انقلابی شاعری اور اسرارالحق مجاز فیض احمد فیض کی ایک نایاب تحریر
اسپیشل فیچر
اسرا الحق مجاز کے مجموعے ''آہنگ ‘‘کا پہلا ایڈیشن اس شعر سے شروع ہوتا ہے،
دیکھ شمشیر ہے یہ،ساز ہے یہ، جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ
مجاز کی شاعری انہی تینوں اجزاء سے مرکب ہے۔غالباََ اسی وجہ سے ان کا کلام زیادہ مقبول بھی ہے، ہمارے پیشتر شعراء نے ان عناصر میں ایک فرضی تضاد کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔کوئی محض ساز و جام کا دلدادہ ہے، کوئی فقط شعر کا دھنی۔لیکن کامیاب شعر کے لئے (آج کل کے زمانے میں) شمشیر کی صلابت اور ساز وجام کا گداز دونوں ہی ضروری ہیں۔مجاز کے اشعار میں یہ امتیازموجود ہے۔اس امتزاج میں ابھی ایک شمشیر کم ہے۔اور ایک ساز و جام زیادہ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شمشیر کے لئے ایک خاص قسم کے دماغی زہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مجاز کی طبیعت میں زہد کم ہے۔لذتیت زیادہ۔ شمشیر زنی کو میں انقلابی شاعری کے معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔دماغی زہد سے میری مراد ایک مخصوص انقلابی مقصد کے نشر و اظہارمیں کلی ذہنی اور جذباتی یکسوئی ، تمام غیر متعلق جذباتی ترغیبات سے پرہیز، یہ کٹھن اور محنت طلب عمل ہے۔مجاز ہم سب کی طرح لا ابالی، اور سہل نگار انسان ہیں ۔ چنانچہ جب بھی انہیں ذوق پنہاں کی کامرانی کا موقع ملے ،باز نہیں رہ سکتے۔
مجاز کے شعر کا ارتقاء بھی ہمارے پیشتر شعراء سے مختلف ہے۔ عام طور سے ہمارے ہاں شعر یا شاعری کا ارتقائی عمل یہ صورت اختیار کرتا ہے کہ ''ساز و جام۔سازو جام ۔ساز و جام، شمشیر‘‘۔اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رجعت نہیں ترقی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کے مضمون اور تجربہ میں مطابقت اورموانست زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے۔شاعر ی طبیعت خارجی اور انقلابی مضامین کے اینٹ پتھر کو تراشنے اور جوڑ جمانے میں لذت محسوس کرنے لگی ہے۔مجاز بنیادی طور پر اور طبعاََ غنائی شاعر ہیں۔ اس کے کلام میں خطیب کے نطق کی کڑک نہیں، باغی کے دل کی آگ نہیں، نغمہ سنج کے گلے کا وفور ہے۔ یہی وفور مجاز کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اورا س کے کامیابی کا سب سے امین۔بیچ کے ایک مختصر دور کے علاوہ مجاز ہمیشہ سے گاتا رہا ہے۔ اس کے نغموں کی نوعیت بدلتی رہی۔لیکن اس کے آہنگ مں فرق نہ آیا۔ کبھی اس نے آغاز بلوغت کی بھرپور بے فکرانہ خوب نما محبت کے گیت گائے۔
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زور شباب اور زیادہ
نور ہی نور ہے کس سمت اٹھائوں آنکھیں
حسن ہی حسن ہے تاحد نظر آج
وہ تبسم ہی تنبسم کا جمال پیہم
وہ محبت ہی محبت کی نظرآج کی رات
کبھی اس خواب کی شکست پر آنسو بہائے
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا،اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدہ گریاں بھول گئے
اے شوق نظارہ کیا کہئے ،نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیاکیجئے ، ہم صورت جاناں بھول گئے
کبھی اس خاص تخریبی اور مجبور پیچ و تاب کا اظہار کیا۔ جو وہ موجودہ حال کے متعلق ہر نوجوان کا اضطراری اور پہلا جذباتی رد عمل ہوتا ہے۔
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں ، اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا،سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
بڑھ کے اس کے اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں،اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت سلطاں کیا، میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
