وزن کو بڑھنےسے روکیں

وزن کو بڑھنےسے روکیں

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد اقبال


وزن کم کرنا آسان نہیں ہوتا اس کے لیے بہت سے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ خوراک کا چناؤ احتیاط کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایک بار محنت کرنا کافی نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ مشکل ہوتا ہے وزن کو دوبارہ بڑھنے سے روکنا۔ ایک بار وزن کم کرنے کے بعد دوبارہ فربا ہونے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عادتوں میں تبدیلی لائی جائے۔ذیل میں ان طریقوں اور غذاؤں کا ذکر ہے جن سے دوبارہ وزن بڑھنے سے بچا جا سکتا ہے۔ 
ناشتہ:بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کھانا چھوڑنے سے حرارے کم ملتے ہیں اور یوں وزن کم ہوتا ہے۔ اسی خیال سے وہ ناشتہ ترک کر دیتے ہیں جبکہ معاملہ اس کے الٹ ہے۔ ناشتہ کرنے سے آپ کو دن بھر کے ضروری حرارے میسر آ جاتے ہیں، بھوک اچانک نہیں لگتی اور آپ بدحواس ہو کر بہت زیادہ کھانے نہیں لگتے۔ ایک جائزے کے مطابق ایسے مرد جو ناشتہ کرتے ہیں، ان کا وزن ناشتہ نہ کرنے والے مردوں سے عام طور پر کم ہوتا ہے۔ اسی طرح ناشتہ کرنے والی عورتوں کا ناشتہ نہ کرنے والی لڑکیوں کی نسبت جسمانی حجم اکثر کم ہوتا ہے۔ تاہم ناشتے میں فربا کرنے والی غذائیں استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔ 
ریشہ دار غذائیں:ریشہ (فائبر) والی غذاؤں کے یوں تو بہت سے فوائد ہیں لیکن ان میں سے ایک وزن کا مناسب رہنا ہے۔ انہیں کھانے سے پیٹ بھرا بھرا محسوس ہوتا ہے۔ زیادہ ریشے والی غذائوں میں کم حرارے اور کم چکنائی ہوتی ہے، اس کے باوجود غذائیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ غذائیں آہستہ آہستہ ہضم ہوتی ہیں۔ ان سے خون میں شکر کی سطح متوازن رہتی ہے اور اچانک اوپر نیچے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو دیر تک بھوک نہیں لگتی۔ چھلکوں سمیت استعمال ہونے والے اناج یعنی ہول گرینز میں میگنیشیئم اور وٹامن بی موجود ہونا ہے جو وزن کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
سبزیاں:ہری اور کچی سبزیاں جیسے گاجر، بروکولی، توری وغیرہ میں کم حرارے ہوتے ہیں، البتہ پانی زیادہ ہوتا ہے اور دیر سے ہضم ہونے والا ریشہ موجود ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایسے لوگ جو سلاد کھاتے ہیں ان میں وٹامن سی، ای، فولیٹ اور کیروٹینائیڈز زیادہ ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے ضروری اور مفید ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سلاد اور سبزیاں کھانے والے لوگوں کا وزن (بڑا) گوشت کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
مچھلی اور مرغی: پروٹین والی غذا کو بھی کھانے میں شامل کریں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ پروٹین والی غذا لیتے ہیں انہیں بھوک کم لگتی ہے اور وہ زیادہ وزن کم کر تے ہیں۔ البتہ پروٹین کا ضرورت سے زیادہ استعمال مضر ہے۔ مچھلی اور مرغی کو مرغن نہیں ہونا چاہیے۔ ذیابیطس کے مریض جو فربا بھی ہوں، انہیں گردوں کی بیماری کا خطرہ ہوتا ہے اور پروٹین کا زیادہ استعمال اس مسئلے کو بڑھا سکتا ہے۔
میوے:میووں میں چکنائی ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ وزن کم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق میووں میں موجود چکنائی سے پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق میووں کا روزانہ استعمال کرنے والے لوگوں کا جسمانی حجم میوے نہ کھانے والوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔
کیلشیم:کیلشیم ہڈیوں کی نمو اور صحت کے لیے بہت اہم ہے۔ چکنائی کے خلیے میں جتنا زیادہ کیلشیم ہوگا اتنا چکنائی کو جلائے گا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کم چکنائی والی دودھ سے بنی اشیا اس سلسلے میں بہت مفید ہیں۔ اس کے علاوہ بروکولی او ر کینو کا رس بھی مفید ہیں۔ 
ورزش: وزن کم کرنے کی جدوجہد میں ہم ورزش شروع کرتے ہیں لیکن وزن کم ہونے پر اسے ترک کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے ورنہ وزن دوبارہ بڑھ جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

