ملکہ زبیدہ اور نہرِ زبیدہ
اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ تاریخ اچھے الفاظ میں صرف انہی کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے مفاد عامہ کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دی ہوں ۔ تاریخ جہاں فلاحی کام کرنے والوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہیں سیاہ کرتوت کے حامل افراد کے سیاہ کارناموں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔
جب ہم خلافت عباسیہ کے پانچویں خلیفہ ہارون الرشید کے دور خلافت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی نیک نامی کے ساتھ کچھ نہ کچھ انتظامی خامیوں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتاہے۔ ہارون الرشید اس لحاظ سے خوش قسمت گردانے جائیں گے کہ ان کی شریکِ حیات ایک نیک، پارسا،خدا ترس اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار خاتون تھیں ۔
زبیدہ بنت جعفر ، عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی چچازاد اور بیوی تھیں۔ ان کا ابتدائی نام اگرچہ " امۃ العزیز " تھا لیکن ان کے دادا جنہیں ان سے بے پناہ پیار تھا اسے ''زبیدہ ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے چنانچہ بچپن ہی سے ان کا یہ نام شہرت اختیار کر گیا اور اصل نام امۃ العزیز قصہء پارینہ بن گیا۔
زبیدہ 762 عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کے والد موصل کے گورنر تھے۔ زبیدہ انتہائی خوش شکل،ذہین ، نرم گو ،رحم دل مخیراور انتہائی خوش پوش خاتون تھیں۔سن 782 عیسوی میں جب یہ بیس برس کی عمر کو پہنچیں تو انکی شادی خلیفہ ہارون الرشید سے ہو گئی۔کہتے ہیں ہارون الرشید اس شادی پر اسقدر خوش تھے کہ انہوں نے بلا تفریق ہر خاص و عام کو شادی کی تقریب میں مدعو کیا تھا۔
ملکہ زبیدہ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ 23سال تک ایک
وسیع و عریض سلطنت کی خاتون اول رہیں۔ ہارون الرشید کا 23 سالہ دورخلافت ملکہ زبیدہ کے شاہانہ عروج کا دور تھا۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر فلاحی کاموں میں حیرت انگیز طور پر حصہ ڈالا۔ انہوں نے عراق سے مکہ معظمہ تک حاجیوں اور مسافروں کے لئے جگہ جگہ سرائیں تعمیر کرائیں ، کنویں کھدوائے۔
اس زمانے میں تواتر سے آتی آندھیوں کے سبب سال کے بیشتر حصے یہ رستہ مٹی سے ڈھک جاتا تھا جس کے سبب مسافر اکثر راستہ بھول جاتے اور کئی کئی دن صحرا میں بھٹکتے رہتے تھے۔ چنانچہ ملکہ زبیدہ نے لاکھوں دینار خرچ کر کے راستے کے دونوں جانب پختہ دیواریں تعمیر کرائیں۔اس کے ساتھ ساتھ ملکہ نے اپنے ذاتی خرچ پر کئی مسجدیں بنوائیں۔ علاوہ ازیں ملکہ زبیدہ نے ایک نہر عار کوہ بنان سے بیرو تک بنوائی اور اس پر متعدد پل بھی بنوائے۔ جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں ۔انہیں اب بھی
'' تناظر زبیدہ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
''انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا‘‘ کے مطابق ملکہ زبیدہ نے ایران کے ایک پر فضا مقام سے متاثر ہو کر تبریز نامی ایک شہر بھی آباد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مصر کے تاریخی شہر اسکندریہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو دوسری ہجری میں حادثاتِ زمانہ کے ہاتھوں تقریباً اجڑ چکا تھا , ملکہ زبیدہ نے اس تاریخی شہر کے تشخص کو بحال کرنے کے لئے اسکی ازسرنو تعمیر کرائی۔یوں تو ملکہ زبیدہ کے رفاہی کاموں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ملکہ کا ایک کارنامہ جو رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔
وہ '' نہر زبیدہ ‘‘ جیسے کٹھن اور بظاہر ناممکن منصوبے کی تکمیل تھی۔
نہر زبیدہ کی تعمیر کا پس منظر: صدیوں سے مکہ مکرمہ اور دیگر سعودی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید سے بہت پہلے بھی ایک دفعہ پانی کا اس قدر سنگین بحران پیدا ہو گیا تھا کہ محض ایک مشکیزہ دس درہم تک بکنے لگا۔ ایک دفعہ جب ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں تو انہوں نے اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی قلت دیکھی تو اسی لمحے انہوں نے مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے مستقل انتظام کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اس کا مقصد اہل مکہ اور حجاج کرام کو بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بناناتھا۔
ملکہ نے ہنگامی بنیادوں پر جب دنیا بھر کے ماہرین کو یہ ذمہ داری سونپی تو طویل جدوجہد کے بعد ماہرین نے اطلاع دی کہ انہیں دو جگہوں سے بہتے چشموں کا سراغ ملا ہے۔ایک مکہ مکرمہ سے لگ بھگ پچیس میل کی دوری پر جبکہ دوسراچشمہ کرا کی پہاڑیوں میں نعمان نامی وادی کے دامن میں واقع ہے ۔ ان چشموں کا مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ درمیان میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے رکاوٹ ڈالتے نظر آ رہے تھے۔ ملکہ جو اس نیک کام کا تہیہ کر چکی تھیں انہوں نے اس موقع پر جو احکامات جاری کئے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے آج بھی زندہ ہیں،
''ان چشموں کا پانی مکہ تک پہنچانے کے لئے ہر قیمت پر نہر کھودو۔اس کام کے لئے جتنا بھی خرچ آئے پروا نہ کرو حتی کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو دے دو ‘‘۔
ملکہ کا حکم اور ارادے رنگ لے آئے۔تین سال دن رات ہزاروں مزدور پہاڑیاں کاٹنے میں مشغول رہے۔ منصوبے کے تحت مکہ مکرمہ سے 35 کلو میٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ''جبال طاد ‘‘سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ایک نہر جس کا پانی ''جبال قرا ‘‘ سے '' وادی نعمان ‘‘ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا۔یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع تھا۔علاوہ ازیں منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر واقع ایک تالاب ''بئیر زبیدہ ‘‘کے نام سے تھا جس میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاتاتھا۔چنانچہ اس تالاب سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر تک لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔اور یوں اللہ نے اہل مکہ اور حجاج کرام کی سن لی اور نہر کا یہ تاریخی منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔
بہت سارے لوگوں کے لئے یہ انکشاف شاید نیا ہو گا کہ اس نہر کا بنیادی نام ''عین المشاش ‘‘تھا لیکن اللہ تعالی کو شاید ملکہ زبیدہ کے نام کو اسی نہر کے توسط سے دوام بخشنا مقصود تھا جس کے سبب یہ ''نہر زبیدہ ‘‘کے نام سے شہرت اختیار کر گئی۔
نہر زبیدہ 1200 سال تک مکہ مکرمہ اور ملحقہ علاقوں تک فراہمی آب کا بڑا ذریعہ رہا۔ پھر 1950 کے بعد اس نہر سے پمپوں کے ذریعہ پانی کھینچنے کاسلسلہ زور پکڑتا گیا جو رفتہ رفتہ نہر کی خشکی تک آن پہنچا۔آج بھی اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں موجود ہے۔
بلا شبہ یہ ایک کٹھن اور بظاہر ناممکن منصوبہ تھا جسے ملکہ زبیدہ کی مدبرانہ حکمت عملی اور انتھک کاوشوں کے طفیل کامیابی ملی۔
نہر زبیدہ درحقیقت اسلامی ورثے کا ایک نادر نمونہ اور انجنئیرنگ کا لازوال شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر دیکھ کر آج بھی انجینئر اور ماہر تعمیرات حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم اور کٹھن منصوبے کو کیسے پایہء تکمیل تک پہنچایا گیا ہوگا۔