قصہ شیر پنجاب کا....
اسپیشل فیچر
آج ہم آپ کو قصہ سنائیں گے اس سچے ، کھرے فنکار کا جسکا ایک عالم گرویدہ تھا۔کیساتھا وہ فنکار ۔۔۔؟
لمبے بال۔۔۔ دیہاتی ڈیل ڈول۔۔۔ بے ساختہ انداز۔۔۔ہاتھ میں چمٹا ۔۔۔ گلے میں جُگنی کا راگ رنگ ۔۔۔ لہجے میں گھن گرج ۔ ۔ ۔ دل میں پنجاب کی محبت ۔۔۔
جس کے گائے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی اتنی ہی تازہ ۔۔ اتنی ہی مدھر۔۔اتنی ہی دل کو چھونے والی۔۔مٹی سے جڑی ہے۔
جی ہاں ، کچھ ایسے ہی تھے عالم لوہار۔۔۔ سماعتوں پر وجد طاری کرنے والے۔۔۔
چمٹے کی منفرد دھن پر سننے والوں کو مست کردینے والے۔۔۔
بے مثل و بے بدل لوک فنکار عالم لوہار یکم مارچ 1928 ء کو گجرات کے نواحی گاؤں آچھ گوچھ میں پیدا ہوئے،خاندان کا پیشہ تو لوہے کو تپا کر سرخ کرنا اور ہتھوڑوں سے پیٹ کر اشیاء بنانا تھا پرعالم لوہار نے سب بدل ڈالا، لوہے کی جگہ انسانی جذبات کو تپانے اور ہتھوڑے کی بجائے چمٹے اوراپنی زبان کے سروں سے عام انسانوں کے جذبات کو نئے انداز میں ڈھالا۔ کم عمری سے ہی گلوکاری کا آغازکیا، چمٹے کو بطور میوزک انسٹرومنٹ استعمال کیا اور دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ دوستوں کی محفلوں اور گائوں کی چوپال سے شروع ہوئی ان کی گائیکی میں نعت، صوفیانہ کلام، پنجابی روایتی لوک داستانیں، گیت، پنجابی ماہیے اور بولیاںشامل ہیں۔ انہوں نے قصوں میں ''مرزا صاحبہ، ہیر رانجھا، سسی پنوں، پرن بھگت، شاہ نامہ کربلا ،قصہ یوسف اور دوسرے تاریخی واقعات کو ترنم کے ساتھ پڑھا جن کو بہت پسند کیا گیا۔ان کے بول کی ادائیگی، الفاظ کا تلفظ، جذباتی اتار چڑھائو،چمٹے کی ہم آہنگی، یہ تمام عناصر مل کر ایسا ماحول پیدا کر دیتے تھے کہ سامعین اپنے آپ کو اس ماحول اور کیفیت کا حصہ سمجھنے لگتے۔ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو جگانے کے علاوہ وہ مختلف تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ہیر وارث شاہ کے کلام نے انہیں شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا، انہوں نے ہیر وارث شاہ کو موسیقی کی 30 سے زائد اصناف میں گا کر ایسا ریکارڈ بنایا جو آج بھی پنجاب کی مٹی میں خوشبو کی مانند رچا بسا ہے۔موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں نے ''جگنی‘‘ نہ سنی ہو، ایسا ممکن نہیں عالم لوہار نے جْگنی سے شہرت کی نئی بلندیوں کو چھواان کی گائی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے مداح آج بھی اس کے سحر سے نہیں نکل سکے ۔ جگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنیوالے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا ۔جْگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی جْگنی کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جْگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی۔بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی ان کے مداح تھے اور ان کو خصوصی دعوت پر بلا کر براہ راست سنا اور خوب سراہا ۔ صدر ایوب خان بھی انکے مداح تھے انہوں نے عالم لوہار کو '' شیر پنجاب‘‘ کا خطاب دیا۔جگنی کے علاوہ بھی انہوں نے متعدد منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں '' دل والا دکھڑا کسے نوں نئی سنائی دا، واجاں ماریاں بلایا کئی وار، مٹی دا باوا، باغ بہاراں تے گلزاراں، اول نام اللہ دا، اے دھرتی پنج دریاواں دی، جس دن میرا ویاہ ہووے گا،موڈا مار کے ہلا گئی ،میں نیل کرائیاں نیلکاں ‘‘ سمیت کئی قصے آج بھی پسندیدہ ترین ہیں۔
عالم لوہار ایسے لوک فنکار تھے کہ سننے والے کو خواہ اسکا تعلق کسی بھی زبان و ملک سے ہو اُسے کلچرل ہم آہنگی اور جذباتیت میں اکٹھا کر دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جو لوگ پنجابی زبان اور ان کے کلام کے پس منظر سے نا آشنا ہوتے وہ بھی انہیں داد تحسین دینے پر مجبور ہو جاتے ۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ انسانی جذبات اور موسیقی، لفظوں کی قید سے ماورا ہوتے ہیں۔ لفظ سمجھ نہ بھی آئیں تو بھی موسیقی انسان کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے اور زبان سے عدم شناسائی کے باوجود انسان موسیقی سے محظوظ ہو سکتاہے۔
