تمنا بیگم ٹی وی ، تھیٹر اور فلم کی کامیاب اداکارہ
اسپیشل فیچر
عام طور پر کسی بھی فلم کی کامیابی کا کریڈٹ چند لوگوں کو ہی دے دیا جاتا ہے، قلم کار، ہدایتکار، موسیقار اور پھر مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو فلم کی کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس ٹیم کے کسی رکن کی کارکردگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک فلم کی تکمیل میں بے شمار لوگ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ کسی کا حصہ زیادہ ہوتا ہے اور کسی کا کم۔ اداکاری کے حوالے سے یہ ضروری نہیں کہ صرف مرکزی کردار ادا کرنے والے ہی قابل تحسین ہیں بلکہ وہ لوگ جو معاون اداکار کے طور پر جلوہ گر ہوتے ہیں بعض اوقات اپنی لاجواب کارکردگی کے ایسے نقوش چھوڑتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں مرکزی کردارادا کرنیوالوں کی اہمیت کم محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ ان معاون اداکاروں کی شاندار کارکردگی کا اعجاز ہے جنہوں نے کئی ایک فلموں میں ہیرو اور ہیروئن کا کردار ادا کرنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ معاون اداکار اور اداکارائیں کسی بھی فلم کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی عظیم ترین فلم ''مغل اعظم‘‘ کو ذہن میں رکھئے۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں پرتھوی راج، مدھو بالا اور دلیپ کمار شامل تھے جنہوں نے بالترتیب اکبر اعظم، انار کلی اور شہزادہ سلیم کے کردار نبھائے تھے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے انتہائی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن ان کے علاوہ اگر ہم اس فلم کے معاون اداکاروں کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی نام یاد آتے ہیں جن میں نگار سلطانہ، کمار، اجیت اور درگاہ کھوٹے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں ایسی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں ان فنکاروں نے اپنی شاندار اداکاری کی بدولت فلم بینوں سے بے پناہ داد حاصل کی۔ پاکستانی فلموں میں بھی معاون اداکاروں اوراداکارائوں نے اپنی قابل تحسین کارکردگی کی وجہ سے نہ صرف فلموں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اپنے نام کا ڈنکا بھی بجایا۔ انہیں متعدد بار اپنی کارکردگی کی وجہ سے ایوارڈز بھی دیئے گئے ان میں وہ فنکار شامل تھے جو ولن اور کامیڈین کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ اسی طرح ساس، ماں اور مزاحیہ کردار ادا کرنے والی معاون اداکارائوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ اس سلسلے میں سلمیٰ ممتاز، بہار، صبیحہ خانم، نیر سلطانہ، سیما، تانی بیگم اور کئی دوسری اداکارائیں شامل ہیں۔ ان میں بہار، صبیحہ خانم اور نیر سلطانہ ایک زمانے میں ہیروئن کا کردار ادا کرتی رہیں جبکہ بعد میں وہ کریکٹر ایکٹرز کے طور پر جلوہ گر ہوئیں۔ معاون اداکارائوں میں ایک ممتاز نام تمنا بیگم کا بھی تھا۔ جنہوں نے ڈرامہ اور فلم آرٹسٹ کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ انہوں نے تھیڑ میں بھی کام کیا اور اس میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔1948ء میں پیدا ہونے والی تمنا بیگم صدا کارہ بھی تھیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں فلمی صنعت میں داخل ہوئیں اور 1990ء تک فلموں میں مختلف کردار ادا کرتی رہیں۔ انہوں نے فلموں میں مزاحیہ کردار بھی ادا کئے اور پھر ظالم ساس کا کردار بھی ادا کرتی رہیں۔ ظالم ساس کے روپ میں انہیں دیکھ کر بعض اوقات ہمیں بھارتی اداکار للیتا پوار یاد آ جاتی تھیں۔ انہوں نے زیادہ تر منفی کردار ادا کئے لیکن ان کی اداکاری میں اتنی بے ساختگی اور حقیقت پن تھا کہ فلم بین حیران رہ جاتے تھے۔ ان کی اداکاری کا ایک اور بڑا وصف مکالموں کی ادائیگی کا انتہائی فطری انداز تھا۔ وہ بڑے پراعتماد لہجے میں مکالمے ادا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ تھی کہ انہوں نے 1960ء میں ریڈیو پاکستان میں صداکارہ کی حیثیت سے کام شروع کیا جس سے ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ان کی مقبول فلموں میں''افشاں، الزام، نادان، مہندی اور بہن بھائی‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔1977ء میں انہیں فلم ''بھروسہ‘‘ میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے کئی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ اور اس میڈیم میں بھی انہوں نے حیران کن صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تمنا بیگم نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں''نوکر تے مالک‘‘ اور سوہرا تے جوائی‘‘ شامل ہیں۔ جس میں ان کے ساتھ رنگیلا اور ننھا تھے۔ تمنا بیگم لاہور میں پیدا ہوئیں لیکن بعد میں کراچی منتقل ہو گئیں انہیں حکومتی بے حسی پر بڑا قلق رہا۔ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔20فروری 2012ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 64برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ
''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)