امریکی صدور: کون کتنا ذہین؟ 30 امریکی صدرو کے آئی کیو کا جائزہ

امریکی صدور: کون کتنا ذہین؟ 30 امریکی صدرو کے آئی کیو کا جائزہ

اسپیشل فیچر

تحریر : صہیب مرغوب


امریکہ میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں، ایک دوسرے پر ٹیکسوں کی چوری سمیت متعدد سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پر انسانی کی پامالی کا الزام بھی لگا اور نسل پرستی کا بھی۔ جبکہ صدر ٹرمپ نے مخالف صدارتی امیدوارجو بائیڈن کو بے وقوف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''جو بائیڈن کا آئی کیو لیول ہی بہت نیچے ہے ،اگر وہ امریکہ کے صدر بن گئے تو میں امریکہ سے ہی چلا جائوں گا‘‘ ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنا آئی کیو 156بتایا جاتا ہے ، کچھ رپورٹوں کے مطابق ان کا آئی کیو 145 ہے۔
جب امریکہ میں یہ بحث چل ہی پڑی ہے کہ کون ذہین ہے اور کون بے وقوف، تو کیوں نہ ہم بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے یہ دیکھ لیں کہ امریکہ میں حکومت کرنے والے صدور کتنے ذہین تھے ۔بے وقوف اور ذہین صدور کا پتہ چلانے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ان کے آئی کیو کو تلاش کرنا پڑا۔ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ 30کے قریب سابق صدور کا آئی کیو موجود ہے ،اسی لئے ہم نے 30 سابق صدور کا جائزہ لینا ہی بہتر جانا۔
امریکہ بہت ذہین لوگوں کا ملک نہیں ہے!
آئی کیوکے مطابق امریکہ بہت زیادہ ذہین لوگوں کا ملک نہیں ہے اس سے زیادہ ذہین ممالک موجود ہیں۔ قوم کے مجموعی آئی کیو کے اعتبارسے ہانگ کانگ اور سنگاپور سب سے آگے ہیں جن کا مجموعی آئی کیو 108 ہے۔ تائیوان اور سائوتھ کوریامیں قوم کا مجموعی آئی کیو 106 ہے۔ جاپانی قوم کا آئی کیو 105، چینی قوم کا 104، اور سوئٹزر لینڈ اور نیدر لینڈز کا آئی کیو 102 ہے۔ آئس لینڈ ، فن لینڈاور کینیڈا کاآئی کیو 101 ہے۔ بیلجئم، جرمنی، برطانیہ، آسٹریااور نیوزی لینڈ کا 100، ناروے، سویڈن، لکشم برگ، ڈنمارک،چیک اور آسٹریلیا کا آئی کیو 99ہے۔ فرانس ،امریکہ اور ہنگری کا آئی کیو 98ہے۔ اٹلی ، لٹویا، سپین اور پولینڈ کا آئی کیو 97، روس کا 96، کروشیاء ، پرتگال اور یوکرائن کا 95 ، آئس لینڈ اورویتنام کا 94، بیلا روس، ملیشیاء اور لیتھونیا کا 93، جارجیا اور نارتھ مقدونیہ کا 91، ارجنٹائن اور رومانیہ کا 90،ترکی ،تھائی لینڈ ،سربیا اور چلی کا 89 ، کمبوڈیا، میکسیکو کا 88، فلپائن اور بولیویا کا 85 ، کیوبا، البانیہ اور انڈونیشیاء کا 84، مصر، میانمار ، امارات اور برازیل کا آئی کیو 83 ہے۔ پاکستان الجیریا، شام، مراکش اور بوسنیا کا آئی کیو 82 اور انڈیا اور سعودی عرب کا آئی کیو 81ہے۔اس حوالے سے صومالیہ اور سوڈان سب سے نیچے ہیں۔
آئی کیو کتنا ہونا چاہئے ؟
آ ئی کیو 140ہو تو اسے ذہین ماناجاتا ہے۔اس سے نیچے والے افراد کسی بھی ملک کے صدر تو بن سکتے ہیں لیکن قوم کو بہتر راستہ نہیں دکھا سکتے۔ جبکہ 115 کے حامل افراد کو ایوریج سمجھا جاتا ہے۔
سابق امریکی صدور کا آئی کیو 
اکثر سابق امریکی صدور کا آئی کیو زیادہ نہیں تھا۔ کم آئی کیو والے صدور کی ریکٹنگ بھی کم رہی ہے ۔سابق امریکی صدر اولسس ایس گرانٹ کا آئی کیو 120 تھا ، یعنی وہ اوسط درجے سے کچھ ہی اوپر تھے۔ غلامی کے خاتمے میں وہ ابراہام لنکن کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے لیکن ابراہام لنکن کے جانشین اینڈریو جانسن کے ساتھ ان کی نہ بن سکی۔ اینڈریو غلامی جاری رکھنے کے حق میں تھے جبکہ اولسس گرانٹ ابراہام لنکن کی طرح غلامی کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ1868ء میں صدر بنے۔ انہیں جنگی ہیرو مانا جاتا ہے۔
ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر بننے والے اینڈریو جانسن کاآئی کیو 125 تھا، کچھ مورخین انہیں تاریخ کا بدترین صدر قرار دیتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے غلامی کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں بھی کی تھیں ۔ ایوان زیریں نے مواخذے کی قرارداد منظور کی لیکن وہ سینٹ میں صرف ایک ووٹ سے بچ نکلے ۔سابق سوویٹ یونین سے الاسکا کی خریداری ان ہی کا کارنامہ ہے۔ ایک اور کم آئی کیو والے سابق صدر ولیم ہاورڈ ٹیفٹ (12 6)بھی تھے۔وہ1908ء میں صدر منتخب ہوئے تھے بعد ازاں انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ بھی سنبھال لیا تھا۔ان دو عہدوں پر فائز رہنے والے وہ واحد صدر تھے۔ 30ویں صدر کیلون کولیج (127)نے بطور گورنر میسا چوسسٹس بوسٹن میں پولیس کی ہڑتال ناکام بناکر شہرت حاصل کر لی تھی۔لیکن ان کا پورا دور سیکنڈلز کی زد میں رہا۔33 ویں امریکی صدر ہیری ٹرومین کا آئی یو 128 تھا۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے ان کی پہچان ہیں۔وہ کورین وار میں بھی اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔مغربی یورپ کی تعمیر نو کے لئے 12ارب ڈالر کامارشل پلان جاری کرنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
