خوبصورت مہوڈنڈ جھیل،کالام
اسپیشل فیچر
وادی کالام سے مہوڈنڈ جھیل کا فاصلہ لگ بھگ35سے40کلومیٹر ہے یہ فاصلہ بذریعہ جیپ بہ آسانی تین گھنٹوں میں طے کیا جا سکتاہے۔ راستے میں اوشو،مٹلتان، پلوگا اور دیگر چھوٹے بڑے خوبصورت روایتی گاؤ ں سے گزرناپڑتا ہے۔ مینگورہ تا کالام روڈ کی قدرے بحالی کے بعد سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ مجوزہ چکدرہ تا باغ ڈھیری شاہراہ سے یہ تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ بحرین اور کالام میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیرات کی گئی ہیں جس کی وجہ سے دریائے سوات نظروں سے اوجھل ہے۔ ریستوران، ہوٹل اور گھروں سے نکلا ہواآلودہ پانی بغیر کسی رکاوٹ کے دریائے سوات میں گرتا ہے۔ علاقے میں غربت ہے۔ علاقے کو سیاحت کی آماجگاہ بنانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ جھیل تک پہنچنے کیلئے راستہ محدود ہے اس لئے سیاحوں کی گاڑیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔کالام سے جھیل تک راستہ انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، سیاحوں کو شدید کوفت سے گزرنا پڑتا ہے، شرمندگی کا احساس ہوتا ہے کہ اتنے خوبصورت مقامات ہونے کے باجود حکومتوں نے انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے کچھ نہیں کیا۔
مہوڈنڈ اور اس سے کچھ فاصلے پر واقع جھیل سیف اللہ جس کا مقامی نام کنڈیل شئی ''یعنی کانٹوں کا چمن‘‘ ہے۔بلاشبہ مہوڈنڈ قدرت کا انمول تحفہ ہے، جسے دیکھنے لوگ سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے آتے ہیں۔ بے ہنگم تعمیرات اورڈھابوں کی وجہ سے مہوڈنڈ کا فطری حسن متاثر ہے۔سڑک کنارے دس روپے کے عوض انجیر وغیرہ بیچنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
جھیل کے راستے میں ایک چشمہ آتا ہے جس کا پانی بہت شفاف اور پینے والا ہے۔ یہ چشمہ چونکہ بلند و بالا پہاڑوں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے، تو راستے میں آنے والی مختلف جڑی بوٹیوں کے اثرات بھی اپنے ساتھ نیچے تک لے آتا ہے۔ وہاں سے گزرنے والے بہت سے لوگ رک کر اس چشمے سے پانی بھرتے ہیں اور بوتلوں میں بھر کر ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔
شیردل دریائے سوات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چنگھاڑ رہا ہوتا ہے کہ اچانک دریا کا شور ختم سا ہو جاتا ہے کیونکہ آپ کے سامنے خوبصورت جھیل مہوڈنڈ ہوتی ہے۔
مہوڈنڈ کو یہ نام کیوں دیا گیا اس حوالے سے تمام لوگوں کا یہی کہناہے کہ مہے پشتو زبان میں مچھلی کو کہا جاتا ہے جبکہ ڈنڈ جھیل کو یعنی مچھلیوں کی جھیل چونکہ یہاں مچھلیاں بکثرت پائی جاتی تھی اسلئے یہ نام دیا گیا تاہم اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ پشتونوں کی سوات آمد سولہویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہوئی تھی جب پشتو زبان یہاں مشہور نہیں تھی تو اسے یہ نام کیسے دیا گیا جہاں تک میرا خیال ہے تو سوات میں یوسفزئی کی آمد سے پہلے ہندوؤں اور بدھ مت والوں کی حکومتیں گزری ہیں اسلئے یہ نام یا تو ہندوؤں نے مہا ڈنڈ رکھا یعنی بڑی جھیل یا بدھ مت کے پیروکاروں نے مہاتما بدھا کی یہاں آمد کی وجہ سے اسکا نام مہو ڈنڈ یعنی مقدس جھیل یا مہا تما بدھ کی جھیل رکھا جو بعد میں بگڑ کر مہوڈنڈ بن گیا۔
اس جھیل کا کل رقبہ 1500سے1700کنال ہے۔یہ وادی اوشو میں بہتی ہے۔یہ جھیل کی الپائن قسم ہے اور اس کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 2کلومیٹر اور چوڑائی 102کلومیٹر جبکہ سطح سمندر سے بلندی 9400فٹ ہے۔
مہوڈنڈ سے 20منٹ کی مسافت پر جھیل سیف اللہ واقع ہے اس سے آگے 25منٹ کی مسافت پر جانو کھور (یعنی جانو نامی آدمی کی پہاڑی غار ) واقع ہے ، یہ دریا کے پار مشرقی سمت بڑے بڑے پتھرو ں کے درمیان واقع ہے ،یہاں پرانے وقتوں میں جانو نامی آدمی رہتا تھا اسلئے یہ نام مشہور ہوا اس جگہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہاں اکثر جنات نظر آتے تھے یہ جگہ کیمپنگ کیلئے انتہائی موزوں ہے اس سے آگے ڈھونچاڑ گل آتا ہے یہاں بلندی سے ایک پہاڑی نالہ گرتاہے جوکہ انتہائی شور مچاتا ہے ۔ڈھونچ گاؤری زبان میں بیل اور بھینسے وغیرہ کی آواز کو کہا جاتاہے اور گل پہاڑی نالے کو اسے یہ نام اسلئے دیا گیاکہ جیسے بیل اوربھینسے شور مچاتے ہیں اسطرح اس کے گرنے سے خوفناک آوزیں پیدا ہوتی ہیں۔
اس سے آگے 4گھنٹے کی مسافت پر سری کالام واقع ہے کہتے ہیں کہ جب محمود غزنوی نے گیارہویں صدی میں سوات کے آخری غیر مسلم حکمران راجہ گرا کو شکست دی تو کچھ لوگوں نے اوڈیگرام سوات سے آکر یہاں عارضی سکونت اختیار کی تھی جن میں سے اکثرزیادہ برفباری کی وجہ سے مر گئے تھے اور باقی ماندہ نے دوبارہ میدانی علاقوں کی طرف واپس ہجرت کی تھی۔ سری کالام سے آگے پہاڑی سلسلہ چترال تک جاتاہے ۔مہوڈنڈ سے پیدل چترال جانے کیلئے دو راستے نکلتے ہیں۔
1)کچہ کنی: یہ راستہ پیدل 4دن میں طے کیا جا سکتاہے
2)گارڑ ریبی: یہ راستہ 6دن میں طے کیا جا سکتاہے یہ راستہ چترال کے علاقے اندراب تک نکلتا ہے
مہوڈنڈ سے چترال جاتے ہوئے راستے میں صرف تین جھیلیں آتی ہے جن میں سے اندراب کی جھیل مشہور ہے۔