بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان

بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان

اسپیشل فیچر

تحریر : معصومہ مبشر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

یہ بتانے کی ضرورت نہیںہر کوئی جانتا ہے کہ سال کے365 دن اور12 مہینے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا مہینہ ہوتا ہے ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔ آئیے معلومات میں اضافے کیلئے تاریخ میں اس داستان کو تلاش کرنے کی کوشش ہیں۔ 
جنوری 
عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔ 
جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی امن میں نہیں۔ دیوتا کے 2سر تھے جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے2سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ''دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ''سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31 دِنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
فروری 
ایک زمانے میں فروری سال کا آخری اور دسمبر دوسرا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں فروری سال کا دوسرا مہینہ قرار پایا۔ یہ مہینہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ سب سے کم یعنی28 دن رکھتا ہے جبکہ لیپ (Leap) کے سال میں فروری کے29 دن ہوتے ہیں۔ چنانچہ لیپ کا سال 366 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر چوتھا سال لیپ کا سال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کرۂ ارض کے گرد اپنے مدار کا سفر 365 دن اور 6 گھنٹوں میں طے کرتا ہے۔ لیکن3 سال کے دوران اس کا ہر سال365دنوں کا ہی شمار ہوتا ہے جبکہ چوتھے سال میں 1/4حصے جمع کریں تو یہ ایک دن کے برابر بن جاتا ہے۔ یوں ایک دن زیادہ جمع کرکے یہ 366دن کا یعنی لیپ کا سال کہلاتاہے۔لفظ فروری بھی لاطینی زبان فیبرام (Februm ) سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب ہے ''پاکیزگی کا ذریعہ‘‘۔
مارچ 
اس مہینے کا نام رومی دیوتا مارس (Mars) کے نام پر رکھا گیا۔ مارس کو اردو میں مریخ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دیوتا بڑا خطرناک تھا۔ رومی دیومالا کے مطابق اس کے رتھ میں انتہائی منہ زور گھوڑے جتے ہوتے تھے ، رتھ میں دیوتا نیزہ تھامے کھڑا ہوتا،نیزے کی انی کا رُخ آسمان کی طرف ہوتاجبکہ دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہوتی۔ دیوتا کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوتا۔ اہلِ روم اسے سب سے طاقتور دیوتا سمجھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق بارش، بجلی، بادل اور گرج چمک سب مارس دیوتا کے ہاتھ میں تھا۔ یہ مہینہ بھی 31 دنوں پر مشتمل ہے۔ لفظ مارچ لاطینی زبان کے لفظ مارٹئیس (Martius) سے اخذ کیاگیا۔اسی لفظ سے سیارہ مریخ کا نام (Mars) بھی بنایا گیا۔مارچ کے مہینے میں عموماً موسمِ بہار کا آغاز ہوتا ہے۔
اپریل 
یہ مہینہ 30 دِنوں پر مشتمل ہے،اپریل لاطینی لفظ، اپریلس (Aprilis) سے بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کھولنے والا، آغاز کرنے والا۔ اس مہینے میں چونکہ نئے پودوں اور درختوں کی نشوونما کا آغاز ہوتا ہے،چنانچہ اسے کسی دیوی یا دیوتا نہیں بلکہ بہار کے فرشتے سے منسوب کیا گیا۔
مئی 
یہ سال کا پانچواں مہینہ ہے 30 دن رکھتا ہے۔اس مہینے میں بھی بہار کے کچھ اثرات باقی ہوتے ہیں۔ لفظ مئی انگریزی زبان میں فرانسیسی لفظ مائی (MAI) سے اخذ کیا گیا ہے۔یہ لاطینی زبان کے لفظ مائیس (Maius) سے اخذ شدہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینے کا نام ایک رومی دیوی میا (Maia) کے نام پررکھا گیا۔ رومیوں کے نزدیک اس وسیع و عریض زمین کو دیوتا نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔اس دیوتا کی 7 بیٹیاں تھیں جن میں میادیوی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔
جون 
اس مہینے کا نام بھی ایک دیوی جونو (Juno) کے نام پررکھا گیا۔ البتہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نام روم کے مشہور شخص جونی لیس کے نام پر رکھا گیا جو9 دیوتائوں کے سردار جیوپیٹر کی بیٹی تھی جبکہ جونی لیس ایک بے رحم اور سفاک انسان تھا۔
جولائی 
اس مہینے کا نام دیوی دیوتا نہیں بلکہ روم کے ایک مشہور حکمران جولیس سیزر کے نام پر رکھا گیا۔ ایک زمانے میں یہ پانچواں مہینہ تھا۔ جولیس سیزر قدیم روم کا مشہور شہنشاہ تھا۔ مشہور شاعر و ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے ''جولیئس سیزر‘‘ پر ایک ڈرامہ بھی لکھا۔
اگست 
سال کا آٹھواں مہینہ۔ اس میں31 دن ہوتے ہیں۔پہلے یہ چھٹا مہینہ تھا کیونکہ تب سال کا آغاز مارچ سے کیا جاتا تھا اور کل 10 مہینے ہوتے یعنی مارچ تا دسمبر۔ وہ اس طرح کہ قمری سال اور شمسی سال کے مہینوں میں فرق ہوتا تھا۔ قمری سال کے تو 12 مہینے ہوتے تھے جبکہ شمسی سال کے10 ماہ بنتے تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے2 مہینوں کا اضافہ کیا گیا جنوری اور فروری۔ یوں شمسی سال میں بھی12 مہینے ہوگئے۔شمسی سال میں اضا فے کے بعد اگست کا نام ایک قدیم رومی شہنشاہ آگسٹس (Augustus) کے نام پر رکھا گیا۔ (اس مہینے میں پہلے29 دن تھے، بعد میں جولیئس سیزر نے2 دن کا اضافہ کرکے31 دنوں کا مہینہ کردیا)۔ پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس کا نام کچھ اور تھا۔ جب اس نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت زیادہ کام کیے تو رومی لوگ اس کے اتنے گرویدہ ہوگئے کہ اسے آگسٹس کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس نام کا مطلب ہے، دانا، دانشمند۔ چنانچہ اس مہینے کو آگسٹس کے نام پر اگست کہا گیا۔
ستمبر 
یہ مہینہ30دن رکھتا ہے۔،لاطینی زبان کے لفظ سیپٹ ( pt Se) سے بنا جس کا مطلب ہے ''ساتواں۔‘‘ اس لیے ستمبر کا مطلب ہے ''ساتواں مہینہ‘‘۔ مگر پھر کیلینڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ نویں درجے پر چلا گیا۔
اکتوبر 
لاطینی میں8 کو اوکٹو (Octo) کہا جاتا ہے۔ اسی سے سال کے آٹھویں مہینے کا نام اکتوبر رکھا گیا۔اکتوبر کا مطلب ہے ''آٹھواں مہینہ‘‘۔ اس میں31 دن ہوتے ہیں۔ پہلے یہ آٹھواں مہینہ کہلاتا تھا اب یہ دسواں مہینہ ہے۔
نومبر 
اس میں30 دن ہوتے ہیں۔ لاطینی زبان میں9 کو نووم (Novum) کہتے ہیں۔ اسی نام سے مہینے کانام نکلا۔ نومبر کا مطلب ہے ''نواں مہینہ‘‘۔ستمبر کو ساتواں، اکتوبر کو آٹھواں اور نومبر کو نواں مہینہ اس وقت کہا گیا جب جنوری اور فروری کے مہینے سال میں شامل نہیں تھے۔بعد میں ان مہینوں کے نام تو وہی رہے البتہ ستمبر نواں، اکتوبر دسواں اور نومبر گیارھواں مہینہ بن گئے۔
دسمبر 
یہ مہینہ31 دن رکھتا ہے۔ لاطینی زبان کی گنتی میں 10 کا مطلب ہے دسم ( Cem De )۔اس لفظ کی مناسبت سے دسویں مہینے کو دسمبر کہا گیا۔اب یہ سال کا بارھواں مہینہ ہے۔
رومی کب کے اپنی اس دیوی دیوتائوں کی مائیتھالوجی کو ترک کر کے عیسائیت اختیار کر چکے۔ اب ان کے نزدیک یہ صرف قصے کہانیوں کی حد تک رہ گیا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ہندو مائیتھالوجی جو رومن سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ،مبہم اور توہمات پر مبنی ہے کہ جن کو پڑھ کر ہی انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جبکہ ہندو اس پر نہ صرف اندھا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ان کے نظریات میں مزید شدت پسندی آتی جا رہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