12ویں صد ر ایکرے ٹیلرکا آئی کیو 129 تھا،پیٹ کی مرض نے انہیں اقتدار کا دورانیہ پورا کرنے کی مہلت نہ دی اوروہ16مہینے حکومت کرنے کے بعد جولائی 1850ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔جیمز بکانن129 آئی کیو کے ساتھ امریکہ کے کمزور صدور میں شامل ہیں۔ ان کا عرصہ اقتدار 1857ء سے 1861ء تک ہے۔وہ امریکہ کے واحد غیر شادی شدہ صدر ہیں۔ان کے اقدامات کی وجہ سے ہی امریکہ میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی تھی۔
امریکہ کے 40ویں صد رونالڈ ریگن کا آئی کیو 130 ہے۔انہوں نے ''وار آن ڈرگس‘‘ سے بھی شہرت پائی ۔ 130آئی کیو کے حامل ولیم میکنلے 25 ویں صدر تھے خانہ جنگی انہیں ورثے میں ملی۔''امریکہ۔ سپین جنگ‘‘ کے دوران بھی انہوں نے ہی اپنے ملک کی قیادت کی۔رچرڈ نکسن 132 آئی کیو کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ویتنام میں قیام امن ان کا ہی کارنامہ ہے۔1972 ء میں وہ بھاری اکثریت سے منتخب ہو گئے لیکن واٹر گیٹ سکنڈل ان کی ''یاد گار‘‘ ہے جس میں ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا، 9 اگست 1974ء کوانہیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔
سابق صدر ڈی آئزن ہاورکا آئی کیو 132تھا۔ان کا شمار چین مخالف صدور میں کیا جاتا ہے، اسی لئے ان کے دور میں امریکہ پاکستان تعلقات نچلی ترین سطح پر آ گئے تھے۔ انہوں نے 1953ء میں چین پر حملہ کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ انہوں نے 1955 ء میں تائیوان کا دفاع کرنے سے متعلق بل بھی منظور کر لیا تھا۔ جارج ڈبلیو بش ( 139) 43ویں صدر تھے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کی شناخت ہے۔ 2001ء میں افغانستان پر دھاوا بولنے کے بعد انہوں نے2003ء میں عراق پر جنگ مسلط کر دی۔یہ سب کوششیں انہیں2008ء کے بدترین مالی بحران سے نہ بچا سکیں۔ 38 ویں صدر جیرالڈ فورڈکا آئی کیو 140تھا۔وہ گریٹ ڈپریشن کی صورت میں ورثے میں ملنے والے بدترین مالی بحران پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ سابق صدر نکسن کو واٹر گیٹ سکینڈل میں استثنیٰ دینے پر وہ بھی مخالفین کی تنقید کا نشانہ بنے ۔
امریکہ کے بانی جارج واشنگٹن کا آئی کیو140تھا لیکن وہ ملک آزاد کرانے میں کامیاب رہے انہوں نے ہی ملک کو بحران سے نکالا اور ایک راہ پر ڈالا۔انہیں ''فادر آف ہز کنٹری ‘‘کہا جاتا ہے۔لڈن بی جانسن (140) جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔وہ ''غربت کے خلاف جنگ ‘‘ کر کے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے میں کامیاب رہے۔
16ویں صدرابراہام لنکن (140) امریکہ میں تبدیلی لانے میں کامیاب رہے، 13ویں ترمیم کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا سہرا ان کے سر ہے۔یہی وجہ ہے انتہا پسند نے ان کی 1865ء میں جان لے لی۔ 41ویں صدر جارج ایچ ڈبلیوبش (بش سینئر) کا آئی کیو 143 ہے۔ تھیوڈور روز ویلٹ ( 143) امریکہ کے 26 ویں صدر تھے۔انہوں نے نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ پاناما کینال کی تعمیر شروع کرائی۔کلیو لینڈ (144) دو مختلف ادوار میں منتخب ہونے والے واحد امریکی صدر ہیں۔ انہوں نے سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی کوششوں سے شہرت پائی۔44ویں صدر براک اوباما (155) نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ افغانستان میں فوج بڑھانے کے علاوہ انہوں نے لیبیا کا بھی فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کی ۔جمی کارٹرکا آئی کیو 156 ہے۔ وہ 1977ء سے 1981ء تک صدر رہے، افغانستان میں روسی فوج ان کے دور میں ہی داخل ہوئی اور انہوں نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کو بڑی تعداد میں روسی فوجوں کا قبرستان بنا دیا ۔بل کلنٹن (159) امریکہ کے ذہن صدور میں شامل ہیں۔مونیکا لیونسکی کیس ان کے دور کا ایک اہم سیکنڈل ہے ،سینٹ میں مطلوبہ حمایت نہ ملنے کی وجہ سے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہو گئی تھی۔35ویں صدر فٹز جیرالڈ کینیڈی کا آئی کیو 160 تھا۔ وہ 1961ء میں قتل کر دیئے گئے تھے۔ تھامس جیفرسن ( 160) امریکہ کے تیسرے صدر تھے۔ سات زبانوں پر عبور رکھنے والے جان کوئینسی ایڈمزکا آئی کیو175تھا۔ مورخین انہیں 1812ء میں دوران جنگ قیام امن کیلئے بہترین مذاکرات کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: ٹیپو سلطان : شیر میسور

یادرفتگاں: ٹیپو سلطان : شیر میسور

