مصنوعی سورج:سائنس کا نیا شاہکار قدرتی سورج سے 8گنا زیادہ گرم ،درجہ حرارت120ملین ڈگری
انسان مسلسل اس کھوج میں ہے کہ وہ کائنات کے زیادہ سے زیادہ راز معلوم کر سکے اس لئے دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں مسلسل مصروف ہے ۔ جتنی بھی تاریخ انسانی سے ہم واقف ہیں وہ ایسے واقعات سے سرشار ہے جب انسانی دماغ نے دنیا کو حیران کیا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ہمسایہ اور دوست ملک چین نے بھی کیا ہے۔ جسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ شاید یہی انسانی ترقی کی معراج ہے۔چین نے حال ہی میں ایک تجربہ کیا ہے جس میں وہ اپنا خود کا سورج بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔یہ تجربہ چین نے ''ایسٹ فیوژن ری ایکٹر‘‘ کی مدد سے کیا ہے جو اس پر کافی عرصے سے کام کر رہا تھا۔
نظام شمسی میں موجود سورج کا ''کور‘‘ یعنی سب سے اندرونی حصے کا درجہ حرارت 15 ملین ڈگری سیلسئیس ریکارڈ کیا گیا ہے اور سورج کے اس حصے میں مسلسل نیوکلیئر دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں ہائیڈروجن کے دو نیوکلیئس فیوز ہو کر ہیلیم بناتے ہیں اور ہیلیم ٹوٹ کر ہائیڈروجن بناتی ہے۔ ''ایسٹ‘‘ پروگرام کی مدد سے چائنہ نے جو مصنوعی سورج بنایا ہے وہ قدرتی اور اصلی سورج سے بھی 8گنا زیادہ تقریباً 120ملین ڈگری سیلسئیس گرمی پیدا کرتا ہے۔ ایسٹ پروگرام چائنہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف پلازما فزکس میں واقع ہے۔ یہ ادارہ 1978ء میں قائم کیا گیا تھا۔
اس مصنوعی سورج کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سورج میں ہونے والے فیوژن ری ایکشن کی نقل کی جا سکے۔ ایسٹ فیوژن ری ایکٹر چائنہ کے تین بڑے ''ٹوکامک‘‘ میں سے ایک ہے۔
چائنہ اس سے پہلے بھی ''ایچ ایل۔2 اے‘‘ اور ''جے ٹیکسٹ‘‘ نامی دو ری ایکٹر پر کام کر چکا ہے۔ 2020ء میں بھی ''ایچ ایل۔2ایم ‘‘ نام کی ڈیوائس کو کامیابی کے ساتھ ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ایسٹ پروگرام نے 2006ء میں پہلی مرتبہ کام شروع کیا تھا اور اب تک یہ ری ایکٹر کئی عالمی ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔
ٹوکامک ان ڈیوائسز میں سے ایک ہے جو تھرمو نیوکلیئر فیوژن پاور کو کنڑول طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ 1960ء کے دوران روس میں بنایا گیا ''میگنٹ کنفائنمنٹ ری ایکٹر‘‘ ہے۔ ایسٹ پروگرام''انٹر نیشنل تھرمو نیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر‘‘ کا بھی حصہ ہے اور اس بین الاقوامی تنظیم میں 35 ممالک شامل ہیں۔ یہ پروگرام نیوکلیئر فیوژن پر کام کرے گا جس سے توانائی زیادہ پیدا ہوتی ہے، فضلہ بہت کم نکلتا ہے۔
اس وقت بھی دنیا کے کئی ممالک میں نیوکلیئر فیوژن سے توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ فیوژن میں ایک بھاری ایٹم کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں جس سے چھوٹے چھوٹے ایٹم بنتے ہیں اس دوران جو توانائی بنتی ہے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ فیوژن آسان عمل ہے لیکن اس سے بہت زیادہ مقدار میں نیوکلیئر فضلہ نکلتا ہے جبکہ فیوژن ری ایکشن میں میں فضلہ بہت کم نکلتا ہے اور کوئی گرین ہاؤس گیس بھی نہیں نکلتی اور فیوژن کے مقابلے میں فیوژن زیادہ محفوظ مانا جاتا ہے۔ اگر اس سلسلے کو بڑھایا جائے تو نیوکلیئر فیوژن دنیا میں سستی اور صاف ستھری ماحول دوست لامحدود توانائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کوریا کا‘‘کے سٹارپروگرام‘‘ بھی 100ملین ڈگری سیلسئیس تک پہنچا ہے۔
