چین میں غار جیسی بل کھاتی لائبریری
کون کہتا ہے کہ کتابیں مر رہی ہیں؟ کس نے کہا ہے کہ لائبریوں کا دور ختم ہونے والا ہے ؟
یونیسکو نے 123ممالک کی مدد سے جب ڈیٹا اکھٹا کیا تو معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے ۔2010ء سے پہلے کئی برسوں میں ان کی مجموعی تعداد22لاکھ سالانہ ہوا کرتی تھی جو 2010ء میں بڑھ کرچار لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔اس سال صرف امریکہ میں3.5 لاکھ ٹائٹلز شائع ہوئے جبکہ چین میں امریکہ سے چند سو کتب کم شائع ہوئی تھیں۔تاہم 2015ء میں امریکہ میں 3.30لاکھ اور چین میں تعداد بڑھ کر 4.70لاکھ ہو گئی۔چین نے امریکہ میں کم ہونے والی تعداد کے فرق کو دور کر دیا۔
دنیا میں آج بھی عالیشان لائبریاں موجود ہیں۔ برٹش لائبریری میں 17کروڑ سے 20کروڑ تک کتب موجود رہتی ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی ، امریکہ کی لائبریری میں بھی 17کروڑ کتب ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی لائبریری شنگھائی (چین )میں ہے جہاں 5.6کروڑ کتب رکھی گئی ہیں۔ نیویارک سٹی (امریکہ) کی لائبریری میں5.5 کروڑ ، اوٹاوا( کینیڈا) کی لائبریری میں 5.40کروڑ، ماسکو (روس) کی لائبریری میں 4.75 کروڑ، ٹوکیو (جاپان) کی لائبریری میں 4.41 کروڑ، کوپن ہیگن( ڈنمارک )کی لائبریری میں 4.25 کروڑ ، بیجنگ (چین)کی لائبریری میں 3.77 کروڑ ، سینٹ پیٹرز برگ( روس )کی لائبریری میں 3.65 کروڑ ، جرمنی کی لائبریری میں3.61کروڑ اور میڈرڈ (سپین) کی لائبریری میں 3.31کروڑ کتب رکھی گئی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی عالی شان لائبریریوں کی تعداد کم نہیں ہوئی ۔
یہاں کیوں نہ میں ایک ایسی بات بتا تا چلوں جسے سن کر آپ حیران رہ جائیں گے ۔ آپ سوچیں گے کہ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہوتا تھا؟ اسی سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ہم علم (اور عمل ) میں کتنا پیچھے رہ گئے ہیں ہمارا سفر الٹی سمت میں جاری ہے ۔
ایک روز میں دیال سنگھ لائبریری (لاہور) میں بیٹھی تھی، ایک کتاب کا مطالبہ کیا جو پہلے وہاں موجود ہوا کرتی تھی لیکن اس وقت غائب تھی۔ میں نے ایک کارکن سے پوچھا کہ '' نئی کتابیں کیوں نہیں آ رہیں؟ وہ مجھے ایک جانب لے گیا اور کہنے لگا .....''میڈم !وہ ریک دیکھ رہی ہیں‘‘ ؟ میں بولی : ''ہاں، نظر تو آ رہا ہے‘‘۔
''ایک وقت تھا جب کسی بھی ممبر یا لائبریری میں آنے والے کی درخواست پر اسی روز نئی کتاب منگوا لی جاتی تھی، اس کے لئے فنڈز موجود ہوتے تھے۔ بہت تاخیر ہو گئی تو اگلے دن تک کتاب آجاتی تھی۔ممبرز کے لئے منگوائی جانے والی کتب کا رجسٹر بنا ہوا تھا، وہاں رکھا ہوتا تھا ‘‘اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔
وہ کہنے لگا .....''سنا ہے کہ یہ لائبریری ایوب دور میں زیادہ فعال تھی، پھر اس کی ا ہمیت کم ہونے لگی ۔ اب برائے نام رہ گئی ہے‘‘۔
ہماری وہ روش چین نے اپنا لی ہے جہاں نئی لائبریری میں ہر جدید سسٹم کے علاوہ کتب منگوانے کی سہولت بھی موجود ہے۔