جنگی حکمت عملی، شجاعت اور بہادری کے لحاظ سے ٹیپو سلطان کا شمار فرانس کے نپولین بونا پارٹ اور سلطان ایوبی کی صف میں ہوتا ہے۔ مشہور سکاٹش شاعر اور تاریخی ناول نویس والٹر سکاٹ(Sir Walter Scott) نے ٹیپو سلطان کی شہادت پر جو ردعمل ظاہر کیا تھا وہ ٹیپو سلطان کے لیے سنہری خراج عقیت کی حیثیت رکھتا ہے کہ ''اگرچہ نپولین، جس کا نظم ونسق ٹیپو سلطان سے مختلف تھے، مگر میرے خیال میں ان کو کم از کم وہی جرأت مندی، عزم، مستقل مزاجی اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا اور اپنی دارالحکومت کی حفا ظت کرتے ہوئے جواں مردی سے تلوار ہاتھ میں لیے شہادت قبول کی تھی‘‘۔ ٹیپو سلطان 10 نومبر 1750ء کو دیوانہلی میں پیدا ہوئے۔اُن کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر رکھا گیا۔ انہیں اپنے دادا فتح محمد کے نام کی مناسبت سے فتح علی بھی کہا جاتا تھا۔ٹیپو کی پیدائش کے وقت تک حیدر علی کی قائدانہ صلاحیتوں اور فوجی حربوں کی شہرت بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ سلطان حیدر علی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم وتربیت اور فنون حرب پر خاص توجہ دی۔ ٹیپو سلطان نے محض 15 سال کی عمر میں اپنے والد حیدر علی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ میں حصہ لیا۔ 17 سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور کا آزادانہ اختیار دے دیا گیا تھا۔برصغیر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی راہ کے سب سے بڑے کانٹے سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان تھے۔1767ء تا 1799ء اُن کی انگریزوں سے چار جنگیں ہوئیں۔ ٹیپو نے اپنے باپ سلطان حیدر علی کی نگرانی میں کرنل بیلی، کرنل برتیھ ویٹ سرایر کوٹ اور بریگیڈر جنرل جیمس سٹوارٹ جیسے آزمودہ کار افسروں کو شکست سے دوچار کیا۔ 1767ء پہلی اینگلو میسور جنگ میں حیدر علی نے انگریزوں کو ذلت آمیز شکست دی اور انہیں صلح پر مجبور کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ اگرچہ 1782ء میں دوسری اینگلو میسور جنگ کے دوران حیدر علی سرطان کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد جاں بحق ہو گئے لیکن ٹیپو نے حیدر علی کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور جنگی حکمت عملیوں کے سبب انگریزوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ 11 مارچ 1784ء کو ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان منگلور کا معاہدہ ہوا۔ اس پر منگلور میں دستخط ہوئے اور دوسری اینگلو میسور جنگ کا خاتمہ ہوا۔اس معاہدے نے دور اندیش شیر میسور فتح علی خاں ٹیپو کو موقع دیا کہ دیسی ریاستوں کو اکٹھا کیا جائے اور انگریزوں کو مکمل شکست سے دوچار کرنے کے لیے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیا جائے۔اس غرض سے انہوں نے جے پور، جودھپور اور نیپال وغیرہ کو اپنے ایلچی اور خطو ط بھیجے۔ 23جون 1785ء کو مغل شہنشاہ شاہ عالم کی خدمت میں بھی عریضہ لکھا اور انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ٹیپو سلطان نے ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن غدار وطن اور نامساعد حالات کی وجہ سے اُن کی جدوجہد ان کے مقصد کی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے اتحاد کے علاوہ ان کی آستین کے سانپ میر صادق، پنڈت پورنیا، میر غلام علی (لنگڑا) بدرالزماں خاں نائطہ، میر معین الدین، میر قمر الدین، میر قاسم علی پٹیل اور میر نورالدین جیسے غداروں کا بھی سامنا تھا، جنہوں نے سلطنتِ خداداد کا استحصال کرنے کا عزم کیا ہوا تھا۔چوتھی اینگلو میسور جنگ 1799ء کے دوران سلطنت خداداد پر ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی 50 ہزار کی تعداد میں مشترکہ افواج نے یلغار کی جو ٹیپو کی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ سلطان کے غدار افسروں نے آخری وقت تک انگریزوں کی سرگرمیوں سے ٹیپو کو اندھیرے میں رکھا۔ سلطان کو برطانوی افواج کی نقل وحرکت کی اطلاع اُس وقت ملی جب وہ سرنگا پٹم پر اپنا شکنجہ کس چکی تھی۔ تقربیاًپانچ ہزار سپاہی جن میں تین ہزار یورویپن سپاہی شامل تھے، یلغار کے لیے متعین کیے گئے تھے۔ 4مئی کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی ان سپاہیوں کو خندق میں اُتار دیا گیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ حملے کے عین وقت میرصادق اور پورنیا نے شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلاکر انگریز فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت دی۔ اس اقدام کا احتجاج کرنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ سید غفار جو سلطان کا انتہائی وفادار تھا بدقسمتی وہ توپ کے ایک گو لے سے شہید ہو چکے تھے۔ اُن کے شہید ہوتے ہی غداروں نے قلعہ سے سفید رومال ہلا کر انگریز فوج کو یلغار کا اشارہ کیا جو پہلے سے خندق میں موجو د تھی۔ اشارہ پاتے ہی فوج نے قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروا دیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دہلی دروازہ کھول دیا اور قلعے میں زبردست جنگ چھڑ گئی۔ اس حملہ کے دوران ٹیپو ایک جری سپاہی کی طرح پیدل ہی حملہ آور فوج سے لڑتے رہے۔اگر چہ ٹیپو کے پاس جنگ سے نکلنے کا راستہ تھا لیکن انہوں نے میدان جنگ سے فرار پر شہادت کوترجیح دی۔ بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور پڑ گئی۔ اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو اپنی جان بچانے کے لیے نکل جانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو سلطان اس پر کہاں راضی ہونے والے تھے۔ وہ اپنے مشہور قول ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ پر کاربند تھے ۔ 4 مئی، 1799ء کو میسور کا سورما شہادت کے بلند تر درجے پر فائد ہو ۔بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را 

المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ مستقبل کا جدید ایئرپورٹ

المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ مستقبل کا جدید ایئرپورٹ

متحدہ عرب امارات اس وقت دنیا میں نہ صرف کاروباری حب سمجھا جاتا ہے بلکہ متحدہ عرب امارات میں دنیا بھر سے کروڑں لوگ سیاحت کے لئے بھی متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں۔ سات ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات کی سب سے زیادہ شہرت رکھنے والی ریاست دبئی ہے جہاں پر بلند و بالا عمارتیں، شاپنگ مالز اور سیاحوں کی دلچسپی کے لئے دنیا بھر کی کمپنیاں سیمینارز، فیسٹیولز اور دیگر پروگرام کا انعقاد بھی یہیں کرتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے اس وقت دبئی کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ بن چکا ہے۔ 2023ء میں دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 8 کروڑ 70 لاکھ مسافر اور 18 لاکھ دس ہزار ٹن کارگو سامان 4 لاکھ 16ہزار 405 رجسٹرڈ جہازوں کے ذریعے آمدورفت ہوئی اور اس وقت اس ایئر پورٹ پر آنے 51 فیصد مسافر امارات ایئر لائنز کا استعمال کرتے ہیں۔ دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ شہر کے درمیان میںواقع ہے۔ متحدہ عرب امارات میں مسافروں کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر دبئی سے 37 کلومیٹر دور شمالی علاقے جبل علی میں المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کو 27 جون2010ء میں کارگو آپریشنز کیلئے کھولا گیا اور اکتوبر 2013ء میں مسافروں کی باقاعاعدہ پروازیں بھی شروع کر دی گئیں۔المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے پر 24 فروری 2011 کو، ہوائی اڈے کو 60 مسافروں کے ساتھ مسافر طیاروں کو ہینڈل کرنے کی سند دی گئی۔ پہلا مسافر طیارہ ایئربس A319CJ، 28 فروری 2011 ء کو اس ایئر پورٹ تر اترا ۔ ہوائی اڈے کو سرکاری طور پر 26 اکتوبر 2013 کو مسافروں کی پروازوں کے لیے باقاعدہ کھول دیا گیا جس میں ایئر ناس اورایئر ویز دو کیریئرز کے طور پر ہوائی اڈے پر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔۔ 2014 کی پہلی سہ ماہی میںاس ہوائی اڈے پے ایک لاکھ 2 ہزار مسافروں کی آمدو رفت ہوئی۔ المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کے افتتاح کے وقت، تین کارگو سروس ایئر لائنز بشمول RUS ایوی ایشن، اسکائی لائن ایئر اور ایرو اسپیس کنسورشیم نے اس ایئرپورٹ کی خدمت کی۔اس کے بعد پندرہ اضافی ایئر لائنز نے ہوائی اڈے پر پروازیں چلانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے۔ 2016ء ی پہلی ششماہی میں مسافروں کی تعدادچار لاکھ 10 ہزار 278 تھی جو کہ 2015 کی پہلی ششماہی میںدو لاکھ 9 ہزار 989 تھی اسی وہ وجہ سے منصوبے کے آغاز پر ہی اس دنیا کے سب سے بڑے ایئر پورٹ کو کم استعمال کی وجہ سے سفید ہاتھی بھی کہا جاتا رہا۔گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کی توسیع کے لئے نئے ڈیزائن کی کی منظوری دے دی ہے ۔ ہوائی اڈے کی توسیع اور مسافر ٹرمینل کے لئے 128 ملین درہم (34.85 بلین امریکی ڈالر) مختص کئے گئے ہیں۔المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کے مکمل ہونے کے بعد تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 260 ملین مسافر کی گنجائش کے ساتھ یہ ہوائی اڈے دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پانچ گناہ بڑا ہونے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہوگا۔ ہوائی اڈے کے توسیعی منصوبے میں پانچ رن وے ہونگے اور ایک وقت میں مسافروں کے لئے400 ہوائی جہاز ایئرپورٹ کی بلڈنگ کے ساتھ کھڑے کرنے گنجائش ہوگی۔ 2034ء تک امارات ایئر لائن اور فلائی دبئی کی تمام فلائٹیں اس نئے ہوائی اڈے پر منتقل کردی جائیں گی۔امارات کے حکمران شیخ محمد بن راشد کا کہنا ہے کہ نیا ایئر پورٹ ''دبئی سنٹرل ایئرپورٹ( DWC ) مکمل طورپر فعال ہونے کے بعد سالانہ 26 کروڑ مسافروں کی آمد و رفت یقینی ہے اور اس طرح یہ دنیا کا سب سے زیادہ گنجائش والا ائیر پورٹ ہوگا۔ دبئی سول ایوی ایشن کے صدر اورامارات ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) شیخ احمد بن سعید المکتوم کے مطابق اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 برس میں مکمل ہوگا اور اس میں سالانہ 15 کروڑ مسافروں کی آمدورفت ممکن ہوگی۔دبئی ورلڈ سینٹرل (DWC) کو ''مستقبل کا ہوائی اڈہ‘‘ کہا جارہا ہے ۔ المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈہ چھ کلسٹرڈ زونز کی 140 کلومیٹر 2 ملٹی فیز ڈیویلپمنٹ جس میں دبئی لاجسٹک سٹی (DLC)، کمرشل سٹی، رہائشی شہر، ایوی ایشن سٹی اور گالف سٹی شامل ہیں۔جب دنیا کے سب سے بڑے ایئر پورٹ کے منصوبے کا آغازکیا گیا تو اس منصوبے کو 2017 تک مکمل طور پر کام کرنے کی توقع تھی، حالانکہ 2007-2012 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے کمپلیکس کی تکمیل کو 2027 ء تک ملتوی کر دیا گیاتھا۔ ہوائی اڈے کے کمپلیکس کو سب سے پہلے ''جبل علی انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ پھر ''جبل علی ایئرپورٹ‘‘ بعد ازاں شہر، اور''دبئی ورلڈ سینٹرل انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘‘ اور پھر دنیا کے سب سے بڑے ہوائی اڈے کو بالآخر المکتوم بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام ہاؤس آف مکتوم کے نام پر رکھا گیا جو امارات پر مرکزی حکومت چلاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ناسا کے ''وینس مشن‘‘ کی روانگی04اپریل 1989ء کو امریکی خلائی ایجنسی ''ناسا‘‘ نے اپنا وینس(زہرہ) کیلئے خلائی مشن ''ایس ٹی ایس 30‘‘ کو روانہ کیا۔ یہ ناسا کا 29واں جبکہ مذکورہ خلائی شٹل کا چوتھا خلائی مشن تھا۔ زہرہ سورج کے بعد دوسرا سیارہ ہے۔یہ مریخ کے قریب ترین واقع ہے جبکہ جسامت میں اپنے مداری سیارے زمین کے برابر ہے۔ 4 مئی کو روانہ ہونے والا یہ مشن چار دن کے بعد یعنی 8مئی کو زہرہ پر اترا۔پاکستان کی آسٹریلیشیا کپ میں فتح1990ء میں آج کے روز کھیلے گئے آسٹریلیشیا کپ میں پاکستان نے آ سٹر یلیا کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ آسٹریلیشیا کپ 25اپریل سے 4مئی کے درمیان متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا جس میں 6ٹیموں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، بھارت، نیوزی لینڈ، پاکستان اور سری لنکا نے حصہ لیا۔ ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پاکستان کو ٹورنامنٹ جیتنے پر 30ہزار ڈالر کی انعامی رقم دی گئی۔ پہلے ''ایمی ایوارڈز‘‘ کا انعقاد1959ء میں آج کے روز دنیائے موسیقی کے سب سے معتبر سمجھے جانے والے ''ایمی ایوارڈز‘‘ کی پہلی تقریب کا انعقاد ہوا۔ جس میں 1958ء میں اپنے کام سے لوگوں کو متاثر کرنے والے فنکاروں کے فن کا اعتراف کیا گیا۔ ایمی ایوارڈ کی یہ پہلی تقریب اس حوالے سے منفرد تھی کی اس کا اہتمام بیک وقت دو مختلف شہروں کے دو ہوٹلوں میں کیا گیا تھا۔ یہ تقریب بیورلے ہلز کیلیفورنیا کے ساتھ نیویارک میں منعقد ہوئی جس میں تقریباً 15کیٹیگریز میں ایوارڈز دیئے گئے۔''سیئرز ٹاور‘‘ دنیا کی بلند ترین عمارت قرار پایاشکاگو کے 108 منزلہ ''سیئرز ٹاور‘‘ کو 4 مئی 1973ء کو دنیا کی بلند ترین عمارت قرار دیا گیا۔ اس کی اونچائی 1451 فٹ تھی۔ دبئی میں برج الخلیفہ بننے کے بعد ''سیئرز ٹاور‘‘ سے یہ اعزاز چھن گیا۔ برج الخلیفہ کی بلندی 2717 فٹ ہے اور اسے دنیا کیبلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس عمارت کا افتتاح 2010ء میں ہوا تھا۔   

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

اس روئے زمین پر نظام قدرت بھی کتنا عجیب ، پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے۔اتنا حیرت انگیز کہ بسا اوقات انسانی سوچ بھی جواب دے جاتی ہے۔ بارشوں کو ہی لے لیں دنیا میں دو شہر ایسے بھی ہیں جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا جبکہ اس کے برعکس ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں سارا سال مسلسل بارش جاری رہتی ہے ، باالفاظ دیگر آج تک رکی ہی نہیں۔مسلسل بارش کا سامنا کرنے والا شہر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نمی والا مقام یعنی دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں بھارتی ریاست میگھالیہ میں ہوتی ہیں۔ ریاست میگھالیہ کا دارالحکومت شیلانگ ہے جو سارا سال بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ میگھالیہ سنسکرت کا ایک لفظ ہے جس کے معنی '' بادلوں کا گھر‘‘ کے ہیں۔ میگھالیہ کا گاوں ماسن رام دنیا کا واحد اور منفرد علاقہ ہے جہاں سارا سال مسلسل بارشیں برستی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کو دنیا کی گیلی ترین زمین کہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق خلیج بنگال کی وجہ سے اس جگہ کو دنیا کی سب سے زیادہ نمی والی جگہ کی شہرت حاصل ہے۔اس کی واحد وجہ ہی یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر روز بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہ گاوں سطح زمین سے 1491 میٹر بلند پہاڑ پر واقع ہے جبکہ یہاں اوسطاً بارش 11871ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ریاست میگھالیہ کی تہذیب ملک کے دوسرے صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ بہت زیادہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی بارشوں نے یہاں کے ماحول اور بھی زیادہ سحر انگیز بنا،رکھا ہے جو شاید وہاں کے باسیوں کے لئے تو زیادہ پرکشش نہ ہو لیکن سیاحوں کے لئے یہ منظر مسحور کن ضرور ہوتا ہے۔مسلسل بارشوں کے باعث یہاں چھتریوں کی بجائے لوگوں نے بانس سے بنی خوشنما ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں جسے بیچنے والے سڑک کنارے جابجا ٹھیلے لگائے نظر آتے ہیں۔بارشوں سے محروم بادلوں کے نیچے ایک گاوں سائنسدانوں کے بقول جب پا نی زمین سے بخارات بنکر اڑ جاتا ہے تو زمین کی فضا میں ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جب یہ بادل کافی بھاری ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا سے ٹھنڈے ہونے پر بارش کی صورت میں زمین پر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بارشیں قدرت کی نعمت بھی ہیں اور زحمت بھی۔بارشیں معمول کی ہوں تو نعمت اور اگر غیر معمولی ہوں تو زحمت۔ ایک حد سے زیادہ بارشیں اپنے ساتھ سیلاب ، طوفان اور ژالہ باری جیسی تباہ کاریاں لے کر آتی ہیں۔دنیا کے تقریباً سبھی خطوں پر کہیں کم اور کہیں زیادہ بارشیں معمول کا ایک عمل گردانا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگوں کیلئے شاید یہ انکشاف نیا ہو کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گاوں بھی ہے جہاں آج تک کبھی بارش نہیں برسی۔ ایتھوپیا کا ''دلول‘‘ نامی یہ گائوں ایتھوپیا اور ارٹیریا کی سرحد کے قریب عفر نامی ریجن میں واقع ہے۔لفظ ''دلول‘‘ یہاں صدیوں پہلے آباد قوم عفر قوم نے اسے دیا تھا،جس کے لفظی معنی ''تحلیل‘‘ ہو جانے کے ہیں۔یہ خطہ چونکہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے اس لئے یہاں کی آبادی بہت کم نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ اور نمک کی خوفناک اور گہری کھائیوں پر مشتمل پہاڑی بنجر علاقہ بھی ہے۔بارشوں سے مکمل طور پر محروم اس گائوں کا گرمیوں میں درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔جبکہ یہاں کا اوسط درجہ حرارت 40ڈگری سنٹی گریڈ سے کچھ اوپر ہی ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں۔انہی آتش فشانوں میں ''دانا ڈپریشن‘‘ نامی علاقے میں واقع '' ایریا ایلے ‘‘ نامی ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہے جو دنیا کے ایسے چھ آتش فشان پہاڑوں میں سے ایک ہے جو لاوے کے بڑے بڑے ابلتے تالابوں پر مشتمل ہے۔یہ آتش فشاں سطح زمین سے 613 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اگرچہ یہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا بھر کے سیاح اور مہم جو جوق در جوق ان خوش رنگ اور منفرد بہتے لاووں کو دیکھنے یہاں چلے آتے ہیں۔ 1926ء میں یہ آتش فشاں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرین کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب انہوں نے ان آتش فشانوں کے پھٹنے کے بعد یہاں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں۔ جس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کیا وہ یہاں پر موجود نمک کے ذخائر کا چٹانوں سے 30 میٹر تک ابھر کر سامنے ظاہر ہو جانا تھا۔دراصل یہ علاقہ مقامی نمک سے مالا مال ہے جس کے سبب اسے مقامی طور پر سفید گولڈ کانام بھی دیا جاتا ہے اور یہاں کے باسیوں کا یہ سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی معمول سے ہٹ کر زلزلوں کا آنا تھا۔ان زلزلوں کے باعث سلفر کے تالابوں میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہوا دیکھا جانے لگا۔یہاں پر زیر زمین گرم پانیوں کو زمین کی سطح تک آنے میں پتھر کی متعدد تہوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔نتیجتاًاس عمل کے دوران یہاں نمک، سلفر اور آئرن پیدا ہوتے ہیں ۔دلول گائوں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دنیا کے سب سے غیر معمولی ہائیڈرو تھرمل علاقوں میں سے ایک ہے۔اس خطے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ سطح سمندر سے 125 میٹر نیچے ہے۔ بارشوں سے محروم بادلوں کے اوپر ایک گاوںعام طور پر بارش کے متلاشی آسمان کی طرف رخ کر کے بارش کے آنے یا نہ آنے کا اندازہ کرتے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے بارشیں آسمانوں سے ہی برسا کرتی ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گائوں بھی ہے جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑا لیکن وہ بارش کا منظر دیکھنے کیلئے اوپر کے بجائے نیچے کی جانب دیکھتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے گائوں کے نیچے اکثر و پیشتر بارشیں برستی رہتی ہیں۔ ''الحطیب‘‘ نام کا یہ منفرد گاوں ملک یمن کے دارالحکومت صنعا اور الحدیدہ کے درمیان ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔اس گائوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سطح زمین سے لگ بھگ 3200میٹر بلندی پر سرخ رنگ کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے لیکن یہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔یہ گائوں چونکہ زمین سے 3200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ بادل زمین سے 2000 میٹر کی بلندی پر بنتے ہیں۔بالفاظ دیگر بلندی پر رہنے کے سبب یہاں کے باسی بارش کی نعمت سے مستفید نہیں ہو پاتے جبکہ ان بادلوں کے نیچے بسنے والے باسی وقتاً فوقتاً بارش سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان سے اوپر رہنے والے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کا موسم گرم اور معتدل رہتا ہے تاہم سردیوں میں صبح کے وقت موسم سرد رہتا ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔  

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

حران کے مشہور طبیب ریاضی دان اور مترجم ثابت ابن قرہ(830ء تا 901ء) کا یہ لائق فرزند بغداد میں 880ء کے قریب تولد ہوا، (ایک اور ذرائع کے مطابق اس کا سن پیدائش 850ء ہے)۔ جس طرح اس کے والد نے طب اور ریاضی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اس کا بیٹا بھی علم و تحقیق کے آسمان پر سورج بن کر چمکا۔ یہی نہیں بلکہ آگے سنان ابن ثابت کے بیٹے اور ثابت ابن قرہ کے پوتے ابراہیم ابن سنان نے بھی اپنے دادا اور والد سے حاصل کی ہوئی علمی میراث سے تشنگان علم و تحقیق کو خوب سیراب کیا۔ سائنس کی تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسا اتفاق ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں اس کی مثال بیکرل خاندان میں ملتی ہے۔ اے سی بیکرل، اس کا بیٹا اے ای بیکرل اور پھر اس کا پوتا اے ایچ بیکرل تینوں اپنے اپنے دور کے مشہور سائنسدان گزرے ہیں۔سنان ابن ثابت کا والد ثابت ابن قمرہ ممتاز سائنسدان محمد بن موسیٰ بن شاکر کے کہنے پر حران سے بغداد آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یوں سنان ابن ثابت کو آغاز ہی سے بغداد کی علمی فضا میں اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ سنان نے ریاضی اور طب کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ مشہور تاریخ نگار المسعودی، سنان ابن ثابت کے حوالے سے عباسی خلیفہ المعتضد (دور خلافت 892 تا 902ء) کے دربار کے طریق زندگی کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ بظاہر 908ء سے پہلے سنان کا دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر المقتدر(دور خلافت 908ء تا 932ء) کے عہد میں اسے دربار کے حکیم اور طبیب کی حیثیت مل گئی اور اسی طرح وہ خلیفہ القاہر(دور خلافت932ء تا 934ء) اور خلیفہ الراضٗی (دور خلافت 934ء تا 940ء) کے دور میں بھی دربار سے منسلک رہا۔ ایک دوسرے مستند ذریعے کے مطابق892ء میں ہی جب معتضد خلیفہ بنا تو سنان کے والد نے جو اس وقت افسر الاطبا کے عہدہ پر متمکن تھا، سنان کو اپنی جگہ مقرر کروا دیا تھا۔ اسی ماخذ کے مطابق 902ء میں معتضد کی وفات کے بعد مکتفی کے دور خلافت میں سنان بن ثابت کو تمام سرکاری شفا خانوں کا مہتمم اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس دور میں اس کے عمل کا دائرہ سفری شفاخانوں اور جیل میں طبی سہولتوں کے بہم پہنچانے تک محدود تھا اور پھر امن کے بعد مقتدر کے دور میں وہ نہ صرف اس عہدے پر فائز رہا بلکہ اب اس کی حیثیت ایک وزیر صحت کی سی ہو گئی۔ اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جلد ہی بغداد کے تمام اطباء میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔931ء میں جب ایک عطائی کے غلط علاج کے باعث ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو مقتدر کے حکم کے مطابق سنان نے مطب کرنے والے تمام اطباء کا ایک امتحان لیا اور بغداد کے تقریباً ایک ہزار میں سے صرف سات سو کے قریب اطباء کو مطب کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس امتحان سے صرف ان چند ایک اطباء کو مستثنیٰ رکھا گیا جو پہلے ہی اچھی شہرت رکھتے تھے۔اس کے والد ثابت ابن قرہ نے پیرانہ سالی میں اسلام قبول کر لیا تو سنان بھی مسلمان ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر (تاریخ پیدائش850ء کے لحاظ سے) 40سال تھی، یوں اس کے قبول اسلام کا سال تقریباً 890ء متعین ہوتا ہے۔ راضی کی وفات کے بعد اس نے واسط( کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر کا نام) کے امیر ابوالحسین بحکم کی جسمانی صحت اور اخلاق و کردار کی دیکھ بھال شروع کردی۔ بغداد ہی میں 943ء میں اس کا انتقال ہوا۔سنان کی تصانیف میں سے بدقسمتی سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ ابن القفطی کے بیان کے مطابق سنان کی تصنیفات کو تین سلسلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا تاریخی سیاسی، دوسرا ریاضیاتی اور تیسرا فلکیاتی۔ ابن القفطی کی فہرست میں سنان کی کسی طبی تصنیف کا نام نہیں ملتا۔ پہلی قسم کی کتابوں میں ایک رسالہ وہ ہے جس میں سنان ابن ثابت خلیفہ المعتضد کے دربار کے طریق زندگی کے بارے میں معلومات پیش کرتا ہے۔ اس رسالے میں وہ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ افلاطون کی کتاب ''ری پبلک‘‘ کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا ڈھانچہ متعین کرکے دیتا ہے۔ السعودی اس کی اس پیشکش پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سنان کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو اپنی قابلیت کے دائرے سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھتا۔ مثلاً اس کو اقلیدس کے علوم، المجسط، فلکیات، موسمیاتی، مظاہر، منطق، مابعد الطبیعیات اور سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظام فلسفہ تک محدود رہنا چاہئے تھا۔دوسرے سلسلے کی کتابوں میں چار ریاضیاتی رسالے ہیں۔ ان میں ایک ''عضد الدولہ‘‘ کے نام منسوب کی گئی ہے۔ عضد الدولہ کی درخواست پر ابوسہل القوہی نے اس کی اس تصنیف کی ایک تفسیر کی اصلاح کی ہے۔ ریاضیاتی سلسلے کی دوسری کتاب ارشمیدس کی ''on triangles‘‘سے متعلق ہے سا سلسلے کی تیسری کتاب افلاطون کی کتاب''on Elements of Geometry‘‘کی تصحیح و اضافے کے بعد لکھی گئی ہے۔ یہاں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ افلاطون کی یہ کتاب کہیں وہی تو نہیں جوآیا صوفیہ میں ''المفردات‘‘ کے نام سے پڑی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے پہلے دو رسالے سنان کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں مخاطب کی گئی شخصیات دسویں صدی کے دوسرے نصف میں بامِ عروج کو پہنچیں جبکہ سنان دسویں صدی کے پہلے نصف ہی میں انتقال کر گیا تھا۔تیسرے سلسلے کی کتابوں میں سے ''کتاب الانواع‘‘ ( منسوب بہ المعتضد) کے مندرجات کے بارے میں صرف البیرونی کے اقتباسات کے ذریعے کچھ معلوم ہوا ہے۔ موخر الذکر کتاب کا حوالہ ابن القفطی نے اور ابن الندیم نے اپنی کتاب 'الفہرست‘ میں دیا ہے۔ محققین ان کی وجوہات پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ موسمیاتی خصوصیات ستاروں کے طلوع و غروب سے پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ دوسرے محققین اس کو گزرے ہوئے ایام کے موسم کے تقابل کے لحاظ سے لیتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

K-19کی روسی بحریہ میں شمولیت1961ء میں آج کے دن روسی نیوکلیئر آبدوز''K-19‘‘ کو بحریہ میں شامل کیا گیا۔ یہ سوویت آبدوزوں کی پہلی جنریشن تھی جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی۔ یہ آبدوز امریکی آبدوزوں کے جواب میںبنائی گئی تھی۔ اس کی تیاری کے دوران 10 سویلین ورکرز اور ایک ملاح مختلف حادثات میں ہلاک ہوئے۔'' K-19‘‘ کے شروع ہونے کے بعد، آبدوز میں متعدد خرابیاں سامنے آئیں ،کئی مرتبہ تو آبدوز کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔امریکہ کا عالمی میلہ1939ء میں آج کے دن امریکہ میں عالمی میلے کا انعقاد کیا گیا ۔یہ اس وقت کا سب سے مہنگا امریکی میلہ تھا۔ اس میلے میں دنیا کے بہت سے ممالک نے شرکت کی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ صرف دو سیزنز میں اس میلے میں 44 ملین (4کروڑ40لاکھ )افراد نے شرکت کی۔اس نمائش کا مقصد لوگوں کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعارف کروانا تھا ۔ اس میں ''نئے دن کی صبح‘‘ اور '' کل کی دنیا‘‘ کے عنوان سے لوگوں کیلئے مختلف اشیاء کی نمائش کی گئی۔عالمی میلے کے شروع ہونے کے چار ماہ بعد عالمی جنگ شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بہت سی نمائشیں متاثر ہوئیں۔ 1940ء میں میلے کے اختتام کے بعد، بہت سی نمائش گاہوں کو منہدم کر دیا گیا تھا۔یورپی یونین میں دس ممالک کی شمولیتیورپی یونین کی تاریخی توسیع کے دوران 30اپریل2004ء کو دس ممالک یورپی یونین میں شامل ہوئے۔ یہ ممالک کئی دہائیوں سے سوویت نظریات کی وجہ سے مغربی ممالک سے الگ ایک خطے کے طور پر موجود تھے۔ ان ممالک کی شمولیت کو یورپی یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان 10ممالک کی شمولیت سے یورپی یونین کی آبادی450ملین تک پہنچ گئی۔شامل ہونے والے ممالک میں قبرص ،مالٹا،چیک، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، سلواکیہ اور سلونیا شامل تھے۔''سٹالگ لوفٹ‘‘ سے قیدیوں کی آزادی''سٹالگ لوفٹ‘‘ قیدیوں کیلئے بنایا گیا جرمن کیمپ تھا۔یہ کیمپ بارتھ، ویسٹرن پومیرانیا، جرمنی میں گرفتار ہونے والے اتحادی فضائیہ کے اہلکاروں کیلئے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جیل کیمپ کی موجودگی نے بارتھ قصبے کو اتحادیوں کی بمباری سے بچا لیا تھا۔ تقریباً 9 ایئر مین7ہزار 588 امریکی اور ایک ہزار351 برطانوی اور کینیڈین قیدی وہاں موجود تھے۔ ان قیدیوں کو 30 اپریل 1945ء کی رات کو روسی افواج نے آزاد کروایا تھا۔ قیدیوں کو سوویت فوج کی پیش قدمی کے پیش نظر کیمپ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ زیم کے اور کمانڈنٹ کے درمیان گفت و شنید کے بعد، اس بات پر اتفاق ہوا کہ بیکار خونریزی سے بچنے کیلئے محافظ جنگجوؤں کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے لیکن ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور روسی افواج نے قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