مر کے بھی چین نا پایا تو کدھر جائیں گے ۔۔۔۔ ذوق کے ساتھ ’’ بد ذوقی‘‘ کیوں۔۔۔؟
اسپیشل فیچر
آئیے آج اہلِ ذوق کو ابراہیم ذوق کیساتھ ''بد ذوقی ‘‘ کا قصہ سناتے ہیں یہ قصہ تاریخ کاحصہ اور اہلِ ذوق کیلئے بڑا صدمہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی جو قصہ ہم آپ کی نذر کرنے جا رہے ہیں اسے جان کر آپ یہ ماننے پر مجبور ہو نگے کہ انتہا پسندی کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ ۔ ابھی چند روز قبل بھارت کی راجدھانی دہلی میں ''جنتا دربار ‘‘ کے زیر اہتمام شمال مشرقی دہلی کے کبیر نگر میں ایک ادبی شعری نشست کا اہتمام ہوا جسکی صدارت احمد علی برقی اعظمی اور نظامت سرفراز احمد فراز دہلوی نے کی ۔ اس ادبی نشست میں شعراء نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپنے اپنے کلام سے نوازا ، اسی نشست میں ایک شعر یہ بھی پڑھا گیا
سازشیں ہیں بہت مٹانے کی
پھر بھی اردو زبان باقی ہے
نشست کی باقی تمام تفصیل اور شاعری کو چھوڑتے ہوئے صرف اس ایک شعر کی سمت میں آگے بڑھیں اور اس شعر میں سے بھی صرف ایک لفظ ''سازشیں ‘‘ پر غور کریں تو دہلی کے ان دنوں کیا حالات ہیں سب سمجھنا آسان ہو جائیگا ۔ تختِ دہلی پہ انتہا پسندوں کا راج ہے اس راج میں جہاں اقلیتیں اور مسلمان غیر محفوظ ہوچکے ہیں وہیں اردو زبان اور مسلم شعراء جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ان کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں ۔ بابری مسجد ،لال قلعے ،تاج محل اور علی گڑھ یونیورسٹی تک پہنچنے والی انتہا پسندی کی لہر شیخ محمد ابراہیم جن کا تخلص ذوق تھا ان کی قبر کی بے حرمتی تک جا پہنچی ہے ۔
ذوق کی ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن نئی نسل کیلئے اتنا بتا دینا کافی ہے کہ شاعری کی دنیا کا یہ بے تاج بادشاہ ایک غریب سپاہی شیخ محمد رمضان کا بیٹا تھا ، 1789ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ والد نے ابتدائی تعلیم کیلئے حافظ غلام رسول کے سپرد کیا حافظ صاحب شاعر بھی تھے انکے ہاں شعر و سخن کی محفلیں خوب سجا کرتی تھیں ، اس ماحول کا ذوق کی تربیت اور طبیعت پر خاصا اثر ہوا کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے ۔ ذوق اپنا کلام حافظ صاحب کو دکھاتے اور ساتھ ہی شاہ نصیر جو کہ اس دور کے مقبول شاعر تھے ان سے اصلاح بھی لیتے ۔ ذوق کو شاہ نصیر کا انداز بہت پسند تھا یہی وجہ ہے کہ انکی شاعری میں شاہ نصیر کا رنگ ملتا ہے۔شاہ نصیر ذوق کی شاعرانہ صلاحیتوں سے خائف ہو گئے اور حوصلہ شکنی شروع کر دی ۔ ذوق نے بھی اپنے استاد کے مزاج کی تبدیلی کو بھانپ لیا اور ان سے علیٰحدگی اختیار کر لی ۔ذوق نے استاد کو چھوڑا تھا لیکن شاعری نہ چھوڑی جلد ہی ان کی مقبولیت عام ہو گئی اور صرف 20سال کی عمر میں استاد کا درجہ حاصل کر لیا ۔ بہادر شاہ ظفر جو ابھی ولی عہدتھے تخت شاہی پر نہ بیٹھے تھے کہ ذوق کی شاگردی اختیار کر لی اور 4روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کر دی ۔ بہادر شاہ ظفر جب بادشاہ بنے تو ذوق نے انہیں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا دربار سے ذوق کو ''خاقانی ہند ‘‘ اور''طوطیٔ ہند‘‘کا خطاب دیا گیا، سلطنت کا ملک الشعراء بھی مقرر کیا گیا اورتنخواہ4روپے سے بڑھا کر پورے 100روپے کر دی گئی ۔ ذوق نے16نومبر 1854ء میں اس دنیا کو خیر باد کہا ۔