علی بن عیسیٰ کا شمار عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ امراض چشم کے ماہرتھے۔ خصوصی مشاہدے، تجربے اور تحقیق کے بعد قوتِ بصارت کو قائم رکھنے نیز آنکھوں کیلئے مفید ترین دوائیں، مناسب غذائیں اور پرہیز تجویز کرکے ان کی مکمل فہرست بنا کر پیش کرنے والا، آنکھوں کے امراض اور اسباب و علامات پر بحث کرنے والا، آنکھوں کی حفاظت اور احتیاط کے طریقے بیان کرنے والا ایک ضخیم اور مکمل کتاب کا مصنف اور طبیب حاذق۔ابتدائی زمانہ، علمی خدمات اور کارنامےقابل ترین اور باصلاحیت حکما میں وہ سائنسداں جنہوں نے خاموشی کے ساتھ علمی اور فنی کام کئے ان میں علی بن عیسیٰ بھی ہے۔ بغداد میں اس دانشور نے گوشۂ گمنامی میں زندگی گزاری۔ اس کی زندگی کے حالات سے کتابیں خاموش ہیں لیکن اس کے تحقیقی کام ہمارے سامنے ہیں۔ علی بن عیسیٰ عباسی خلیفہ قائم باللہ کے عہد کا ایک ماہرِ امراض چشم تھا۔علی بن عیسیٰ نے اجزائے جسم میں صرف آنکھ کو منتخب کیا اور جسم کے اس نازک ترین لیکن اہم ترین حصے پر تحقیقی کام کئے۔ اس نے آنکھ کے امراض پر زبردست تحقیقات کیں اور پھر اپنے جملہ ذاتی تجربات اور مشاہدات اور نظریات اپنی ضخیم اور معیاری کتاب تذکرۃ الکحلین میں جمع کردیں۔ ہم یہاں تذکرہ الکحلین سے کچھ معلوم پیش کرتے ہیں۔تذکرہ الکحلین نہایت مفصل اور ضخیم کتاب ہے گویا یہ انسانی آنکھ کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کی تین جلدیں ہیں، کتاب کا بڑا حصہ امراض چشم کے اس ماہر ڈاکٹر کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔آنکھ کا ماہر سرجن:علی بن عیسیٰ ایک ماہر کی طرح اپنی معلومات پیش کرتا ہے۔ اس کی کتاب تذکرہ الکحلین کی پہلی جلد میں آنکھ کے حصوں کی مفصل تشریح اور منافع اعضاء یعنی ہر جزو اور ہر حصے کو بیان کیا ہے اور اس کے فوائد بتائے ہیں جس کو انگریزی میں اناٹومی اور فزیالوجی کہتے ہیں۔ اس ماہر سرجن نیخ آنکھ کی بناوٹ پتلی، حصے، روشنی سب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔دوسری جلد میں آنکھ کی ان بیماریوں کا علاج ہے جو ظاہری طور پر نظر آ جاتی ہیں علی بن عیسیٰ نے آنکھ کی جملہ ظاہری بیماریوں کا بتایا، اسباب اور علامات تفصیل سے لکھے اور مکمل بحث کی۔تذکرۃ الکحلین کی تیسری جلد نہایت اہم ہے۔ اس میں آنکھ کے ان جملہ امراض کو تفصل سے بیان کیا ہے جو آنکھ کے اندرونی حصوں میں کہیں پیدا ہو جاتے ہیں اور جن سے آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے یا آئندہ کبھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن باہر سے دیکھنے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔تذکرہ الکحلین یا آنکھ کی انسائیکلو پیڈیاکتاب تذکرہ الکحلین آنکھ سے متعلق ایک جامع کتاب ہے اسے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں آنکھ سے متعلق جملہ معلومات بڑی تحقیق کے ساتھ جمع کر دی گئی ہیں۔ آنکھ کے تحفظ اور احتیاط کو بتایا گیا ہے، آنکھ کی روشنی اور قوت بصارت کو قائم رکھنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں امراض چشم پر بحث بڑی تفصیل اور تحقیق سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب امراض چشم پر ضخیم اور معیاری ہے اس میں آنکھ سے متعلق جملہ مسائل پر نہایت عمدہ بحث ہے اور کم و بیش آنکھ کی ایک سو تیس بیماریوں کا ذکر ہے اور تفصیل سے ان کے اسباب اور ان کی علامتوں کو بتایا گیا ہے۔کتاب میں 143 ایسی دوائوں اور جڑی بوٹیوں کے نام، ان کی پہچان، ان کے خواص اور اثرات اور فوائد بیان کئے گئے ہیں جو آنکھوں کیلئے مفید ہیں اور ان کو آنکھ کے امراض اور شکایتوں کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔کتاب کے ایک حصے میں احتیاط اور پرہیزی غذائوں کا بھی مفصل بیان ہے۔ آنکھ کے مریضوں کیلئے جو غذائیں مفید اور اچھی ہیں ان کو بتایا گیا ہے اور جن غذائوں سے نقصان ہوتا ہے یا نقصان اور تکلیف کا اندیشہ ہے ان کو بھی لکھ دیا ہے۔ غذا پر اس ماہر مصنف نے اچھی بحث کی ہے اور مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کردیا ہے۔علی بن عیسیٰ آنکھ کاا یک زبردست معالج تھا۔ اس نے دوائوں کے ذریعے امراض کا علاج کیا اور اس فن میں وہ ماہر تھا، اس نے دوائوں کے ذریعے علاج کو ترجیح دی۔ آپریشن کے ذریعے کسی مرض کا دور کرنا اور آنکھ کا آپریشن کرنا اس کے طریق علاج سے باہر تھا۔تذکرۃ الکحلین یورپ میںآنکھ کے سلسلے میں یہ کتاب مفصل، معیاری اور مستند تسلیم کی گئی۔ اس فن میں یہ دوسری قابل ِذکر کتاب ہے۔ 1499ء میںاس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میںشائع ہوااور یورپ کے ڈاکٹروں نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔ دورِ جدید کے دانشوروں نے اسے جب غور سے پڑھا تو اس کی افادیت کا احساس ہوا ۔ 1903ء میں اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اس کے بعد اس مفید ترین کتاب کو 1904ء میں جرمن زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 