لوک گائیکی سے مراد ایسی موسیقی اور آواز ہے جو اندر سے ابھرے اور سننے والے کے اندر رچ بس جائے ،لوک گائیک اسی بنا ء پر ہمیں اپنی ذات کا حصہ محسوس ہوتے اور سدا بہار رہتے ہیں برصغیر پاک و ہند میں مقامی سازوں کیساتھ موسیقی اور گلوکاری کے میدان میں نام کمانے والوں میں لوک فنکاروں کو بہت اہمیت اور مقام حاصل ہے اورعالم لوہارلوک گائیکی کے درخشاں ستاروں کے جھرمٹ میں اپنی پہچان آپ ہیں ۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پنجاب اور پنجابی ثقافت کے چاہنے والے بستے ہیں وہ عالم لوہار سے بھی خاص محبت رکھتے ہیں ۔ پنجابی زبان کے بولنے والے، آیا کہ وہ پاکستان کے پنجاب کے ہو ں یا بابا گورو نانک کے خالصوں میں سے ہوں، آسٹریلیا سے کینیڈا تک جہاں بھی کوئی شخص پنجابی زبان سے آشنا ہے وہ عالم لوہار کا نام اور کام جانتا ہے،انہیں سانجھے پنجاب کا ''کوہِ نور ہیرا ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ۔یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ملکہ برطانیہ بھی عالم لوہار کی مداح تھیں ، یہ اعزاز بھی عالم لوہار کو حاصل ہوا کہ 1977ء میں انہیں ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کے 25 سال مکمل ہونے کی خوشی میں منائی جانے والی تقریبات کے سلسلے میں خصوصی طور پرپاکستان سے مدعوکیا گیا ۔ ''شیرِپنجاب‘‘ کہلائے جانے والے عالم نے دولت مشترکہ ممالک کے تمام گلوکاروں کے درمیان اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایااور اس مقابلے میں بہترین پرفارمنس کا میڈل اپنے نام کیا ۔
ایک ریڈیو انٹرویو میں عالم لوہارنے اپنے بارے میں دلچسپ قصہ کچھ اس طرح سنایا تھا کہ '' ہمارے گاؤں سے لوگ مزدوری کیلئے لاہور جایا کرتے تھے، کسی نے خواہش ظاہر کی کہ ہم نے کسی دیہاتی فنکار کو سننا ہے، انہوں نے میرا بتایا اور مجھے میوہ منڈی میں موسیقی کے پروگرام میں بلالیا۔ پرفارمنس کے بعد جب مجھ سے کسی نے پوچھا، توے پرریکارڈنگ کرواؤ گے؟ جواب میں ، میں نے کہا وہ گرم توے تو نہیں ہوتے،ویسے تومیں لوہارہوں توے بنا لیتا ہوں۔‘‘ پوچھنے والے کا اشارہ گراموفون کے ریکارڈ کی جانب تھا جو دکھنے میں توے جیسا ہی ہوتا ہے۔عالم لوہار نے صرف 15 سال کی عمر میں اپنا پہلا کلام ریکارڈ کروایا۔ اس کے بعد ریڈیو جاپہنچے اور پھرپیچھے مڑ کرنہ دیکھا۔میاں محمد بخشؒ، بابا بلھے شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، شاہ حسینؒ اور سلطان باہوؒکا کلام گانے والے عالم لوہار نے نعت خوانی، کافی، سیف الملوک، ماہیے،بولیاں، قصے( مرزا صاحباں، ہیر رانجھا، سسی پنوں، قصہ یوسف اور دیگر) کو بھی ایسے پیش کیا کہ سننے والے کسی اور عالم میں کھوجاتے۔
چمٹے سے منفرد دھنیں بکھیرنے اور اپنی آواز کا جادو جگانے والے عالم لوہار کو ہم سے بچھڑے 4دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کا نام موسیقی کی تاریخ میں ہمیشہ انکے لباس کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا۔فنی خدمات کے صلے میں انہیں تمغۂ حسن کارکردگی سمیت متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ان کا انتقال 3 جولائی 1979 ء کو ٹریفک حادثے میں ہوا انہیں لالہ موسیٰ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کے انتقال کے ساتھ ہی پنجاب کی لوک موسیقی کا ایک درخشاں اور منفرد باب یوں سمجھئے کہ بند ہو گیا لیکن انکے گائے پنجابی گیت آج بھی اہل ذوق کے کانوں میں رس گھولتے ہیں،''شیر پنجاب ‘‘ کا قصہ ابھی جاری ہے کیونکہ ان کے بیٹے عارف لوہار اپنے والد کے فن کو پوری تندہی سے زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں۔