آخر اتنے زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟نیوکلیئر فیوژن میں بہت زیادہ گرمی اور پریشر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہائیڈروجن کے ایٹم آپس میں فیوز ہو سکیں۔ ہائیڈروجن کے دو آئسوٹاپ ہوتے ہیں ایک ڈیوٹیرئیم (Deuterium) اور دوسراٹرائی ٹیئم (Tritium)جو ساتھ مل کر ہیلئم کو بناتے ہیں۔ اسی طرح اس پراسیس میں بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے اور اس کام میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس عمل کو مکمل کرنے کیلئے 150ملین ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت چاہئے ہوتا ہے۔ جس سے پلازمہ گرم ہو اور سب ایٹمی ذرات جیسا کہ پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون کا محلول بن سکے۔ اس پلازمہ کو لمبے عرصے سے بنانے کی کوشش جاری ہے، اب تک کی تحقیق اور تجربات کے مطابق یہ کچھ منٹ کیلئے ہی مستحکم رہ پاتا ہے۔
ایسٹ پروگرام 2018ء میں 100ملین ڈگری سیلسیئس تک پہنچا تھا اور حال ہی میں یہ 120ملین ڈگری سیلسیئس تک پہنچا ہے۔ ان ری ایکٹرز میں سورج کے اندورنی حصے سے بھی زیادہ درجہ حرارت اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہم اصلی سورج جتنا کشش ثقل کا دباؤ پیدا نہیں کر سکتے ایسے میں اس سے زیادہ درجہ حرارت پیدا کرنا ہی ایک واحد حل بچتا ہے۔
سننے میں یہ کسی خواب جیسا لگتا ہے کہ توانائی کا کوئی ایسا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے جو لامحدود ہوگا اور ماحول کیلئے بھی نقصاندہ نہیں ہوگا۔ یہی نیوکلیئر فیوژن کی خوبصورتی ہے۔ کافی عرصے سے اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن اب کچھ سالوں سے اس میں بہترین تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں اور نجی کمپنیاں بھی کلین انرجی کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں۔ سوچ کر دیکھیں، کیسا لگتا ہے کہ دنیا کے پاس توانائی کا ایک ایسا ذریعہ ہوگا جو آپ کی گاڑیوں سے لے کر گھروں تک کو لامحدود توانائی فراہم کرے گا اور ماحول کے لئے بھی خطرناک نہیں ہوگا۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے یہی ایک بہترین طریقہ ہے۔
فیوژن میٹر کی چوتھی سٹیٹ یعنی پلازمہ پر کام کرتا ہے۔اب تک ہمارا زیادہ تعارف تین قسم کے میٹر سے ہی رہا ہے جو ہوا، پانی اور گیس ہیں لیکن پلازمہ ایک سٹیٹ ہے جو اس کائنات میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ ماہرین اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پلازمہ بھی ایک طرح کی گیس ہی ہوتی ہے جس میں الیکٹرون نہیں ہوتے۔ یہ ستاروں میں پائی جاتی ہے۔ اگر آپ نے ناردرن لائٹس کا نام سنا ہے تو وہ بھی پلازمہ کی وجہ سے ہونے والا شاہکار ہے۔ ٹیکنالوجی اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ نیوکلیئر فیوژن سے پیدا ہونے والی توانائی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، کسی دور میں یہ ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ فیوژن ری ایکٹرز کو دو طریقوں سے بنایا جاتا ہے ایک ہے'' انرشیئل ری ایکٹر‘‘ اور دوسرا ہے ''میگنیٹک کنفائنمنٹ اپروچ‘‘ جسے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں پلازمہ طاقتور میگنیٹک فیلڈ میں رکھا جاتا ہے۔ فرانس، امریکہ اور جرمنی بھی اسی طرح کے ری ایکٹرز پر کام کر رہے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی ہمارے لئے ناگزیر تو ہے لیکن اس میں وقت لگے گا اگر اس پر بہت تیزی سے بھی کام کیا گیا تو 2060ء تک پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت کا صرف ایک فیصد حصہ ہے جو فیوژن ری ایکشن سے حاصل ہو پائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا آنے والا مستقبل روشن اور محفوط ہوگا۔
تنزیل الرحمن نوجوان صحافی ہیں
اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں