چوبرجی کا نوحہ، دریائے راوی جسے چھو کر گزرتا تھا
اسپیشل فیچر
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ لاہور آج تاریخ کے ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جب خود تاریخ ایک سائنس بن چکی ہے۔ اس سائنس کی روشنی میں چوبرجی کا ماضی، حال اور مستقبل چمکتا ہے۔ چوبرجی دراصل وہ خوبصورت اور تاریخی عمارت ہے جسے ایک نظر دیکھتے ہی وہ دور یاد آ جاتا ہے جب چوبرجی، شاہی باغ کا صدر دروازہ تھی۔ دریائے راوی اس کے کنارے کو چھو کر گزرتا تھا اور اس رنگین و منقشی عمارت کا عکس جب پانی میں دکھائی دیتا تو دنوں میں رومانی یادیں نقش وفا کی صورت میں مرقم ہو جاتی تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی حسین دوشیزہ راوی کے کنارے بیٹھی با انداز دلربائی اپنے مر مر میں پائوں ہلا ہلا کر لہروں سے کھیل رہی ہے۔ مگر آج یہ سارا تاثر ذہنوں میں اس وقت آن واحد میں زائل ہو جاتا ہے جب چوبرجی کے پاس سے گندہ نالہ چھو کر گزرتا ہے اور اس کے گلے سڑے پانی کا تعفن ، ارد گرد کے ماحول پر کارپوریشن کی مہربانیاں عیاں کر دیتا ہے۔ آج چوبرجی کا سارا حسن اس گندے نالے نے چھین لیا ہے۔ اوپر سے اس کا بچا کھچا باغ میٹروٹرین کی زد میں آ گیا، اب صرف چوبرجی کی عمارت کھڑی ہے۔ اسے خوبصورت بنانے والا باغ ختم ہو چکا ہے۔ چند منٹ کے فاصلے پر لمبا پل تعمیر ہو چکا ہے پہلے تو اسے گرائے جانے کا خدشہ تھا۔ عوام کے شور مچانے پر اسے بچا لیا گیا ہے۔
اس عمارت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے اورنگزیب عالمگیر کی صاحبزادی شہزادی زیب النساء نے بنوایا تھا۔ یہ عمارت 1646ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ زمانہ کی ستم ظریفیوں کے باوجود یہ عمارت آج بھی کافی دلکش اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے اس کی دیواروں پر نیلے اور سبز رنگ میں لکھی ہوئی تحریریں، ان ہی دلآویزیوں کی حامل ہیں جن کی وہ تین سو برس پیشتر تھیں۔ عمارت کی دیواروں پر آیت الکرسی بھی کندہ ہے۔ ابتداء میں اس عمارت کے چار برج تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عمارت چوبرجی کہلائی۔ مگر اس کا ایک برج جو شمال مغرب کی سمت میں تھا دیوار کے کچھ حصے سمیت 1859ء میں بجلی گرنے سے مسمار ہو گیاتھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کئی بار تعمیر ہونے کے باوجود یہ برج قائم نہ رہ سکا۔ لیکن یہ بات سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے۔ اب کچھ سال پہلے یہ برج نیا بنا دیا گیا ہے۔ چوبرجی کا دروازہ بہت بلند ہے۔ یا اس لئے اتنا بلند رکھا گیا تھا کہ ہاتھی اندر آسانی سے داخل ہو سکے۔
شہزادی زیب النساء نے اپنے لئے ایک علیحدہ باغ نواں کوٹ میں بنایا۔ مشہور ہے کہ یہ باغ اسی جگہ تھا۔ جہاں زیب النساء کا مقبرہ ہے۔ شہزادی زیب النساء کا سن وفات 1080ہجری بمطابق 1668ء بتایا جاتا ہے۔ اس نے تیس سال کی عمر میں وفات پائی اس لحاظ سے اس کا سن پیدائش1239ء نکلتا ہے مگر چوبرجی پر سن تعمیر 1056ہجری بمطابق 1646ء درج ہے۔ اس لحاظ سے چوبرجی اس وقت تعمیر کی گئی، جب زیب النساء سات برس کی تھی۔ اس لئے یہ کہنا کہ یہ باغ اور عمارت زیب النساء کے ایماء پر تعمیر ہوا، یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ اورنگزیب کی مرضی سے زیب النساء کے نام پر تعمیر کیا گیا ہو۔
سابقہ حکومت کے سربراہوں کے قریبی عزیزوں نے 1839ء میں تعمیر ہونے والا مغلیہ بادشاہوں کی آخری نشانی زیب النساء کے مقبرے کے مین گیٹ پر چوبرجی ٹاور تعمیر کرکے اربوں روپے کما لئے۔ سابق گورنر ملک امیر محمد خان نے اس جگہ پر پارک بنانے کی اجازت دی تھی جس پر 1957ء میں چوبرجی ڈیپارٹمنٹ سکیم بنانے کیلئے ایک نوٹس جاری ہوا۔ مغلیہ بادشاہوں کی حکومت کے دور میں چوبرجی ان کا مین دروازہ تھا۔
ایم آر شاہد10کتابوں کے مصنف ہیں،
ادبی خدمات پر انہیں حکومت کی طرف سے
''تمغۂ امتیاز‘‘ مل چکا ہے، تحقیقی مضامین
لکھنے پر مہارت رکھتے ہیں۔