راجہ مہدی علی خان کی شاعری
اسپیشل فیچر
طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا جدید دور قیامِ پاکستان سے شروع ہوتا ہے اور اس کا دائرہ اثر 1980ء تک پہنچتا ہے۔ اس دور میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری مختلف اخبارات و رسائل اور عام مشاعروں کے ذریعے عوام تک پہنچی۔ کبھی کبھار مشاعروں میں مزاح گو شعرا کو بھی دعوتِ کلام دے دی جاتی تھی تاکہ سنجیدہ مشاعروں کی سنجیدگی کے رنگ کو بدلا جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ مزاح گو شعرا نے بھی مل بیٹھنا شروع کر دیا اور 80ء تک آتے آتے مزاحیہ مشاعروں کا باقاعدہ اہتمام شروع ہو گیا۔ اس جدید عہد کو ہم طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا عبوری عہد بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہیں سے اس کو عوام و خواص میں پذیرائی ملنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے چار صدیوں پر محیط تذکرے ''گلہائے تبسم‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں کئی شعرا نے طنز و مزاح کی راہ اختیار کی لیکن وہ معروف نہ ہو سکے۔البتہ بعض شعرا نے اپنی ذات میں ایک دبستان کی حیثیت اختیار کر لی، ہمہ وقت مزاح گو شاعر کہلائے اور چمنستانِ طنز و مزاح کو تر و تازہ کیا۔ان میں راجہ مہدی علی خان، حاجی لق لق، ظریف جبل پوری، خضر تمیمی، سیّد محمد جعفری، مجید لاہوری، نذیر احمد شیخ اور آزر عسکری خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے اس عہد میں راجہ مہدی علی خان کا نام خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سماجی برائیوں اور زندگی کے حقائق پر نشتر زنی کی ہے۔ راجہ مہدی علی خان کی نظموں میں طنز و مزاح کی کئی جہتیں بیک وقت عمل پذیر ہو کر قاری کے ذہن کو جھنجوڑنے لگتی ہیں اور وہ گہری سوچ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اسی حوالے سے لکھتے ہیں:
''...راجہ مہدی علی خان کی نظموں میں بعض حقائق کو طشت از بام کر کے خواب پرستوں کی ذہنی اڑان کو روکنے کی بھی ایک واضح سعی نظر آتی ہے۔ مثلاً ان کی نظم ''چور اور خدا‘‘ میں اگر دعا کی جذباتیت کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہے تو ''کانے کے آنسو‘‘ میں محبت کی جذباتیت کو رسوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر وہ ان باتوں سے ذرا ہٹ کر ٹھوس حقائق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ''اجی پہلے آپ‘‘ اور ''ملاقاتی‘‘ جیسی تخلیقات معرضِ وجود میں آنے لگتی ہیں اور طنز کی نشتریت تیز سے تیز تر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں راجہ صاحب کی بہترین نظم ''ایک چہلم پر‘‘ ہے جس میں انتہائی خوبی اور جرأت سے سماج کی بعض دلچسپ رسوم کے مضحک پہلوؤں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔‘‘
نظم ''ایک چہلم پر‘‘ ملاحظہ کریں جس میں پائی جانے والی طنز کی تیز تر لہروں کا ذکر ڈاکٹر وزیر آغا نے اس اقتباس میں کیا ہے:
ایک چہلم پر
رضیہ ذرا گرم چاول تو لانا!
ذکیہ ذرا ٹھنڈا پانی پلانا!
بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ
ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
منگانا پلاؤ ذرا اور خالہ!
بڑھانا ذرا قورمے کا پیالہ!
جدھر دیکھتے ہیں ادھر غم ہی غم ہے
کریں اس کا جتنا بھی ماتم وہ کم ہے
دلہن سے کہو آہ! اتنا نہ روئے
بچاری نہ بے کار میں جان کھوئے
اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے
یہ چھچھڑا لکھا تھا مقدر میں میرے
بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ
ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
دلہن گھر میں چورن اگر ہو تو لانا
نہیں تو ذرا کھاری بوتل منگانا
نہ کر بَین اتنے نہ رو اتنا پیاری
ہمارے کلیجے پہ چلتی ہے آری!
راجہ مہدی علی خان نے طنز کے ساتھ خالص مزاح گوئی کے نمونے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ ان میں زیادہ گہرائی میں جائے بغیر مفہوم تک پہنچا جا سکتا ہے اور طنز کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ''ڈاکوؤں سے انٹرویو‘‘ ایسی ہی ایک نظم ہے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
ڈاکوؤں سے انٹرویو
مرے والد فرید آباد کے مشہور ڈاکو تھے
خدا بخشے انہیں، اپنے زمانے کے ہلاکو تھے
نہیں تھا چور کوئی شہر میں دادا کے پائے کا
چرا کر گھر میں لے آئے تھے کتا وائسرائے کا
مرے ماموں کے جعلی نوٹ امریکا میں چلتے تھے
ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے
مرے پھوپھا چھٹے بدمعاش تھے اپنے زمانے کے
خدا بخشے بہت شوقین تھے وہ جیل خانے کے
بڑے وہ لوگ تھے لیکن یہ بندہ بھی نہیں کچھ کم
خدا کا فضل ہے مجھ پر نہیں مجھ کو بھی کوئی غم
میں راجوں اور مہاراجوں کی جیبیں بھی کترتا تھا
چرس، کوکین اور افیون کا دھندا بھی کرتا تھا
مرے معمولی شاگردوں نے چودہ بینک لوٹے تھے
مری کوشش سے با عزت بری ہو کر وہ چھوٹے تھے
عدالت مانتی تھی میری قانونی دلیلوں کو
کرایا میں نے اندر شہر کے پندرہ وکیلوں کو
راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے ''مضراب‘‘ اور ''اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔ ان کے مقبول و معروف نمونوں میں ''چور کی دعا، مثنوی قہرالبیان، پنجاب کے دیہات میں اردو، ملاقاتی، ایک چہلم پر، اجی پہلے آپ،کانے کے آنسو‘‘ وغیرہ ہیں۔