آخرت کا سامان
حاجی صاحب نے دودھ کی دکان پر بیٹھے ملازم کو سمجھایا کہ، اس دودھ میں11 کلو پانی ملانا، اور یہ جو ساتھ والی گلی سے ماسی رحمتے جو دودھ لینے آتی ہے، اس کو آج بنا ء پیسے لیے دودھ نہیں دینا۔ملازم نے پوچھا کونسی ماسی رحمتے تو حاجی صاحب نے سمجھاتے ہوئے بتایا وہ فضل حسین کی بیوہ جس کا بیٹا پچھلے مہینے وفات پاگیا وہ۔۔ اس سے پیسے لیے بناء دودھ نہیں دینا کل کے بھی پیسے رہتے ہیں آج پیسے نہ دے تو بھگا دینا، میں ذرا چوک میں جو محفل میلاد کا اکٹھ ہوا ہے اس میں شرکت کر کے حاضری لگوا آؤں۔ حاجی صاحب دکان سے نکلے ہی تھے،تو پیچھے سے نظام دین نے آواز دی کہ حاجی صاحب کہاں جا رہے ہیں، تو حاجی صاحب نے کہا نظام دین چوک میں جو اکٹھ ہورہا ہے وہاں حاضری لگوانے جا رہا ہوں شاید یہ ادا ئے حاضری پسند آجائے تو بخشش کا سامان ہو جائے نظام دین نے کہا اکٹھے چلتے ہیں میں بھی ادھر ہی کی طرف جا رہا ہوں،نظام دین اور حاجی صاحب ایک ساتھ چوک کی طرف چل دئیے تو حاجی صاحب نے دریافت کیا سنائیں گھر بار سب ٹھیک ہے، تو نظام دین نے بتایا کہ اللہ کی بہت مہربانی ہے ایک بیٹا تو خیر سے باہر یورپ میں سیٹ ہوگیا ہے مہینے کا 2 لاکھ روپیہ بھیج رہا ہے مولا کابڑا ہی کرم ہے، کوئی مہینہ ایسا نہیں گیا جب بیٹا یورو بھیجنا بھولا ہو۔
ابھی حاجی صاحب اور نظام دین باتیں کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ چوک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ رفیق سموسے والے کی آواز پر رک گئے، اس سے سلام دعا کی تو رفیق کے دریافت کرنے پر اس کو بتایا اور دعوت بھی دی کہ کاروبار تو دنیا میں چلتے رہتے ہیں آؤ ہمارے ساتھ تم بھی حاضری لگوا کر اپنی آخرت کا سامان کر لو، تو رفیق بولا کیوں نہیں بس 5 منٹ رکیں پھر ساتھ ہی چلتے ہیں۔ وہ دونوں رک گئے تو حاجی صاحب نے بتایا کہ جلدی میں کھانا بھی نہیں کھایا بھوک بھی محسوس ہو رہی ہے، رفیق 2 سموسے پلیٹ میں ڈال دے رفیق نے حاجی صاحب کے قریب ہو کر ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بتایا،حاجی صاحب آپ ہی کی دکان ہے لیکن یہ سموسے آپ کے کھانے کے نہیں یہ کل کے ہیں۔ حاجی صاحب نے مسکراہٹ کے ساتھ رفیق کے اس خلوص کا شکریہ ادا کیااور پھر تینوں چوک کی طرف چل پڑے تھوڑی دور ہی گئے تو ایک رکشے والا ان کے پاس آکر رکا ۔ حاجی صاحب نے کہا او شیدے سنا کیا حال ہے کہاں جا رہا ہے؟ شیدے نے کہا چوک میں آج اکٹھ ہے وہاں جا رہاہوں ۔اس کی بات سن کر سب نے یک زبان ہو کر کہا یہ ہوئی نہ بات ہم بھی وہیں جا رہے ہیں۔
شیدے نے بلا تکلف کہا پھر پیدل کیوں رکشے پر سوار ہوں کچھ ثواب کا موقع ہم کو بھی کمانے دیں۔تینوں شیدے کے ساتھ رکشے پر سوار ہوئے اور شیدے نے رکشے کو منزل کی طرف بڑھانا شروع کر دیا، ابھی بمشکل 2 منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک آدمی سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہوا تھا، اس نے رکشے کو روکا وہ کافی گھبرایا ہوا تھا ۔رکشہ رکنے پر اس نے بتایا کہ میری بیوی حاملہ ہے ڈلیوری کا وقت ہے تمام سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے کوئی ایمبولینس کوئی گاڑی ادھر تک پہنچ نہیں پا رہی، نہ کوئی رکشہ مل رہا ہے آپ کو آتا دیکھا تو میری جان میں جان آئی میری بیوی بہت تکلیف میں ہے میری مدد کریں شہر کے تمام راستے بند ہیں رکشے پر اس کو گلیوں کے بیچو بیچ ہسپتال منتقل کر دیں۔شیدے نے صاف الفاظ میں انکار کیا اور حاجی صاحب، فضل دین اور رفیق نے بھی اس انکار میں مزید پختگی پیدا کی کہ ہم جس کام کیلئے جا رہے ہیں اس کیلئے یہ دنیاوی کام کوئی معنی نہیں رکھتے۔اس شخص نے منت کرنے والے انداز میں کہا کہ میری بیوی شدید تکلیف میں ہے مہربانی کریں تو شیدے کو غصہ آگیا اور باقی تینوں نے بھی شدید رد عمل دیا۔ شیدے نے رکشے کو آگے بڑھا دیا۔
کتنے افسوس کی بات ہے ماہ رمضان میں جب شیطان کو قید کر لیا جاتا ہے اور تمام مسلمان روزے رکھتے ہیں اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو ایسے بے ایمان لوگ ناپ تول میں کمی، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ، ذخیراندوزی اور مہنگائی کر کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور پورے معاشرے کیلئے عذاب بن جاتے ہیں۔ جن کو سیدھے راستے پر لانے کیلئے حکومتی ٹیمیں نا جانے کتنا سرمایہ خرچ کرکے کارروائیاں کرتی ہیں اس سرکاری جمع خرچ کا اثر بھی معاشرے پر ہی پڑتا ہے جسے عام آدمی ٹیکس کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ حدیث پاک واضح ہے کہ '' ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