وہ شخص جس نے 1940ء میں انگلینڈ کو بچایا اور امریکہ کو جنگ کی تیاری کیلئے موقع مہیا کیا۔ کینیڈا کے گھنے جنگلات میں پیدا ہوا تھا اور اپنی زندگی کے پہلے اڑتیس برس میں اٹکسن کے نام سے مشہور تھا۔ لیکن آج دنیا اسے لارڈ بیور بروک (Lord Beaverbrook)کے نام سے جانتی ہے۔لارڈ بیوربروکنے 1940ء میں انگلینڈ کو بچانے میں کس طرح مدد کی تھی؟ جب لندن لیور پول اوردوسرے شہروں میں جرمنی کے بم پھٹ رہے تھے، وہ دن جب برطانوی سلطنت کی سلامتی مشکوک نظر آتی تھی۔ان ایام میں ونسٹن چرچل نے محسوس کیا کہ اگر جنگی طیاروں کی پیداوار دگنی نہ کی گئی تو انگلینڈ ہار جائے گا۔ تیس دن کے اندر اندر جہازوں کی پیداوار دگنی کرنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ لہٰذا چرچل نے یہ کام انجام دینے کیلئے اس ''معجزہ گر‘‘ کی خدمات حاصل کیں۔ لارڈ بیور بروک نے مئی 1940ء سے5اگست1940ء کے درمیانی عرصے میں برطانوی جہازوں کے پیداوار نو سوماہوار سے اٹھارہ سوماہوار کر دی اور اس طرح انگلینڈ کو جرمنوں کے حملے سے بچا لیا اور آئندہ ایک ہزار سال تک تاریخ کا رخ بدل دیا۔لارڈ بیور بروک نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سکول نہ گیا اور جب سکول جانے لگا تو وہ تعلیم کے بجائے لڑکوں سے لڑنے جھگڑنے میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ وہ سکول میں اس قدر ہنگامہ بپا کرتا کہ تقریباً ہر روز استاد اس کی پٹائی کرتا۔ شروع شروع میں اس نے جس کام پر ہاتھ ڈالا اس میں ناکام رہا۔ ایک بیمہ ایجنٹ کی حیثیت سے وہ ناکام رہا۔ سپلائی کی مشین فروخت کرنے میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے ایک اخبار نکالا مگر وہ بھی نہ چل سکا۔ ایک لاء سکول میں داخل ہونے کیلئے اس نے امتحان دیا تو اس میں بھی پاس نہ ہو سکا۔بیس برس کی عمر میں وہ بھوکا ننگا تھا۔ لیکن تیس برس کی عمر میں اس کے پاس لاکھوں روپے تھے۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ اسے کینیڈا میں ایک بنکر کے پاس بطور سیکرٹری ملازمت مل گئی۔ پھر اس نے اپنی محنت کی بدولت کئی بنک، لوہے کے کارخانے اور بجلی گھر قائم کر لئے۔ دس برس میں اس کے پاس اتنا روپیہ آ گیا کہ کینیڈا کا کوئی دوسرا دولت مند اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس سے بھی بڑی فتوحات پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔وہ کینیڈا چھوڑ کر انگلینڈ چلا آیا اور سیاست میں حصہ لینے لگا۔ اس نے ایک سنسنی خیز سیاسی تحریک شروع کی اور پارلیمان کا ممبر منتخب ہو گیا۔ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کیلئے اس نے لندن کا ایک اخبار ڈیلی ''ایکسپریس‘‘ خرید لیا۔ پہلے سال اسے اس اخبار میں 20پونڈ خسارہ اٹھانا پڑا۔ دوسرے سال یہ خسارہ ایک تہائی رہ گیا اور آخر میں اس سے سالانہ 20پونڈ نفع کمانے لگا۔ اس نے اخبار میں سنسنی خیز واقعات شائع کرکے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ وہ اپنے اخبار کے صحافیوں اور اس میں مضامین لکھنے والوں کو تحائف دیتا رہتا اور گھوڑے کی ریس پر اتنے اچھے اندازے شائع کرتا جو عموماً صحیح ثابت ہوتے۔ڈیلی ایکسپریس کی اشاعت700فیصد بڑھ گئی۔ یہ 3لاکھ سے 25لاکھ ہو گئی۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اخبار کی اشاعت نہیں۔ کامیابی کے نشے میں چور لارڈ بیور بروک نے ایک اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ خرید لیا اور ایک تیسرا اخبار ''سنڈے ایکسپریس‘‘ خود جاری کیا۔ برطانوی وزارت کو بنانے اور توڑنے میں اب لارڈ بیور بروک کو بہت عمل دخل تھا۔ لائیڈ جارج کو برطانیہ کا وزیراعظم بنانے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ایک چیز جس کا وہ دلی طور پر متمنی تھا اسے مل نہ سکی، وہ برطانیہ کا وزیراعظم بننا چاہتا تھا وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اسے نظر انداز کیا جائے لہٰذا اس نے اپنے آپ پر ایک انعامی تنقیدی مضمون کا اعلان کیا۔ یہ انعام اس کے ایک ملازم نے حاصل کیا۔جب وہ انگلینڈ کے ایک ذہین کارٹونسٹ ڈلوڈلو نے ایک دوسرے اخبار میں لارڈ بیور بروک پر حملہ کیا تو لارڈ بیور بروک نے اس سے کہا ''لوؔ! اگر تم میرے اخبار میں ملازم ہو کر کارٹونوں کے ذریعے میرا مذاق اڑائو تو میں تمہیں سالانہ دس ہزار پونڈ دیا کروں گا‘‘ ۔لوؔ نے یہ پیشکش قبول کر لی وہ اکثر اپنے مالک کے مضحکہ خیز کارٹون بنایا کرتا تھا۔1943ء میں لارڈ بیورک نے چرچل کی وزارت میں یکے بعد دیگرے پانچ وزارتیں سنبھالیں۔ پہلے وہ ہوائی جہازوں کی پیداوار بڑھانے کے شعبے کا وزیر تھا پھر وہ وزیر ریاست اور پھر پیداوار کا وزیر بنایا گیا۔ اس کا آخری عہدہ لارڈ پریوی سپل کا تھا۔انگلینڈ میں لارڈ بیور بروک کو اکثر'' دی بیور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنا موجودہ نام اس نے اس لئے منتخب کیا ہے کہ کینیڈا میں بچپن کے ایام میں وہ اکثر بیوربروک نامی ایک ندی سے مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ وہ ہر روز گھڑ سواری کرتا ہے اور گھڑ سواری کے دوران میں حبشیوں کے مذہبی گیت گاتا رہتاتھا۔ایک زمانے میں دو حجام بیک وقت لارڈ بیور بروک پر '' مصروف کار‘‘ رہتے تھے۔ ایک اس کی شیو بناتا اور دوسرااس کے سر کے بال تراشتا، آخر وقت بچانے کی خاطر ایک برقی بال تراش خرید لیا اور وہ اب اپنے سر کی حجامت بھی خود ہی کرتاتھا۔ایک زمانے میں اس نے ایک چھوٹا سا ریڈیو خریدا اور اسے ایک دھاگے میں پرُوکر اپنے گلے میں لٹکا لیا۔ وہ موسیقی کے دھن پر اکثر رقص کرتا رہتا۔ اس نے اپنے مکان کے ہر کمرے میں ٹیلی فون لگوا رکھے تھے۔ ان میںغسل خانے بھی شامل ہیں۔ پانی کے ٹب میں بیٹھا وہ اکثر دیر دیر تک ٹیلی فون پر باتیں کرتا رہتا ۔وہ آٹھ پونڈ میں جوتوں کا جوڑا خریدا کرتا لیکن اس کا سوٹ جوتوں سے نصف قیمت کا ہوتا تھا۔ اس کی قمیص بڑے قیمتی کپڑے کی ہوتی مگر جب کسی کف کا کوئی بٹن ٹوٹ جاتا تو وہ اس کی جگہ سیفٹی پن استعمال کرتا تھا۔لارڈ بیور بروک نے اپنے مکان کے قریب قبروں پر نصب کیا جانے والا صلیب کا ایک بڑا سا نشان لگوا رکھا تھا جو رات کے وقت بلبوں کی روشنی میں جگمگاتا رہتا۔لارڈ بیور بروک کا کہنا تھا کہ یہ نشان اسے احساس دلاتا رہتا ہے کہ وقت بھاگا جا رہا ہے اور ہمیں ہر لمحے سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ موت ہماری گھاٹ میں بیٹھی ہے۔  

چائے ،کافی مہنگی خوراک کے عالمی اخراجات پر اثرات؟

چائے ،کافی مہنگی خوراک کے عالمی اخراجات پر اثرات؟

عالمی ادارہ خوراک و زراعت (FAO)کے مطابق چائے اور کافی جیسے مشروبات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث رواں سال دنیا بھر میں خوراک پر اٹھنے والے اخراجات 2ہزار ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔FAO کی جانب سے خوراک کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ''The State of Food and Agriculture 2024‘‘ کے مطابق رواں سال کے آغاز میں کوکو کی قیمتوں میں 4 گنا اضافہ ہوا اور اس طرح کافی کی قیمتیں دوگنا ہو گئیں جبکہ چائے کی قیمتوں میںبھی 15فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔چائے اور کافی کے مقابلے میں اناج کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی جانب سے 156 ممالک میں کی گئی تحقیق کے مطابق عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ تقریباً 12 ٹریلین ڈالر ہیں۔ اس رقم کا تقریباً 70 فیصد غیر صحت مند غذائی عادات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ دل کی بیماری، فالج اور ذیابیطس جیسے خطرناک غیر متعدی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، جو کہ ماحولیاتی زوال اور سماجی عدم مساوات سے متعلق اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غذائی اخراجات میں ہونے والے نصف سے زیادہ اضافے کا سبب چائے اور کافی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے جو کہ رواں سال کے آخر تک تقریباً 23 فیصد بڑھ جائیں گی۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خوراک کی درآمد پر دو تہائی اخراجات زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں جہاں یہ اضافہ 4.4 فیصد تک ہو گا جبکہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں خوراک پر درآمدی اخراجات میں کمی آئے گی۔کم آمدنی والے ممالک کو اناج اور تیل کے بیجوں کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ پہنچے گا تاہم وہاں گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع ہے۔FAO نے اس رپورٹ میں متعدد ممالک میں بہتری کے حوالے سے خوراک کی برآمدات کے اہم کردار کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مثال کے طور پر برونڈی اور ایتھوپیا کی غذائی برآمدات میں کافی کا حصہ تقریباً 40 فیصد رہا جبکہ آئیوری کوسٹ میں کوکو کی برآمدات کا مالی حجم اس کی تمام غذائی درآمد سے زیادہ تھا۔ اسی طرح سری لنکا نے چائے کی برآمد سے اپنی تمام غذائی برآمدات کے نصف سے زیادہ آمدنی حاصل کی ہے۔رپورٹ کے مطابق گندم اور دیگر اقسام کے اناج کی پیداوار میں کمی کی توقع ہے جبکہ 25-2024ء کے سیزن میں چاول کی ریکارڈ پیداوار کے باعث اس کے استعمال ‘ ذخیرہ کرنے اور اس کی بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہو سکتاہے۔گوشت اور دودھ کی مصنوعات میں قدرے اضافہ متوقع ہے جبکہ مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔سبزیوں کے تیل کا استعمال متواتر دوسرے برس اس کی پیداوار سے تجاوز کر سکتا ہے۔ جس کے باعث اس کے ذخائر میں کمی آئے گی۔ شدید موسمی واقعات، ارضی سیاسی تناؤ اور پالیسی میں آنے والی تبدیلیاں پیداوار کے نظام کو غیرمستحکم کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں عالمگیر غذائی تحفظ میں مزید کمی آ سکتی ہے۔رپورٹ میں موسمیاتی عوامل کے باعث زیتون کے تیل کی پیداوار میں کمی اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔بلند درجہ حرارت کے باعث زیتون کے درخت پانی کو پھل پیدا کرنے کے بجائے اپنے دیگر افعال کیلئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ فصل پیدا ہوتی ہے وہاں گرم حالات کے باعث دو برس سے پیداوار میں نصف حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سپین میں زیتون کی آئندہ پیداوار گزشتہ دس سال کی اوسط سے بڑھ جانے کا امکان ہے تاہم بلند قیمتوں کے باعث اس کے استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق2022ء کے بعد کھادوں کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کمی آئی، جس کا بڑا سبب قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی ہے۔FAO کے مطابق سپلائی سے متعلق خدشات کی بنا پر لاطینی امریکہ اور ایشیا میں فاسفیٹ کھادوں کی قیمتیں برقرار ہیں۔ رپورٹ میں کم کاربن والی امونیا کھادوں کے حوالے سے اہم متبادل قرار دیا گیا ہے جو نائٹروجن والی کھادوں کا اہم جزو ہوتا ہے۔٭...عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ 12 ٹریلین ڈالرہے اور اس کا 70فیصد غیر صحت مند خوراک پر خرچ ہوتا ہے ۔٭...کافی کی قیمتیں دو گنا بڑھ گئیں، چائے کی قیمتوں میںبھی 15 فیصد اضافہ ٭... گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع۔٭... چاول کے استعمال میں 1.5 فیصد تک اضافہ۔٭...مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

