ناصر کاظمی : اداسیوں اور ہجر کا شاعر
اسپیشل فیچر
2مارچ 1972ء کو وہ تیرا شاعر، وہ تیرا ناصرؔ عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ اداسی، مایوسی، جمالیاتی طرز احساس، سوزو گداز اور پھر حیات افروز رجائیت کی چادر اوڑھے ایک شاعر ہمیں تو اب تک ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھتا ہے۔ کیسا منفرد اور صاحب اسلوب شاعر ہے، یہ ہمارا ناصر کاظمی !
ناصر کاظمی کا اصلی نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 9دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، اسلامیہ کالج لاہور میں بھی زیر تعلیم رہے۔ 1945ء میں واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔مختلف جریدوں میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔
ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ آغاز میں وہ اختر شیرانی سے متاثر تھے اور ان کے اُسلوب میں رومانی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ اس کے بعد وہ غزل کی طرف آئے، جو بعد میں ان کا اصل میدان ٹھہری۔ وہ میر تقی میرؔ اور حفیظ ہوشیار پوری کے بہت بڑے مداح تھے اور ان کی غزلوں میں ان دونوں شعرا کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ ناصر کاظمی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔ ناصر کاظمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لاہور کے ٹی ہائوس میں بیٹھا کرتے تھے اور مال روڈ پر دوستوں کے ساتھ پھر ا کرتے تھے۔ انہیں درختوںسے بڑی محبت تھی۔ ان کی شاعری کا اہم ترین وصف سادہ اور سلیس زبان کا استعمال ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں درد، اُداسی اور مایوسی کے ساتھ خوشی، جذباتی محبت اور پھر کمال کی رجائیت بھی ملتی ہے۔ درد اور صدمے کی جو کیفیات ہمیں ناصر کاظمی کی شاعری میں جا بجا ملتی ہیں، وہ دراصل تقسیم ہند کا شاخسانہ تھا۔ ہجرت کا جو تجربہ انہوں نے حاصل کیا اس کی اپنی جہتیں ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری میں ہجرت کا تجربہ خوف اور دہشت کی صورت میں ملتا ہے۔ انہوں نے بلائیں، چڑیلیں اور ہوا کو خوف اور دہشت کے استعارے بنا کر پیش کیا۔
ناصر کاظمی کے شعری محاسن میں نکتہ آفرینی اور فطری حقائق کی لاجواب عکاسی بھی شامل ہیں۔ نکتہ آفرینی کے حوالے سے ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
ناصر کاظمی انسانی فطرت سے بھی خوب آشنا تھے، وہ اس فطرت کو کس خوبصورت طریقے سے بے نقاب کرتے ہیں، یہ بھی قابل تحسین ہے:
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ناصر کاظمی نے اپنی غزلوں میں جو تراکیب استعمال کیں، وہ بھی انتہائی اثر انگیز ہیں۔ اب ذرا ان کے مندرجہ ذیل اشعار پر غور کریں:
ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
ناصر کاظمی مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی شمع جلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی غزل کا مشہور مقطع ان کے اسی شعری رویے کا غماز ہے:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی کی شاعری میں ہمیں وہ الفاظ بھی اچھی خاصی تعداد میں مل جاتے ہیں، جو ان سے پہلے کسی دوسرے شاعر کی لغت میں نظر نہیں آتے۔ شعر ملاحظہ کریں:
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں
اور بال بنائوں کس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا
اب باہر جائوں کس کیلئے
ان کی شاعری میں ہمیں کئی جگہ ایسی صورتحال ملتی ہے جہاں وہ تجرید کو حقیقت کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ عمل اپنی جگہ تخلیقی بھی ہے اور اثر انگیز بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسی امیجری کو معرض وجود میں لاتا ہے کہ انسانی ذہن اس کے تانے بانے ملاتا رہتا ہے۔ اس عمل کی اس شعر سے بہتر کیا مثال ہو سکتی ہے!
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ہمارے کچھ جدید افسانہ نگار حقیقت کو تجرید کی سطح پر دیکھتے ہیں، لیکن شاعری میں تجرید کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی صلاحیت بھی انتہائی قابل تحسین اور اثر آفریں ہے۔ ہمیں یہ وصف ناصر کاظمی کی شاعری میں انتہائی شاندار انداز میں ملتا ہے۔ ان کی شاعری کا ایک اور بڑا وصف بھی قابل غور ہے اور وہ ہے سہل متمنع جسے انگریز میں ''ڈیسپٹیو سمپلی سٹی‘‘کہا جاتا ہے۔ اس عمل کو وہ بہت خوبصورتی سے اپنی چھوٹی بحر کی غزلوں میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں:
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
اور پھر فطرت انسانی کا یہ گوشہ جس احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی:
دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ انسان کا دل ویران ہو، تو اسے ہر طرف ویرانی ہی نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کے پاس زندگی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، جنہیں وہ وقفے وقفے سے اشعار کی شکل میں ڈھالتا رہتا ہے۔ 2مارچ 1972ء کو ہمارا یہ شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا اور اپنے لاتعداد مداحین کو بھی اداس کرگیا۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