موسم بہار

موسم بہار

بہار کا موسم نہ صرف پھولوں اور خوشبوؤں کا موسم ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی دلچسپ اور عجیب حقائق بھی چھپے ہیں۔ آئیے کچھ انوکھی رسومات اور حقائق کے بارے جانتے ہیں۔ بہارSpringکیسے ہوئی؟اس موسم کو انگریزی میں Spring اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پودے زمین سے اچانک(Spring forth) باہر نکلتے ہیں۔ یہ اصطلاح 16ویں صدی میں عام ہوئی۔اس سے پہلے اسےLent یا ''نئی کلیوں کا موسم‘‘ کہا جاتا تھا۔بہاریہ اعتدال (Vernal Equinox)اور علمِ فلکیات بہار کے پہلے دن (20-23 مارچ) کو Vernal equinoxکہا جاتا ہے جب سورج بالکل خطِ استوا کے اوپر ہوتا ہے۔ اس وقت دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن ابوالہول کا مجسمہ سورج کی سمت میں مکمل طور پر سیدھ میں ہوتا ہے۔جاپان میں چیری بلاسم کا جنون جاپان میں ساکورا (چیری بلاسم) کے پھول کو بہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپانی موسمیات کے محکمے پھول کھلنے کی پیشگوئی کرتے ہیں اور لوگ ''ہنامی‘‘(پھول بینی) کے لیے پارکوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ایک درخت کے پھول صرف سات دن تک کھلتے ہیں۔جانوروں پر بہار کا جادو بہار میں جانوروں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرندے 20 ہزار کلومیٹر تک کا ہجرتی سفر کرتے ہیں۔ کچھ ممالیہ جانور (جیسے ریچھ) ہائیبرنیشن سے جاگتے ہیں کیونکہ دن لمبے ہونے سے ان کے جسم میں میلاٹونن ہارمون کم ہو جاتا ہے۔انڈے کا توازن؟ ایک مشہور myth یہ ہے کہ Vernal equinox کے دن انڈے کو عمودی طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بھی دن ممکن ہے، بس صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ اعتدال کی کششِ ثقل سے نہیں بلکہ انڈے کے خول کی سطح کی ہمواری سے تعلق رکھتا ہے۔بہار اور آئس کریم کا تعلق قدیم فارس (ایران) میں بہار کے موسم میں برف اور پھلوں کے شربت کو ملا کر ایک ٹریٹ بنایا جاتا تھا جو آئس کریم کی ابتدائی شکل سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے الٹے موسم جب شمالی نصف کرہ میں بہار ہوتی ہے، تو جنوبی نصف کرہ (جیسے آسٹریلیا، ارجنٹائن) میں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔بہار اور انسانی موڈ سورج کی روشنی میں اضافہ انسانی دماغ میں سیروٹونن (خوشی کا ہارمون) بڑھاتا ہے جس سے لوگ زیادہ متحرک اور خوش نظر آتے ہیں۔ قدیم رومی اسے ورنا لٹرجیا(بہار کی دیوانگی) کہتے تھے۔بہار اور الرجی کا تعلق کیا آپ جانتے ہیں کہ بہار میں نکلنے والے پولن صرف پھولدار پودوں سے نہیں بلکہ زیادہ تر درختوں (جیسے دیودار، چیڑ) اور گھاس سے آتے ہیں۔ دنیا بھر میں 10سے 30 فیصدلوگ پولن الرجی (Hay fever) کا شکار ہوتے ہیں۔دنیا کی بہاریہ رسومات ٭ہولی (بھارت): رنگوں کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ ٭کوپرز ہِل چیڑولنگ (انگلینڈ): ایک پہاڑی سے پنیر کا ڈھیر لڑھکایا جاتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ٭سونگکران (تھائی لینڈ):دنیا کا سب سے بڑا پانی کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔   

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

یہ مشروب ان لوگوں کے لیے ہے جو صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ادرک پیٹ پھولنے اور گیس کا عارضی علاج ہے۔ترکیب: یہ مشروب صرف تین اجزا سے بنتا ہے، یعنی ادرک کا جوس، پروفیشنل لائم سیزننگ پاؤڈر اور پانی۔ یہ ملاپ ذائقہ اور پیٹ دونوں کے لیے آئیڈیل ہے۔خوریشی فسنجان اجزاء:چکن ایک عدد، وزن ڈیڑھ کلو( صاف کرواکے ثابت رکھیں اور کٹ لگوالیں)،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،پیاز ایک بڑی سائز کی ( باریک کٹی ہوئی)،اخروٹ گری باریک پسی ہوئی آدھی پیالی ،انار کا جوس ڈیڑھ پیالی ،برائون شکر تین کھانے کے چمچ ،دار چینی کے ٹکڑے دوعدد، نمک حسب ذائقہ ،لیموں کا عرق ایک کھانے کا چمچ، آئل دوکھانے کے چمچترکیب : چکن اچھی طرح سے دھوکر بالکل خشک کرلیں اور نمک لگاکر رکھ دیں۔ ایک بڑے اور ذرا گہرے فرائنگ پین میں بناسپتی گھی گرم کریں، پھر چکن کو برائون تل کر نکال لیں۔ پھر اسی فرائنگ پین میں پیاز ڈال کر ہلکی گلابی کرلیں۔ پھر انار کا جوس، دار چینی کے ٹکڑے، اخروٹ گری، برائون شکر ڈالر کر تھوڑی دیر پکالیں، بالکل ہلکی آنچ کردیں۔ چکن ڈال کر ڈھکن ڈھانک دیں پھر ڈھائی گھنٹے تک پکنے دیں۔ اس دوران دوتین مرتبہ چمچہ ضرور چلائیں ۔ جب بالکل پک جائے تو چکن کو ایک ڈش میں رکھیں، اوپر سے بچی ہوئی ساس ڈال دیں، لیموں کاعرق چھڑک دیں، باریک کی ہوئی اخروٹ کی گری ڈال دیں۔ اس کو فوراً ہی گرم گرم چاولوں کے ساتھ پیش کریں۔ 