''اپالو12‘‘کی چاند پر لینڈنگ19نومبر1969ء کو امریکہ کے دو خلاء بازچارلس پیٹ اور ایلن بین چاند کی سطح پر اترے۔ یہ امریکہ کی جانب سے چاند پر اترنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ دونوں خلاء بازوں نے چاند کے ایک مخصوص علاقے ''اوشن آف سٹورمز‘‘(Ocean of Storms) میں تحقیق کرناتھی۔ چارلس پیٹ اور ایلن بین چاند پر چہل قدمی کرنے والے تیسرے اور چوتھے خلاء باز ہیں۔جاپان اور لیگ آف نیشنز1931ء میں آج کے روزامریکہ اور دیگر ممالک جس میں لیگ آف نیشنز بھی شامل تھی نے جاپان کے خلاف چین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اور اتحاد اس لئے کیا گیا تاکہ چائنہ کی مدد سے جاپان کو منچوریا سے نکالا جا سکے۔ جاپان کے زیر انتظام منچوریا پر حملہ کرنے کا منصوبہ اس لئے بنایا گیا کیونکہ جاپان نے معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی افواج کو ممنوعہ علاقوں میں داخل کر دیا تھا۔ کولمبس نے پورٹوریکو دریافت کیا1493ء میںکرسٹوفر کولمبس نے اپنی دوسری سمندری مہم کے دوران پورٹوریکو دریافت کیا، جس کا پرانا نام ''سان جوان بائوٹیسٹا ‘‘ تھا۔ یہ جزیرہ امریکہ کے زیر تسلط تھا۔ کانگریس نے 1952 ء میں ایک مقامی آئین کی منظوری دی، جس میں جزیرے پر رہنے والے شہریوں کو گورنر کا انتخاب کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہاں کی آبادی 32لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ بل کلنٹن کے مواخذے کا آغازمونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی سکینڈل پر 1998 ء میں آج کے روز سابق امریکی صدر بل کلنٹن کیخلاف ایوان نمائندگان کی عدلیہ کمیٹی نے مواخذے کی سماعت شروع کی۔بل کلنٹن امریکہ کے 42ویں صدر کی حیثیت سے 1993ء سے 2001ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ دوسرے دورے صدارت میں کلنٹن لیونسکی اسکینڈل کا غلبہ رہا جو 1995ء میں شروع ہواتھا۔بعدازاں انہیں اس الزام سے بری کر دیا گیا۔انور سادات کا دورہ اسرائیل19نومبر1977ء کو مصر کے سابق صدر انور سادات نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ اسرائیل میں قدم رکھنے والے عرب دنیا کے پہلے لیڈر تھے،اسرائیل کی جانب سے انور سادات کا تاریخی استقبال کیا گیا۔عرب اور دیگر اسلامی ممالک نے انور سادات کے دورہ اسرائیل کی شدید مذمت کی اور اسے عالم اسلام کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔امریکی سڑکوں پر خودکار ٹول مشینامریکہ میں ہائی ویز پر پہلی مرتبہ خود کار ٹول مشین19نومبر1954ء کو نصب کی گئی۔ اس سے قبل ٹول پلازوں پر ملازمین ٹول اکٹھا کرتے تھے جس کی وجہ سے گاڑیوں کو انتظار کرنا پڑتا تھا اور سڑک پر ٹریفک کا بہاؤ سست ہونے کی وجہ سے لوگوں کو متعدد مشکلات کا سامنا تھا ۔تجرباتی طور پر یہ خود کار ٹول مشین نصب کی گئی تھی ۔   

Next-Gen Al Innovations

Next-Gen Al Innovations

بائیونک ہاتھ اور الیکٹرانک جلدبائیونک ہاتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو انسانی ہاتھ کی حرکات اور صلاحیتوں کی نقل کیلئے بنائے گئے ہیں۔ یہ بڑی مہارت کے ساتھ اشیاء کو پکڑنے، سنبھالنے اور قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسان اپنے ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔ دریں اثناء اعلیٰ کارکردگی والی لچکدار الیکٹرانک مصنوعی جلد جو اصل جلد کی طرح لچکدرا ہے ، یہ پھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔یہ چھونے، دباؤ، درجہ حرارت اور دیگر خارجی محرکات کو محسوس کر کے انہیں برقی سگنلز میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی روبوٹکس مصنوعات میں استعمال ہو تو یہ روبوٹ کو زیادہ حساس اور حقیقی جیسا بنا سکتی ہے۔یونٹری جی 1''26واں چائنہ ہائی ٹیک فیئر ‘‘ایک ہفتہ تک چائنہ کے شہر شنگھائی میں جاری رہا، جس میں 4300 سے زائد نئی ٹیکنالوجیز اور مصنوعات پیش کی گئیں۔روبوٹک ٹیکنالوجیز کے علاوہ، میلے نے چین میں تعلیم، سائنسی تحقیق، اور صنعت کے درمیان گہرے انضمام کو بھی نمایاں کیا گیا۔چائنہ کی معروف کمپنی ہانگژو یوشو ٹیکنالوجی نے اپنے روبوٹک کتے ''یونٹری گو 2‘‘ کے ساتھ اپنا ہیومینائیڈ روبوٹ ''یونٹری جی 1‘‘ بھی پیش کیا ہے۔ ''یونٹری جی 1‘‘ کی قیمت 99ہزار یوآن (تقریباً13,699 ڈالر) سے شروع ہوتی ہے۔ یہ 3ڈی لائیڈار سسٹم سے لیس ہے جو 360 ڈگری ماحولیاتی آگاہی فراہم کرتا ہے اور اپنی شاندار استحکام کے ساتھ، پیچھے سے دھکا دینے پر بھی سیدھے کھڑے رہنے اور نارمل چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شنگھائی: خواتین ٹیکنالوجی فیئر میں رکھے گئے سرجری روبوٹ کی آزمائش کر رہی ہیں جو ہر قسم کے آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بائیں جانب روبوٹ شرکاء سے مصافحہ کر رہا ہے۔ای ویٹول''الیکٹرک ورٹیکل ٹیک آف اور لینڈنگ‘‘ (eVTOL) ہوائی جہاز ہوا بازی کی ٹیکنالوجی میں ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ یہ شہری نقل و حمل میں انقلاب لانے، ٹریفک کے رش کو کم کرنے اور روایتی ہوائی جہازوں کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔یہ جدید ہوائی جہاز اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ الیکٹرک پروپلشن کی کارکردگی کو عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیتوں کی ہم آہنگی کے ساتھ یکجا کرتے ہیں، جس سے انہیں شہری ماحول میں کام کرنے کی صلاحیت ملتی ہے جہاں جگہ محدود ہوتی ہے اور روایتی رن وے عملی نہیں ہوتے۔Exoskeleton Humanoidایکسو سکیلٹن روبوٹکس کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کی علامت ہے۔ بالخصوص انسانوں کی جسمانی قوت بڑھانے، توانائی کی بچت اور صنعتی یا طبی مقاصد کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔صفائی کرنے والا روبوٹروبوٹکس ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفت نے صفائی کے روبوٹس کو زیادہ ذہین اور ورسٹائل بنا دیا ہے۔ اب یہ نہ صرف مختلف سطحوں کو صاف کر سکتے ہیں بلکہ پیچیدہ صفائی کے کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔بیرونی دیواروں کی صفائی کرنے والا روبوٹ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ایک خودکار مشین ہے۔ جو عمارتوں کے بیرونی حصے، جیسے شیشے کے پینلز، دھات یا دیگر سطحوں کو صاف کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ خاص طور پر بلند و بالا عمارتوں کی صفائی کیلئے کارآمد ہے، جہاں انسانی رسائی مشکل اور خطرناک ہو سکتی ہے۔جدید سینسرز اور AI ٹیکنالوجی سے لیس یہ روبوٹ خودکار طور پر سطح کی صفائی کرتا ہے اور رکاوٹوں کو پہچان کر ان سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

دولے شاہ کے چوہے!

دولے شاہ کے چوہے!

آج کل کی نسل تو شاید ''دولے شاہ کے چوہوں‘‘ کے نام سے بھی لا علم ہو گی لیکن دو اڑھائی عشرے قبل تک پاکستان کے بیشتر شہروں میں مخصوص وضع قطع کے سروں والے، سبز رنگ کا لمبا سا چولا پہنے، گلے میں رنگ برنگے منکوں (موتیوں ) کا بڑا سا ہار لٹکائے ، طرح طرح کے نعرے لگاتے ہاتھ میں کشکول تھامے ، بھیک مانگتے یہ معصوم اور قابل رحم بچے اکثر نظر آجایا کرتے تھے۔ان بچوں کی اکثریت چند مخصوص الفاظ سے بڑھ کر بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوا کرتی تھی۔حیران کن حد تک ان مظلوموں کے چہروں پر کبھی ناگواری یا اکتاہٹ کی جھلک تک نظر نہ آتی تھی۔ شاید یہ سب ان کی ''تربیت‘‘ کا شاخسانہ ہو۔ اس معصوم اور مظلوم مخلوق کو ہی ''دولے شاہ کے چوہے‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کو دیکھ کر اکثر ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ ایک جیسی ہئیت اور وضع قطع کے لوگ کون ہیں ، کہاں سے آتے ہیں، ان کی وضع قطع مخصوص کیوں ہے، سب بڑھ کر یہ سوال کہ انہیں دولے شاہ کے ''چوہے‘‘ کا غیر مہذب لقب کس نے اور کیوں دیا ؟۔بدقسمتی سے پاکستان یا برصغیر کے محققین یا مورخین نے اس معصوم مخلوق بارے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی تحقیق کی ہے۔ ان بارے زیادہ تر معلومات کا دارومدار قدیم روایات تک ہی محدود ہے ۔ اس سے پہلے کہ اس مخلوق کی زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں پہلے ان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔دولے شاہ کے چوہے کون ہیں؟ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب 16ویں صدی کے آخری عشروں میں سید کبیر الدین دولے شاہ نامی ایک بزرگ آن بسے جن کی نسبت سہروردی سلسلے سے بتائی جاتی ہے ۔یہ مغل بادشاہ اکبر کا دور تھا۔ان کے یہاں منتقل ہونے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی من مرادوں کیلئے ان کے پاس آکر دعا کراتے جن میں کثیر تعداد دوردراز سے آئی بانجھ عورتوں کی ہوتی ۔ روایات میں آیا ہے کہ بیشتر بانجھ عورتوں کی دعائیں قبول ہوئیں،جس کے پیش نظر بیشتر والدین اپنا پہلا بچہ دولے شاہ کے نام وقف کر کے آستانے پر چھوڑ جاتے تھے۔کچھ حکایات یہ بھی ہیں کہ اگر کوئی والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کیلئے وقف کرنے سے گریز کرتے تو ان کی باقی اولاد چھوٹے سروں والی ہی پیدا ہوتی تھی۔کچھ روایات تو یہ بھی ہیں کہ جو والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کے حوالے نہیں کرتے تھے، بڑے ہوتے ہی ان کے بچے خود بخود اس آستانے جا پہنچتے تھے۔کچھ عرصہ بعد دولے شاہ کا انتقال ہوا تو عقیدت مندوں نے اس آستانے کو ایک مزار میں بدل دیااور عقیدت مندوں اور دعا کے طالبوں کی آمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ ان کے مخصوص چھوٹے سروں کی ساخت کے بارے میں طرح طرح کی زیرگردش کہانیاں کئی سالوں سے سننے کو ملتی رہی ہیں۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہاں لائے گئے بچوں کو سب سے پہلے مخصوص شکل میں ڈھالنے کیلئے ان کے سروں پر لوہے کے کنٹوپ چڑھا دئیے جاتے ہیں ، جس کے باعث ان کے سر معمول سے چھوٹے رہ جاتے ہیں، پھر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ یہ غیر اخلاقی نام کیسے شہرت پا گیا ؟ تاریخی حوالوں سے پتہ چلا ہے کہ 1839ء میں پشاور کے کرنل کلاڈ مارٹن کے مشن سیکرٹری شہامت علی، شاہ دولہ کے مزار دورے پر آئے ، کہتے ہیں یہ اس منفرد مخلوق کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا '' یہ تو دولے شاہ کے چوہے ہیں‘‘۔ روایتوں میں ہے اس کے بعد اس معصوم اور بے ضرر مخلوق کی شناخت اسی نام سے کی جانے لگی۔ محققین اور مورخین کیاکہتے ہیںڈاکٹر جانسٹن وہ پہلے سائنسدان تھے جو 1866ء میں یہاں آئے۔ان کی ملاقات مزار میں موجود نو بچوں سے ہوئی۔جانسٹن کا دعویٰ تھا کہ ان بچوں کے سروں کو مکینیکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے ۔1879ء میں ایک برطانوی محقق اور مصنف ، ہیری ریوٹ نے یہاں کا دورہ کیا ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق ان بچوں کے سروں کو مٹی کی ہنڈیا یا دھات کے کسی برتن کو سر پر چڑھا کر چھوٹا کر کے '' چوہوں‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ کیپٹن ایونز بھی ایک محقق گزرے ہیں، نے 1902ء میں ان بچوں بارے بہت تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کی یہاں مجھے 600 کے لگ بھگ بچے نظر آئے جن میں بیشتر چھوٹے سروں والے تھے۔ میں اس سوچ کو یکسر مسترد کرتا ہوں کہ ان کے سروں کو مصنوعی طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے۔میری تحقیق کے مطابق یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے برطانیہ میں بھی ایسے ہی بچے دیکھے ہیں۔ آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ 1902ء میں ان بچوں کو یومیہ کرائے پر دینے کی روائت عام تھی جن سے بھیک منگوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ کیپٹن ایونز کے بقول دولے شاہ کا مزار اس مہلک اور عجیب و غریب بیماری سے متاثرہ بچوں کی ایک سماجی پناہ گاہ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ 1969ء میں پاکستان کے محکمہ اوقاف نے اس مزار کو اپنی تحویل میں لے کر بچوں کے سر چھوٹے کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ دھندہ آج بھی جاری ہے۔ جدید تحقیق کیا کہتی ہے ان بچوں بارے جدید تحقیق، قدیم روایات اور افواہوں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔اس بارے سب سے پہلے 1884ء میں '' برٹش میڈیکل جرنل‘‘ اور ''انڈین میڈیکل گزٹ‘‘ میں شائع ایک تحقیق کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق اس قسم کے بچوں کی ہئیت کو ایک بیماری قرار دیا گیا تھا۔ 1928ء میں ہندوستان کے شعبہ صحت نے 1868ء ے لے کر 1903ء تک کی میڈیکل رپورٹوں کا جائزہ لیا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ ''مائیکرو سیفلی‘‘ نامی ایک بیماری ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ماہرین نے بھی مائیکرو سیفلی کی تصدیق کی ہے جس میں بچوں کا سر اس کی عمر کے تناسب سے چھوٹا ہوتا ہے۔   

سوشل میڈیا کتنا مفید،کتنا نقصان دہ!

سوشل میڈیا کتنا مفید،کتنا نقصان دہ!

سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ کوئی بھی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ البتہ کسی بھی شے کا فائدہ اٹھانے کیلئے انسان کا باشعور اور پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔سوشل میڈیا کے فوائدسوشل میڈیا تربیت گاہ: یوں تو بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اور سوشل میڈیا کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اسے تربیت گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ اس بارے میں کسی کا قول تھا کہ کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا۔ اس بات سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ موبائل فون کے مختلف ایپس کے ذریعے بچوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ کمائی کا بہترین ذریعہ: اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔معلومات کا اشتراک: سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپ ڈیٹس فراہم کرتا ہے۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم: نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے، یہاں سے آپ اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔سوشل میڈیا کے نقصاناتخودنمائی: جب سے اسمارٹ فون میں فرنٹ کیمرہ کا آپشن آیا ہے سیلفی لینے کا رجحان ایک مرض کی طرح نوجوانوں میں پھیل گیا ہے۔ موقع بہ موقع تصویریں لی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ سیلفی لینے کے دوران بہت سے نوجوان خطرات سے دوچار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کے ذریعے ہر اہم جگہ پر اپنی موجودگی کو ظاہر کرنا بھی بہت مقبول ہے۔ آپ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہیں تو فوراً اپنے دوستوں کو یہ بتانا ضروری ہے۔ آپ بیرون ملک سفر کیلئے روانہ ہورہے ہیں تو اس کی اطلاع سب کو ہونی چاہئے۔ ان تمام کا مقصد اپنی ذات کو نمایاں کرنا اور دوسروں کے ذہنوں میں اپنی شخصیت کا خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرے میں غیر محسوس انداز میں مسابقت کی غیر صحتمند دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ جس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔مطالعے سے دوری: اس ڈیجیٹل دور میں ہمیں جتنی آسانیاں فراہم ہو رہی ہیں ہم اتنے ہی کاہل، سست اور ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے مواد کو آسانی کے ساتھ ڈھونڈ کر اسی پر منحصر ہو جاتے ہیں اور اس سے آگے نہیں سوچتے جس سے ہماری صلاحیتیں محدود ہوتی جارہی ہیں۔ اتنی آسانیاں فراہم ہونے کے باوجود بھی اب ہمارا دھیان مطالعے کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے۔ معلومات میں اضافہ کرنے والی کتابوں کو سرچ کرنے کے بجائے ہمارا زیادہ تر وقت وٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک کی نذر ہو رہا ہے۔ بچے اردو کے رسالے اور کہانیاں پڑھنے سے زیادہ موبائل فون پرکہانیاں دیکھنے میںبچوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔جھوٹ کا بازار: سوشل میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات کا ایک سمندر تخلیق کر دیا ہے جو کہ کسی حکومتی کنٹرول سے ماورا ہونے کے سبب نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔وقت کا ضیاع: سوشل میڈیا نے ہماری نوجوانوں نسل کو اپنے سحر میں ایسا گرفتار کیا ہے کہ ہر وقت اسمارٹ فون کے ذریعے وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور انسان ضروری کاموں کی انجام دہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ نوجوانوں کی زندگی اسی طرح گزر رہی ہے۔سوشل میڈیا اور برقی آلات کا استعمال جتنا مفید اور وقت کو بچانے والا ہے اس سے کہیں زیادہ وقت کو ضائع کرنے والا اور نہایت ہی مضر ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا کا ضرورت کے مطابق ہی استعمال کریں اور اس کے غلط استعمال سے بھی بچیں ورنہ یہ آپ کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی بھی برباد کرسکتا ہے۔ غرض اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وقت کا ضیاع ہمارا مقصد نہیں ہے، اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں اور خود احتسابی کا جذبہ پیدا کریں کہ 24 گھنٹے میں میرا کتنا وقت یوں ہی ضائع ہو رہا ہے اور کوشش کریں کہ اپنوں کے درمیان وقت گزاریں، تنہا نہ رہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ ان تمام اقدامات سے معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے۔