دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں لال محمد اقبال کاسنگیت کبھی نہیں بھلایا جا سکتا
اسپیشل فیچر
پاک و ہند کی فلمی صنعت میں موسیقاروں کی جوڑیاں بڑی مشہور ہوئیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ یہ ایک فرد ہے جو فلاں فلم میں موسیقی دے رہا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ دو الگ الگ فرد تھے۔ یا تو وہ دونوں دوست تھے یا سگے بھائی۔ پہلے ہم بھارت کی بات کرتے ہیں۔ وہاں لکشمی کانت پیارے لال، کلیان جی آنند جی، جیتن للت، ندیم شیراون، وہ جوڑیاں تھیں جنہوں نے یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان کے گیت بہت مقبول ہوئے۔ یہ سب موسیقار 70ء، 80ء اور 90ء کی دہائی میں اپنے خوبصورت سنگیت سے اہل موسیقی کے دلوں پر راج کرتے رہے۔ اسی طرح پاکستان میں سلیم اقبال، بخشی وزیر، رحمان ورما کی جوڑیاں تھیں جنہوں نے فلموں میں دلکش موسیقی دی اور ان کے نغمات کی آج بھی تعریف کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موسیقاروں کی ایک اور جوڑی ایسی تھی جنہوں نے فلموں میں اعلیٰ درجے کی موسیقی دی۔ اگرچہ ان کے فلمی نغمات کی تعداد کم ہے لیکن ان کا سنگیت دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے۔ یہ تھے لال محمد اقبال۔
ان میں سے ایک موسیقار کا نام تو لال محمد تھا جبکہ دوسرے کا نام تھا بلند اقبال۔ ان دونوں دوستوں کی موسیقی کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ ان کی موسیقی کا انداز سب سے الگ تھا۔ لال محمد 1933ء میں پیدا ہوئے جبکہ بلند اقبال نے 1930ء میں جنم لیا۔ چونکہ وہ دونوں قریباً ہم عمر تھے اور دوسرے موسیقار زیادہ عمر کے تھے، اس لیے ان دونوں میں دوستی ہو گئی اور انہوں نے موسیقی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ دونوں کے درمیان زبردست ذہنی ہم آہنگی تھی اس لیے دونوں کے بیچ کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ دونوں ذہین تھے اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال تھے اس لیے دونوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے گیتوں اور غزلوں کی موسیقی دینا شروع کر دی۔ ان کے فن کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ریڈیو کے ارباب اختیار نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ترقیوں سے نوازا گیا۔
یہ دونوں دوست جتنے باصلاحیت تھے اس کے پیش نظر ریڈیو میں انہیں اپنے جوہر دکھانے کے اتنے مواقع حاصل نہیں تھے۔ جلد ہی انہیں فلم ''بارہ بجے‘‘ کی موسیقی مرتب کرنے کا موقع ملا۔ یہ فلم 1962 میں ریلیز ہوئی جس کے بعد فلم بینوں کو پاکستانی فلم صنعت کے موسیقاروں کی اس جوڑی کے بارے میں علم ہوا۔
بلنداقبال کے والد استاد بندو خان ایک معروف سارنگی نواز تھے۔ وہ سارنگی نواز اور کلاسیکل گائیک امراؤ بندو خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ یہ موسیقی کے دہلی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بلند اقبال نے اپنے والد اور تایا سے کلاسیکل راگ سیکھے اور اس سلسلے میں بہت محنت کی۔ انہوں نے خود بھی راگ گائے۔ جب لال محمد کے ساتھ ان کی دوستی ہو گئی تو دونوں نے سنگیت کاروں کی جوڑی بنائی اور ریڈیو پاکستان اور فلموں کے لیے شاندار نغمات تخلیق کیے۔ یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے لیے دھنیں بنانے کا انہیں خوب تجربہ حاصل ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لال محمد اقبال کو فلمی صنعت میں متعارف کرانے میں احمد رشدی نے اہم کردار ادا کیا۔ احمد رشدی کو اس دور میں پاپ سنگر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ احمد رشدی اور وحید مراد دوست تھے اس لیے احمد رشدی کے گیت وحید مراد پر عکس بند ہوتے تھے۔ بعد میں رشدی صاحب کے گانے محمد علی، ندیم اور سید کمال پر بھی فلمبند ہونے لگے۔
لال محمد اقبال کے فن کا پتہ ان کے گیتوں سے چلتا ہے۔ شہناز بیگم کا گیت ''آئی ہے بہار‘‘ کی بنیاد کلاسیکی موسیقی پر رکھی گئی۔ 1972ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''پائل‘‘ میں اس گیت کو اداکارہ آسیہ پر عکس بند کیا گیا۔ 1969ء میں فلم ''لاڈلا‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں ایک گیت کو ''چھا چھا‘‘ کی بیٹ میں گوایا گیا۔ یہ ڈانس وحید مراد اور شبنم پر عکس بند ہوا۔ یہ تنویر نقوی کا لکھا ہوا گیت تھا۔ اب ذرا تنویر نقوی کا کمال دیکھئے کہ انہوں نے کیسے کیسے اردو اور پنجابی کے گیت لکھے۔ مذکورہ بالا دونوں گیتوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو دونوں میں ایک مکمل تضاد نظر آتا ہے۔ ایک نغمہ مکمل طور مشرقی انداز لیے ہوئے ہے جبکہ دوسرے نغمے کی موسیقی مغربی سٹائل میں ہے۔ لال محمد اقبال کی موسیقی میں یہی تنوع نظر آتا ہے۔ وہ ہر قسم کی سچوایشن کے مطابق موسیقی مرتب کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ جہاں ایک دوست کی کلاسیکل بنیاد بہت مضبوط تھی تو دوسرا اپنے سٹائل کی وجہ سے لوگوں کے لیے بہت کشش رکھتا تھا۔ اب ذرا ''لاڈلا‘‘ کا گانا ملاحظہ کیجئے۔ ''سوچا تھا پیار نہ کریں گے‘‘۔ یہ بہت مقبول نغمہ تھا اور وحید مراد پر فلم بند ہوا تھا۔ اس میں لال محمد اقبال بالکل مختلف انداز میں سامنے آتے ہیں۔ تنویر نقوی بھی یہ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ اسی ٹیم کا یہ گیت بھی قابل تحسین ہے ''پیار مل جائے تو‘‘۔
1970ء میں وحید مراد اور شبنم کی ایک اور فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''نصیب اپنا اپنا‘‘ یہ فلم اگرچہ باکس آفس پر اتنی کامیاب نہیں ہوئی لیکن لال محمد اقبال کی موسیقی میں احمد رشدی کا گایا ہوا یہ گانا آج بھی مقبول ہے۔ اس گانے کے بول تھے ''اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکے‘‘۔ اس گیت میں ایک مختلف لال محمد اقبال نظر آتے ہیں۔ اس گانے نے احمد رشدی کی شہرت میں بھی اضافہ کیا۔ 1966ء میں انہوںنے فلم ''جاگ اٹھا انسان‘‘ کی موسیقی دی۔ اس میں مہدی حسن کے گائے ہوئے ایک گیت نے دھوم مچا دی۔ اس گیت کو آج بھی مہدی حسن کے شاہکار گیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دکھی پریم نگری کے لکھے ہوئے اس گیت کے بول تھے ''دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں‘‘۔ یہ گیت راگ بھوپالی میں گایا گیا۔ یہ گانا سن کر وجد طاری ہو جاتا ہے۔ اس فلم کے دوسرے گیتوں کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ باقی گیت بھی دکھی پریم نگری کے زور قلم کا نتیجہ تھے بلکہ انہوں نے اس فلم کے مکالمے اور سکرین پلے بھی لکھا۔
لال محمد قبال 1957ء سے 1994ء تک موسیقی دیتے رہے۔ ان دونوں کا تعلق بلاشبہ پاکستانی فلمی موسیقی کے سنہرے دور سے تھا۔ ان کے دور میں خواجہ خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین، نثار بزمی، رشید عطرے اور ماسٹر عبداللہ کا طوطی بول رہا تھا لیکن موسیقاروں کی اس جوڑی نے اس کے باوجود اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔ انہوں نے کافی مصائب کا بھی سامنا کیا۔ وہ دونوں کراچی میں رہتے تھے جبکہ اس وقت لاہور فلموں کا گڑھ تھا اور اسے ''فلم نگری‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود دونوں موسیقاروں نے 35 فلموں کی موسیقی دی۔ ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی، کیونکہ ان کی ساری فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ ان دونوں کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ انہوں نے صرف مہدی حسن اور احمد رشدی سے ہی گیت نہیں گوائے بلکہ دوسرے گلوکاروں کو بھی موقع دیا جن کی تعداد 40 ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں ''جاگ اٹھا انسان، اکیلی نہ جانا، آزادی یا موت، دوسری ماں، جین بانڈ آپریشن کراچی، سورج بھی تماشائی، ہمت (سندھی زبان کی فلم)، روپ بہروپ، جانور اور نادان‘‘ شامل ہیں۔ ''نادان‘‘ اقبال اختر کی فلم تھی اور یہ سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم کے گانے بھی خاصے مقبول ہوئے تھے۔
2009ء میں لال محمد کا انتقال ہوا جبکہ 2013 میں بلند اقبال راہی ملک ِ عدم ہوئے۔ ان دونوں دوستوں نے جتنی محنت اور جانفشانی سے کام کیا اس پر ہمیشہ انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