دنیا کا سب سے بڑا گول مقبرہ
دنیا کا سب سے بڑا گول مقبرہ کسی اور کا نہیں روم کے بادشاہ بادشاہ آگسٹس کا ہے جو اس نے 31سے 28قبل مسیح میں خود اپنے لئے بنوایاتھا۔31قبل مسیح میں ''جنگ آکٹیم‘‘ (Actium) میں کامیابی کے بعد اس نے دیگر منصوبوں کے ساتھ یہ منصوبہ بھی شروع کرایا۔ اس نے اس خوبصورت مقبرے کی تعمیر کے لئے دنیا بھر سے کے ماہرین سے مشورے بھی کئے تھے۔ مقبرے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں بادشاہ نے اپنے تمام مقبوضہ علاقوں سے مٹی منگواکر ڈلوائی۔وہ کہتا تھا کہ ''میرے مقبوضہ علاقوں کی مٹی بھی آخری وقت تک میرے ساتھ رہے۔کیونکہ مجھے پتھروں کا شہر ملا تھا اور میں سنگ مرمر کا شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں‘‘۔
بد قسمتی سے اس مقبرے کا بھی انجا م اچھا نہیں ہوا۔ 410 میں بہت لوٹ مار ہوئی۔ سونے کے کوزے بھی لوٹ لئے گئے۔ہر طرف راکھ بکھری ہوئی تھی ۔ 10ویں صدی عیسوی میں مقبرہ زمین میں دھنس گیا تھا ۔ 12 ویں صدی میں اسے قلعے میں بدل دیا گیا۔ 1167ء میں ہونے والی جنگ یہاں خاصی تباہی مچی، ایک بادشاہ نے یہاں باغ بنا دیا جبکہ 19ویں صدی میں یہ مقبرہ سرکس اور 20صدی میں اس کا مرکزی حصہ کنسرٹ ہال کے طور پر بھی استعمال ہوا۔
مقبرے کا قطر 90میٹر(295فیٹ)اور اونچائی 42 میٹر (137) ہے۔زیریں حصے کے قریب پہنچتے ہی ایک بڑا سا راستہ نظرآئے گا جو سیدھا مقبرے کے اندر لے جائے گا۔یہاں دور سے ہی بلند و بالا طاق پر رکھے ہوئے سونے کے کوزوں میں شاہی خاندان کے افراد کی راکھ نظرآئے گی۔ ستونوں پر بادشاہ کا نام ''ریس گیسٹو ڈیوی آگسٹی ‘‘ جلی حروف میں کندہ ہے ۔جس کے نیچے اس کے کارہائے نمایاں اور فتوحات درج ہیں۔
مرکزی حصے کے عین اوپر مخروطی چھت پرپیتل کا قد آور مجسمہ نصب ہے۔نیچے خود دفن ہے اور اوپر مجسمہ ہے تا کہ پتہ چل سکے کہ مرنے والا کس شکل کا تھا۔بادشاہ نے خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لئے ہر وقت شاداب رہنے والے خاص قسم کے درخت (cypresses) منگوا کر لگوائے۔ زیریں حصے کے قریب مشہور عجاب گھر ''میوزیم آف آراء پیسس‘‘ بھی واقع ہے۔
یہ ''پیازہ آگسٹو امپیریٹور‘‘ کے مشہور مقام پر واقع ہے اور چاروں اطراف سے درختوں اور پھر مکانات میں گھرا ہوا ہے ،اس علاقے میں یہی واحدسرسبز جگہ ہے جس کے چاروں طرف درختوں کی بہار ہے۔
میسو لینی نے بحالی کے لئے اسے عارضی طور پر بند کرنے کا حکم جاری کیاتھا،لیکن وہ آرئش نیہ کروا سکا۔ میسولینی کہتا تھا کہ ''آگسٹس نے میری شکل میں دوبارہ جنم لیا ہے‘‘۔ جنوری 2017ء میں آرائش و تزئین کی گئی لیکن اپریل 2019ء تک نا مکمل رہی ، اس لئے عوام کے لئے نہیں کھولاجا سکا،بلکہ اونچے درختوں کی اوٹ میں چھپنے کی وجہ سے دنیا کی نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا تھا۔ 13سال سے جاری آرائش وتزئین کا کام یکم مارچ 2021ء کو مکمل ہوا۔کئی شاعروں نے مقبرے کی خوبصورتی پر اشعار کہے ہیں۔ ایک شاعر کی نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے ،
'' یہ مقبرہ ہر وقت خوشبوئوں سے مہکتا رہتا ہے،دل کرتا ہے کہ میں بھی اپنے بالوں میں ان خوشبوئوں کو سمیٹ لوں۔ گرمیوں میں برف کا دلربا نظارہ اور پھولوں کی سیج دل کو کھینچ لیتی ہے۔منظر اس قدر کشش ہوتا ہے کہ آنے والے کا جانے کو من نہیں چاہتا لیکن اس میں ایک سبق بھی ہے وہ یہ کہ جودنیا میں آیا ہے ،خواہ وہ دیوتاہی کیوں نہ ہو،اس نے ایک نہ ایک دن مرنا بھی ہے‘‘۔