چین میں دنیا کی ایک منفرد ترین لائبریری بنا ئی گئی ہے۔ یہ لائبریری اس قدر خوبصورت ہے کہ یہاں آنے والا خود کو کسی افسانوی دنیا میں محسوس کرتا ہے اسے لگتا ہے کہ کسی پرستان کی دنیا میں آ گیا ہے ،ایک ایسی دنیا میں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ہاں !بچپن میں شایدکسی کہانی میں اس کا ذکر سنا ہو ۔
چین کی اس شاندار اور منفرد لائبریری کا نام ہے '' تیاژن بنہائی لائبریری‘‘ ۔اسے ''آنکھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے یہی مستقبل میں جھانکنے کا دروازہ ہے۔'' آنکھ‘‘ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ کار پارک کرتے وقت آپ ایک بڑی سی آنکھ میں سے اس کا اندرونی منظر دیکھ سکتے ہیں۔ اس لائبریری کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ہے اسی لئے دنیا کی ''روشن ترین لائبریریوں‘‘ میں بھی اس کانام شامل ہے۔
یہ لائبریری بنہائی کے بڑے ثقافتی مرکز کے پانچ اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ آپ اندر داخل ہوتے ہی سامنے ایک بڑا ساگلوب پائیں گے، یہ گلوب ایک علامت ہے کہ یہاں کے محققین اب دنیا کو فتح کرنے والے ہیں ۔پہلی اور دوسری منزل پر لاوئنجز ور ریڈنگ رومز بنائے گئے ہیں یہاں محققین کو مکمل تنہائی مہیا کرنے کے لئے کھلے ریکس کے سامنے بٹھانے کی بجائے الگ الگ کمرے بھی بنائے گئے ہیں ۔دنیا کی کسی اور لائبریری میں یہ سہولت موجود نہیں ، اس سے اوپر کی منزلوں میں میٹنگ رومز اور دفاتر بنائے گئے ہیں۔ یہاں ایک اچھی سی انتظار گاہ بھی بنائی گئی ہے ۔پانچ سطحوں یعنی منزلوں پر مشتمل یہ لائبریری 33700ہزار مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کم و پیش بارہ لاکھ کتابیں رکھی گئی ہیں ،تاہم نئی کتاب منگوانے کی درخواست کی جا سکتی ہے ۔ لائبریری کا ایک اہم حصہ ڈیجیٹل ہے جہاں بیٹھ کر محققین اور عمل متلاشی افراد گھر جانے سے پہلے تمام ڈیٹا کو کمپیوٹر میں محفوظ کر سکتے ہیں ۔ اس کا آڈیٹوریم بہت بڑا ہے لیکن رش سے بچنے کے لئے بیک وقت 110افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ 2017ء میں افتتاح کے پہلے ہی دن دس ہزار افراد نے قطاربند ہو کر لائبریری میں مطالعہ کیاتھا۔
لائبریری کا نقشہ کچھ زیادہ ہی خاص ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ انسانوں نے بہت وقت غاروں میں گزارا ہے ، غاروں سے نکل کر اس نے دنیا کو سر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے ۔اپنے قدیم انسانوں سے خود کو جوڑنے کی خاطر '' تیاژن بنہائی لائبریری‘‘ کو بل کھاتی غار کی طرز پر بنایا گیا ہے ۔ اس لائبریر ی کے تمام امور ''میونسپلٹی آف بنہائی ‘‘کے سپرد ہیں ۔
علم کے رسیا ای۔ بکس میں بھی دل چسپی لے رہے ہیں مگر یہ اتنی زیادہ نہیں ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ای بکس کی فروخت 2006ء میں 20کروڑ ڈالر زتھی ، اب بڑھ کر ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے لیکن کتابوں کی خرید و فروخت اس سے کہیں زیادہ ہے۔