حکایت سعدیؒ :حسد

حکایت سعدیؒ :حسد

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔ یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ وفا شعاری، دیانت داری اور شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بخیر و خوبی انجام دیتا تھا۔قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدرو منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انہوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابلِ اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق خراب رائے رکھتے ہیں۔ نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعثِ حسد ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک درس یہ دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی خوبی اور ہنر ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا۔انہوں نے دوسری بات یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے لاپروا نہیں رہنا چاہیے۔ حاسد کسی بھی وقت کوئی سازش تیار کر سکتے ہیں لہٰذا چوکنا رہنا لازم ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے فلاں جرائم کیے ہیں تو تحقیق اور سوچ بچار کیے بغیر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بے گناہ کو سزا دینا کسی طور درست نہیں۔ اس لیے حاکموں کوالزامات کی جانچ پڑتال کر لینی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

چڑیوں کا عالمی دن20مارچ کو دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماحو لیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چڑیوں پر ہونے والے اثرات کو اجاگر کرنا اور ان کیلئے بہترین ماحول فراہم کرنا ہے۔اس دن کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔جیوٹن کے ذریعے سزائے موت 1792ء میں آج کے دن فرانسیسی حکومت نے '' جیوٹن‘‘ نامی دوا کے ذریعے سزائے موت کو قانونی حیثیت دی۔ اس سزائے موت کا نام اس دوا کے مؤجد ڈاکٹر جوزف اگنیس جوئیلوٹن کے نام پر ہی ''جیوٹن‘‘ رکھا گیا۔اس دوا کا پہلی مرتبہ استعمال 25 اپریل 1792ء کو کیا گیا۔ سزائے موت دینے کا یہ طریقہ قدیم وقتوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ بوسٹن میں 349عمارتیں جل گئیں 1970ء میں آج کے دن امریکی ریاست میسا چوسٹس کے شہر بوسٹن میں بہت بڑی آگ لگی ۔ یہ آگ بوسٹن سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے شہر کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ا س آگ نے واشنگٹن سٹریٹ اور فورٹ ہل کے درمیان349عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ارجنٹائن میں زلزلہ20مارچ 1861ء کو ارجنٹائن کے علاقے منڈوزا میں شدید زلزلہ آیا۔ آدھی رات کے قریب آنے والے اس زلزلے کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی۔اس کا مرکز زمیں سے30کلومیٹر گہرائی میں واقع تھا۔اس زلزلے نے ارجنٹائن کے صوبائی دارالحکومت مینڈوزا کو تباہ و برباد کردیا۔اس زلزلے میں تقریباً 4ہزار شہری ہلاک اور800کے قریب زخمی ہوئے۔ 

چین کی بڑی تین مساجد

چین کی بڑی تین مساجد

نیو جی مسجد، بیجنگ خیال کیا جاتا ہے کہ چین میں اسلام ساتویں صدی میں متعارف ہو چکا تھا تاہم بیجنگ میں پہلی مسجد Tangسلطنت کے دور حکومت میں 996ء میں تعمیر ہوئی جو نیو جی مسجد کہلاتی ہے۔ ٹانگ خاندان کا دور حکمرانی 960ء سے 1279ء تک رہا۔ بیجنگ شہر میں یہ مسجد آکس سٹریٹ پر واقع ہے۔ چینی میں نیو(Niu) کا مطلب ہے بیل یا گائے اور جی (Jie)کا مطلب ہے سٹریٹ۔ اس لئے اس مسجد کا نام نیو جی (Niu Jie)پڑ گیا۔ یہ چین کی سب سے پرانی مسجد ہے۔ آغاز سے لے کر آج تک اس میں مرمت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہا اور آج یہ اپنے خوبصورت رنگ و روغن کی وجہ سے نمایاں ہے۔ اس مسجد کا کل رقبہ ڈیڑھ ایکڑ ہے جبکہ اندرونی رقبہ64600مربع فٹ ہے۔ اس میں ایک ہی وقت میں ایک ہزار نماز نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد بیجنگ کے ضلع Xuanwuمیں واقع ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس وقت بیجنگ میں مسلمانوں کی تعداد 210,000ہے۔ شمالی چین میں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس وقت چین میں 35ہزارمساجد ہیں اور صرف بیجنگ شہر میں چھوٹی بڑی مساجد کی کل تعداد 68ہے۔ نیو جی مسجد 1442ء میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور پھر تنگ عہد میں 1696ء میں اس مسجد کے سات سو سال مکمل ہونے پر اس میں توسیع کی گئی۔ اب پانچوں وقت یہاں باقاعدگی سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ صبح اور شام کے وقت نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کو یہ تاریخی مسجد دیکھنے کی اجازت ہے لیکن انہیں امام کی اجازت لینا پڑتی ہے لیکن جب مسجد میں نماز جاری ہو تو انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں۔ غیر مسلم مرد و خواتین کا مسجد میں داخلے کے وقت مناسب لباس میں ہونا لازمی ہے۔ژیننگ شہر کی مسجدیہ مغربی چین میں صوبہ چنگھائی کا دارالحکومت ہے اس کی آبادی 22لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ قدیم شہر ماضی کی شمالی شاہراہ ریشم پر واقع تھا۔ پہلے یہ صوبہ گانسو کا حصہ تھا۔1928ء میں اسے صوبہ چنگھائی میں شامل کیا گیا۔ یہاںڈونگو آن سٹریٹ میں تاریخی ڈونگو آن مسجد واقع ہے۔ژیننگ میں بدھوں کی مشہور خانقاہ ''تائر‘‘ نامی ہے۔ یہ شہر دریائے ہوانگ شوئی کی وادی میں واقع ہے اور بذریعہ ریل تبت کے صدر مقام لہاسہ اور گانسو کے صدر مقام لانژو، سیان اور شنگھائی سے ملا ہوا ہے۔ ژیننگ سے ستر اسی کلو میٹر مغرب میں چنگھائی نامی ایک بڑی جھیل ہے جس سے صوبے کا نام موسوم ہےکولون مسجد، ہانگ کانگ ہانگ کانگ کی کولون مسجد ان میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد ایک اسلامی مرکز بھی ہے۔1896ء میں مقامی مسلمانوں کی دینی ضروریات کے پیش نظر یہ مرکز قائم کیا گیا۔ پھر تقریباً 90سال بعد 1986ء میں مسجد نئے سرے سے تعمیر کی گئی۔ اس میں روزانہ پانچوں وقت کی اذان اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسجد میں3500نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں یہ ہانگ کانگ میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد ناتھن اور ہے فونگ روڈ کے سنگم پر واقع ہے، اس کے قریب ہی تھوڑے فاصلے پر کولون پارک ہے۔ اس مسجد کی عمارت میں کچھ نقائص اس وقت سامنے آئے جب اس کے زیر زمین (انڈر گرائونڈ) ماس ٹرانزٹ ریلوے بچھائی جانے لگی۔ گو بعد ازاں ماس ٹرانزٹ ریلوے نے معاوضہ ادا کر دیا اور مسلمانوں کے عطیات سے مسجد کی مرمت کر دی گئی مسجد کی دوسری منزل پر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ مسجد کا گنبد بالائی منزل سے 30فٹ بلند ہے اور اس کا قطر 16.5فٹ ہے۔ دوسری منزل کا ایک حصہ خواتین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