ذوق اپنے زمانے کے ان اہم شعراء میں سے ایک ہیں جن کو سودا کے بعد اردو کا دوسرا بڑا قصیدہ نگار مانا جاتا ہے ، عظیم شاعر مرزا غالب سے انکی رقابت بھی مشہور ہوئی لیکن آج اس بڑے شاعر کے مزار کیساتھ دہلی میں کیا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں شائد ہی کسی نے سوچا ہو ۔ بھارت میں ذوق جیسے شاعر کی آخری آرام گاہ اردو دشمنی اور مسلمانوں سے تعصب کی نذر ہورہی ہے۔16 نومبر 1854ء کو وفات پانے والے ابراہیم ذوق کا مقبرہ دہلی میں ہے جس کے احاطے میں پہلے تو دانستہ یا نادانستہ طور پر بلدیہ نے بیت الخلا ء تعمیر کر دیا، علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور باشعور حلقوں کے توجّہ دلانے اور شدید احتجاج پر بیت الخلاء بند کرکے مقبرہ مقفل کردیا ۔ پھر مقبرے کا احاطہ مغل شہنشاہ کے استاد اور اردو کے مشہور شاعر کی یادگار کے طور پر آثارِ قدیمہ کے قبضے میں چلا گیا، مگر دیکھ بھال کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا ۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق کی قبر پر جانے والے کسی زمانے میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک پہاڑ گنج سے متصل قبرستان تک پہنچا کرتے تھے اور گلیوں سے ہو کر مزار تک پہنچتے تھے۔ اب پرانی رہائش گاہیں ہوں یا مدفن، اکثر کا نشاں تک باقی نہیں رہا۔ اس علاقے میں تعمیرات تجاوزات میں بدل چکی ہیں اور گلیاں تنگ ہیں۔ اسی قبرستان سے اب چینوٹ بستی کی طرف جائیں تو تنگ گلیوں سے نکلتے ہوئے ذوق کے مزار تک جایا جاسکتا ہے۔اس مزار کا داخلی دروازہ عام طور پر مقفل رہتا ہے۔ سرخ بوسیدہ دیوار کے احاطے میں ذوق کا مزار اب محفوظ ہے، لیکن یہاں بیت الخلا ء کی تعمیر اور اب بھی مزار کی دیکھ بھال کی طرف سے غفلت اور بے نیازی اُن اہلِ ذوق کیلئے باعثِ تکلیف ہے جوسرحد کے دونوں جانب بٹے ہوئے ہیں، لیکن مشاہیرِ ادب کی یوں بے توقیری اور ان کی مدفن کی طرف سے ایسی بے نیازی سبھی کے لیے باعثِ رنج و دل آزار ہے۔
1920ء کے عہد میں حکیم اجمل خان اور دہلی کے چند لوگوں نے مزارِ ذوق کے احاطے کی مرمت کرائی۔1947ء کے فسادات میں ذوق کے مزار کا کتبہ غائب ہوگیا۔ اس کے بعد مزار پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ 1950ء میں ذوق کے مزار کی مرمت اور بحالی کی پھر کوشش ہوئی 60 ء کی دہائی میں بلدیہ نے ان کے مزار پر بیت الخلاء تعمیر کر دیاجسے منہدم کرانے کی کوششیں 4 دہائیوں تک جاری رہیں۔ بات اندرا گاندھی تک پہنچی،خطوط اور احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑی بڑی شخصیات نے کوششیں کیں مگر انتہا پسندوں سے جیتنا آسان ثابت نہ ہوا۔ معاملہ عدالتِ عظمیٰ تک پہنچا اور پھر 1998ء میں ذوق کے مزار کی بحالی کا فیصلہ آیا، محکمہ آثارِ قدیمہ نے غالب کے مزار کی طرح ذوق کے مزار کی نگرانی کی ذمہ داری لے لی لیکن یہ ذمہ داری مقبرے کو مقفل رکھ کر نبھائی گئی۔مقامی لوگوں کو بھی ذوق کے بارے میں زیادہ پتا نہیں۔ زیادہ تر افراد روزگار کی وجہ سے مزار کے حصّوں میں آباد ہو گئے کئی کارخانے بن گئے اور ان کارخانوں میں کام کرنیوالے بتاتے ہیں کہ کھڑکی سے ذوق کا مزار نظر آتا ہے جو کہ زیادہ تر بند رہتا ہے۔ذوق کے مزار سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر غالب کا مزار ہے جو کھلا رہتا ہے یہاں تھوڑی رونق بھی رہتی ہے، اس معاملے میں غالب زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے لیکن ذوق کیساتھ ''بد ذوقی ‘‘ آج بھی جاری ہے ، مزار کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہو چکی ہے ، محکمہ آثار قدیمہ بھی بلدیہ جیسا سلوک کر رہا ہے جبکہ آجکل انتہا پسند قبر کی بے حرمتی بھی کر رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ذوق کیساتھ اس قدر ''بے ذوقی ‘‘کیوں شائد انہی دنوں کیلئے ذوق نے لکھا تھا کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے