مصنوعات دور دور تک پھیلا رکھی تھیں۔ ان وجوہات کی بنا پر یونانی بادشاہ ٹرائے کے خلاف متحد ہو سکتے تھے۔ شاید انہیں وجوہات کی بنا پر ٹرائے کی جنگ لڑی گئی ہو۔
حملہ آور 1199 ق م میں روانہ ہوئے۔ یونان کے ہر شہر سے آدمی فوج میں آ شامل ہوئے۔ نہ صرف مسی نی اور سپارٹا، جو میمنون اور مینی لاس کے شہر تھے، نے اپنی افواج اس جنگ کے لیے روانہ کیں، بلکہ یونان کے اس عظیم دور کے ہر شہر پائیلوس، آرگوس، اتھاکا، کریٹ رھوڈز اور ترنیز بھی اس مہم میں شریک ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ ملکہ ہیلن کا اغوا ہی جنگ شروع کرنے کا سبب بنا ہو، لیکن یونانیوں کو جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ جنگ شروع کرنا جنگ جیتنے سے کہیں زیادہ آسان کام ہے، کیونکہ ٹرائیوی باشندوں نے ثابت کر دیا کہ وہ لقمہ تر نہیں جسے فوراً ہی منہ میں رکھ لیا جائے۔ شاہ پریام نے ایشیائے کوچک کے علاقوں اور سرزمین یونان پر واقع تھریس سے لوگ بھرتی کر کے ایک بہت بڑی فوج جمع کر رکھی تھی۔
ایک بڑی خونریز جنگ کے بعد آگامیمنون کی فوجوں نے ٹرائے کے قریب ساحل پر قدم جمائے اور ایک طویل عرصہ تک وہیں پڑاؤ قائم کیے رکھا۔ ہومر ہمیں بتاتا ہے کہ محاصرہ 10 سال جاری رہا۔ شاید یہ شاعر کی مبالغہ آرائی ہو اور ممکن ہے کہ حقیقت ہو۔ یونانیوں کے پاس محصور شہر کی فصیلوں کو توڑنے کے لیے کوئی مشین نہیں تھی۔ وہ اپنے ملک سے بہت دور اور شاید رسد سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ اس لیے انہیں ٹرائے کے اردگرد پھیلے ہوئے چھوٹے شہروں پر خوراک کی خاطر حملہ کرنا پڑا۔
ہومر ہمیں بتاتا ہے کہ ٹرائے کا یہ طویل محاصرہ اس وقت ختم ہوا جب یونانی لشکر میں سے ذہن اوڈی سیوس نے لکڑی کا بہت بڑا گھوڑا تیار کروا کے رات کے اندھیرے میں اسے ٹرائے کے دروازے کے سامنے رکھ چھوڑا تھا۔ ایک ٹرائیوی پروہت کی اس گھوڑے پر نظر پڑی اور اہل ٹرائے اسے دیوتاؤں کا تحفہ سمجھتے ہوئے شہر کے اندر لے آئے۔ لکڑی کے گھوڑے کے اندر یونانی سپاہی چھپے ہوئے تھے۔ وہ کود کر باہر نکل آئے۔ ابھی اہل ٹرائے سنبھل نہ پائے تھے کہ انہوں نے آگا میمنوں کے لشکر کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے۔
ہومر کی بیان کردہ داستان کا یہ لکڑی کا گھوڑا کوئی تاریخی وجود رکھتا تھا یا کہ نہیں لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ٹرائے 1193 ق م کے قریب قریب حملہ آوروں کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ ایک بار پھر شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اسے جلایا گیا اور اس کی آبادی کا قتل عام کر دیا گیا۔ ٹرائے بحیرہ ایجہ میں تجارت اور جہاز رانی کے اعتبار سے بالکل ختم کر دیا گیا۔ لیکن ققنس اپنی راکھ سے ایک بار پھر جی اٹھا۔ بچے کھچے ٹرائیوں نے ایک اور شہر تعمیر کر لیا جو ماہرین اثریات کے نزدیک ہفتم ب تھا۔