مغل شہنشاہ اکبر کے400 باورچی
سن 1526 مرزا ظہیر الدین بابر نے برصغیر میں پہلی مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جہاں سے مغل ایمپائر کا آغاز ہوا اور مغلوں کی تقریباً 19 نسلوں نے 1857 تک برصغیر پر حکومت کی لیکن 19 نسلوں میں جو عروج تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر(27جنوری 1556 تا 27 اکتوبر 1605) نے دیکھا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوا۔
مغلوں کا انداز حکومت شروع سے ہی نرالا تھا یہ بات سب ہی جانتے ہیں، شاہ جہاں کو آرکیٹکچر سے بہت پیار تھا آج ساری دنیا اس کا بنوایا ہوا تاج محل دیکھنے آتی ہے، ہمایوں نے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے سلطنت ایک دن کے لیے نظام سقہ کے سپرد کر دی تھی جسکی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی اور جہانگیر نے کنیز انارکلی کی خاطر باپ سے جنگ چھیڑ دی وغیرہ مگر نرالے پن میں ان میں سے کوئی بھی جلال الدین محمد اکبر کو چھو کر نہیں گزرا۔
جلال الدین اکبر برصغیر کے لوگوں کا چاہے ہندو ہو ں چاہے مسلمان ہر دل العزیز بادشاہ تھا اس نے اپنے دور میں گائے کے گوشت پر پابندی لگا رکھی تھی تاکہ ہندو مت کے ماننے والوں کو تکلیف نہ ہو لیکن اسکے باوجود بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں بچوں کے نصاب کی کتابوں سے مغل بادشاہوں کی تمام تاریخ نکال دی گئی ہے تاکہ ہندوستان کی تاریخ کا یہ باب مکمل طور پر ختم ہو جائے مگر ہندوستان کی تاریخ جلال الدین اکبر اور باقی مغلوں کے ذکر کے بغیر ہمیشہ نامکمل ہی رہے گی۔
آج ساری دنیا میں مقبول مغلیہ کھانوں کی تاریخ کا آغاز بھی جلال الدین اکبر کے دور سے ہوا جسکا کچن بھی سب سے نرالا تھا کچن میں ایک ہیڈ شیف، ایک خزانچی، ایک سٹور کیپر، کلرک، کھانا چکھنے والے اور ہیڈ شیف کے ماتحت 400 سے زیادہ باورچی تھے جن کا تعلق انڈیا، فارس، مصر، عرب، یورپ اور دنیا کے اور کئی حصوں سے تھا اور ان کی ذمہ داری طرح طرح کے پکوان تیار کرنا تھا۔
کہتے ہیں اکبر کا کھانا خواجہ سرا کھانے کی ٹیبل تک لیکر آتے تھے جنکی قیادت کچن کے شاہی افسران کرتے تھے، بادشاہ کے کھانے کا انتخاب شاہی طبیب کی ذمہ داری تھی جو کھانے میں ایسے کھانوں کو شامل کرتا تھا جن میں ادویاتی خوبیاں شامل ہوں، بادشاہ کے لیے بنی بریانی کے چاول کے ہر دانے کو چاندی کے ورق سے لپیٹا جاتا تھا تاکہ کھانا ہاضمے کو بہتر بنائے اور بادشاہ سلامت کی طاقت میں اضافہ کرے۔
اکبر کے دسترخوان کی زینت بننے والے مرغے محل کے اندر پروان چڑھائے جاتے تھے اور ان مرغوں کو روزانہ ہاتھ سے کھانا کھلایا جاتا تھا اور کھانے میں انہیں زعفران ملا کھانا اور پینے کے لیے عرق گلاب دیا جاتا تھا اور ان مرغوں کی روزانہ مسک آئل اور صندل کی لکڑی کے تیل سے مالش کی جاتی تھی۔
شہنشاہ اکبر ہفتے میں تین دن سبزی کھاتا تھا اور بادشاہ کے لیے کچن کی ساری سبزی محل میں موجود باغات میں اگائی جاتی تھی اور ان سبزیوں کو پانی کے طور پر عرق گلاب دیا جاتا تھا تاکہ جب سبزی پکے تو سبزی سے خوشبو آئے۔شہنشاہ جلال الدین کے دور کے چند مشہور کھانوں میں سموسہ، ساگ، پالک، حلیم، ہریسا، یخنی، میتھی دانے کا سالن، سالم روسٹ دْمبے وغیرہ آج بھی بہت مشہور ہیں۔
اکبر کا کھانا سونے، چاندی اور پتھر کے برتنوں میں پیش کیا جاتا تھا ان برتنوں کو کپڑے سے ڈھانپا جاتا تھا۔ کھانوں اور مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برف کا استعمال ہوتا تھا اور یہ برف روزانہ کی بنیاد پر ہمالیہ کے پہاڑوں سے اکبر کی خاص کورئیر سروس کے ذریعے اکبر کے محل تک لائی جاتی تھی۔ بادشاہ کو کھانا جب باورچی خانے سے روانہ ہوتا تو اسے پہلے پکانے والا باورچی اور نگران کچن میر بکاول کھا کر چکھتا، پھر میر بکاول کھانے کو سیل کر کے اس پر اپنی مہر لگا دیتا اور کھاتا لکھنے والا کہ کتنے برتن کھانے کے لئے جارہے ہیں اسکا اندراج کھاتے میں کردیتا۔کھانا لیجاتے ہوئے کچن کا عملہ خواجہ سراؤں کے اردگرد چلتا اور کھانے کے لیے زمین پر قالین کے اوپر قیمتی دستر خوان بچھایا جاتا اور جب کھانا بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا تواکبر کے کھانے سے پہلے میر بکاول کھانے کی سیل کھولتا اور اْسے ایک دفعہ پھر چکھتا۔
جلال الدین کو خوف تھا کہ اسے زہر دیکر مارا جاسکتا ہے اور اس خوف کی وجہ اس کے دادا ظہیرالدین بابر تھے جنہیں زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کوشش کے بعد مرزا بابر نے سکیورٹی کے لیے کئی اقدامات کیے تھے اور اکبر کے دور میں اس سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا تھا۔