’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ حبیب جالب کی فلمی شاعری
اسپیشل فیچر
آج حبیب جالب کا یوم وفات ہے۔حبیب جالب کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے اور کچھ لوگ انہیں ''شاعر انقلاب‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے عمر بھر انسانی حقوق اور سچی جمہوریت کیلئے جدوجہد کی۔ ایک جہد مسلسل تھی جوان کی موت تک جاری رہی۔ انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ان کی مزاحمتی شاعری نے ان گنت لوگوں کو متاثر کیا۔ وہ سیاسی کارکن بھی تھے اور شعلہ بیاں مقرر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ''سر مقتل، ذکر بہتے خون کا، گنبد بیدار، اس شہر خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرف حق، حرف سردار، اور عہد ستم‘‘ شامل ہیں۔
حبیب جالب نے فلمی شاعری بھی کی اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس میدان میں بھی انہوں نے منفرد مقام بنایا۔اگرچہ انہوں نے بہت زیادہ گیت نہیں لکھے لیکن جتنے بھی لکھے شاندار لکھے ۔
جالب نے جس زمانے میں فلمی شاعری کی اس وقت قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، فیاض ہاشمی، مسرور انور اور کلیم عثمانی کا طوطی بولتا تھا۔ حبیب جالب نے فلمی شاعری کو نیا انداز دیا اور سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ ان کی خوش بختی یہ تھی کہ انہیں ریاض شاہد جیسا سکرین رائٹر، ہدایتکار اور مکالمہ نگار مل گیا۔ دونوں ترقی پسند نظریات رکھتے تھے اور دونوں نے کمال کی فلمیں بنائیں۔ 1964ء میں '' خاموش رہو‘‘ ریلیز ہوئی جس کے مکالمے ریاض شاہد نے تحریر کیے اور گیت حبیب جالب نے لکھے۔ اس کا ایک گیت بہت مشہور ہوا۔'' میں نے تو پریت نبھائی‘‘۔ اس کے بعد فلم ''شام ڈھلے‘‘ میں ان کا لکھا ہوا گیت سلیم رضا نے گایا جو بہت مشہور ہوا۔ اس کے بول تھے''بھول جائو گے تم، کرکے وعدہ صنم‘‘۔ 1966ء میں حبیب جالب نے منور رشید کی فلم ''کون کسی کا‘‘ کے نغمات لکھے جن سے انہیں بہت شہرت ملی۔ خاص طور پر نسیم بیگم اور مسعود رانا کا گایا ہوا یہ دو گانا بہت پسند کیا گیا'' دے گا نہ کوئی سہارا، ان بے درد فضائوں میں، سوجا غم کی چھائوں میں‘‘۔ منظور اشرف کی خوبصورت موسیقی نے اس فلم کے گیتوں کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا اور فلم بھی سپرہٹ ہو گئی۔ فلم کے چھ گانوں میں ایک گانا فیاض ہاشمی نے لکھا اور باقی پانچ گانے حبیب جالب نے تحریر کیے۔ اس فلم کے دیگر گانوں میں ''دل دل سے ٹکرا گیا اور چپکے سے وار کیا‘‘ بھی بہت ہٹ ہوئے۔
1969ء میں ریاض شاہد کی فلم ''زرقا‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں حبیب جالب کے علاوہ خواجہ پرویز اور ریاض شاہد نے بھی گیت لکھے۔ یہ فلم فلسطین کی تحریک آزادی پر بنائی گئی۔ اس فلم میں مہدی حسن نے حبیب جالب کا لکھا ہوا جو گیت گایا وہ مہدی حسن کی فلمی گائیکی کا سب سے بڑا گیت ہے۔موسیقار رشید عطرے نے اس گیت کو ایسی موسیقی دی جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ اس نغمے کے بول تھے ''یا زرقا، تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘۔ ''زرقا‘‘ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے کراچی میں ڈائمنڈ جوبلی کی۔ مذکورہ بالا گیت کے حوالے سے حبیب جالب''جالب بیتی‘‘ میں کہتے ہیں ''ریاض شاہد میرا بہت اچھا دوست تھا اور بہت ذہین بھی تھا۔ لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ بہت کنجوس تھا۔ جب اس نے فلم ''زرقا‘‘ میں میرا گیت ''رقص زنجیرپہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ شامل کیا تو میرے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر یہ گیت ہٹ ہو گیا تو وہ مجھے 5000روپے انعام دے گا۔ گانا ہٹ نہیں سپر ہٹ ہو گیاتو ریاض شاہد انعام دینے میں لیت و لعل سے کام لینے لگا، لیکن آخر میں نے پیسے لے ہی لیے۔
1971ء میں ''یہ امن‘‘ ریلیز ہوئی جو ریاض شاہد نے کشمیر کی آزادی پر بنائی۔ یہ فلم سنسر بورڈ کی قینچی کی زد میں آ گئی۔ خاصی کانٹ چھانٹ کے باوجود اس فلم کو عوام نے پسند کیا۔ اس فلم کے تمام گانے حبیب جالب نے لکھے۔ شاہکار گیت ''ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘ آج بھی پہلے دن کی طرح مقبول ہے۔ اس فلم کے گیت نشو، سنگیتا اور جمیل پر پکچرائز کئے گئے۔ فلم کے دوسرے گیتوں کو بھی شائقین نے بہت سراہا۔ خاص طور پر یہ کورس ''جب تک چند لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں، اپنی جنگ رہے گی‘‘۔ اے حمید نے اس فلم کی موسیقی دی جو انتہائی متاثر کن تھی۔
1972ء میں ہدایتکار رضا میر کی فلم ''ناگ منی‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے نغمات بھی بڑے مشہور ہوئے۔ اس میں حبیب جالب کا لکھا ہوا یہ گیت ''میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسم‘‘ آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ پھر اسی گیت میں وہ لکھتے ہیں ''مسکرا جان بہاراں کہ سویرا ہوگا، ختم صدیوں سے رواجوں کا اندھیرا ہوگا‘‘۔ اس گیت میں انہوں ایک رجائیت پسند انقلابی کا پیغام دیا ہے۔''ناگ منی‘‘ کے لکھے ہوئے دیگر نغمات بھی ہٹ ہوئے۔
1972ء میں ریاض شاہد کے انتقال کے بعد حبیب جالب اور ریاض شاہد کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ جالب صاحب نے فلمی گیت بھی غیر روایتی انداز میں لکھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں اور نظموں کی طرح ان کے فلمی نغمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں
حبیب جالب کے فلمی گیت
میں نے تو پریت نبھائی...( خاموش رہو)
بھول جائو گے تم ... (شام ڈھلے)
دے گا نہ کوئی سہارا...( کون کسی کا)
اس شہر خرابی میں...( موسیقار)
شوق آوارگی... (جوکر)
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے... (زرقا)
ظلم رہے اور امن بھی ہو...( یہ امن)
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا...( سماج)
میرا ایمان محبت ہے... (ناگ منی)
دل سے دل ٹکرا گیا...( کون کسی کا)