کبھی اس تعمیری انقلاب کے اسباب و آثار کا تجزیہ کیا،جس کے نقوش صرف غور و فکر کے بعد دکھائی دیتے ہیں۔
ایک نہ اک در پرجبیں شوق گھستی ہی رہی
آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی
ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
کچھ نہیں تو کم سے کم خواب سحر دیکھا تو ہے
جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے
یہ کافی متنوع مرکب ہے۔لیکن اس میں کہیں بھی مجاز کا ترنم بے آہنگ نہیں ہوا۔ اس کی دھن پھیکی یا اس کے سر بے سر نہیں ہوئے۔مجاز کے کلام میں پرانے شعراء کی سہولت اظہار ہے لیکن ان کی جذباتی سطحیت اورمحدود خیالی نہیں ۔نئے شعراء کی نزاکت احسا س ہے ، ان کی لفظی کھینچا تانی اور توڑ مروڑ نہیں۔ غنائیت مجاز کو دوسرے انقلابی اور غنائی شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔ مجاز کی غنائیت زیادہ وسیع ، زیادہ گہرے زیادہ، زیادہ مستقل مسائل سے متصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ابھی تک ارتقاء کی گنجائش کا امکان ہے۔اس کے شباب میں بڑھاپے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ عام نوجوان شعراء کی غنائیت زندگی سے بیزار اور موت سے وابستہ ہے۔ انہیں زندگی کی لذتوں کی آرزو نہیں۔ موت کے سکون کی ہوس ہے۔مجاز گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بیزار ہے۔
مجھے پینے پینے دے تیرے جام لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے باقی کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی
یہی وجہ ہے کہ مجاز کے شعر میں تھکن نہیں مستی ہے، اداسی نہیں سرخوشی ہے۔مجاز کی انقلابیت عام شاعروں سے مختلف ہے۔عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں،للکارتے ہیں،سینہ کوٹتے ہیں،انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ان کے ذہن میں آمد انقلاب کا تصور طوفان برق و رعد سے مرکب ہے۔ نغمہ ہزار اور رنگینی بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہچانتے۔ یہ انقلاب کا ترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گذر چکا ہے۔لیکن اب مجاز کی غنائیت اسے اپنا چکی ہے۔
ترے ماتھے پہ آنچل بہت ہی خوب لیکن
تو اس آنچل سے اپنا پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تقدیر کچھ بھی ہو ،کاوش تقدیر بھی تو ہے
تخریب کے لباس میں تعمیر بھی تو ہے
ظلمات کے حجاب میں تنویر بھی تو ہے
آ منتظر ہے عشرت فردا،آ ادھر بھی آ
برق و رعد والوں میں یہ خلوص اور تیقین تو ہے۔یہ لوچ اور نغمہ نہیں ہے۔ ان میں انقلاب کی قاہری ہے ، دلبری نہیں ہے۔میں سمجھتاہوں کہ مجاز کی ''خواب سحر‘‘ اور ''نوجوان خاتون سے خطاب‘‘ اس دور کی سب سے مکمل اور سب سے کامیاب ترقی پسند نظموں میں سے ہیں۔مجاز انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں ، انقلاب کا مطرب ہے۔اس کے نغمہ میں برسات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے۔ اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تاثیر آفرینی۔
حسن کو بے حجاب ہونا تھا
شوق کو کامیاب ہونا تھا
ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ
خون دل شراب ہونا تھا
تیرے جلووں میں گھر گیاآخر
ذرے کو آفتاب ہونا تھا
کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی
کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا
رات تاروں کا ٹوٹنا بھی مجاز
باعث اضطراب ہونا تھا
۔۔۔
حسن پھر فتنہ گر ہے کیا کہئے
دل کی جانب نظر ہے کیا کہئے
پھر وہی رہگذر ہے کیا کہئے
زندگی راہ پر ہے کیا کہئے
حسن خود پردہ در ہے کیا کہئے
یہ ہماری نظر ہے کیا کہئے
آہ تو بے اثر تھی برسوں سے
نغمہ بھی بے اثر ہے کیا کہئے
حسن ہے اب نہ حسن کے جلوے
اب نظر ہی نظر ہے کیا کہئے
آج بھی مجاز خاک ہستی
اور نظر عرش پر ہے کیا کہئے