انقلاب کیوبا ۔۔۔۔ ایک جنگی قیدی کی سرگزشت
اسپیشل فیچر
کیوبا کا انقلاب یوں منفرد تھا کہ امریکی سرپرستی میں چلنے والا ایک ایسا ملک جس کی معیشت اور کاروبار کا دارومدار ہی امریکی سرپرستی پر تھا ۔سرحدیں بھی امریکہ سے زیادہ دور نہ تھیں۔تو پھر ایسا کیا تھا کہ اس کے نہ صرف فاصلے امریکہ سے بڑھ گئے بلکہ آن کی آن میں کیوبا کا سیاسی ڈھانچہ بھی کمیونزم میں تبدیل ہو گیا۔
2 جولائی 1959ء کو اپنے پیشرو امریکہ نواز بتیستا کا تختہ الٹنے کے بعد جب فیدل کاسترو نے کیوبا کا اقتدار سنبھالا تو عملاً اس کی راہیں امریکہ سے جدا ہو گئیں۔ اپریل 1961ء میں امریکہ نے کاسترو کے اقتدار کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس کے لیے اس نے ان باغیوں کو چن چن کر تلاش کیا اور انہیں عسکری تربیت دینے کے بعد غیر سرکاری فوج میں بھرتی کیا جو کاسترو کے اقتدار میں آنے پر سرحد پار چلے گئے تھے۔ دراصل امریکہ کا پروگرام کیوبا کے معروف ساحل ''بے آف پگز‘‘ پر حملہ کرنا تھا۔ جس کیلئے 1400افراد پر مشتمل ایک دستہ ترتیب دیاگیا جسے ''بریگیڈ نمبر 2506‘‘ کا نام دیا گیاتھا۔
یہ 17اپریل 1961ء کا دن اور صبح کا ایک بجا تھا جب باغی حملہ آوروں کی کشتیاں لارگا کے ساحل پر پہنچتی ہیں۔ یہ بے آف پگز کے اندر ایک تنگ سی گلی ہے۔ حملہ آور خاموشی سے حملہ آور ہونا چاہتے تھے لیکن کاسترو جو خود بھی ایک زیرک اور شاطر سپہ سالارتھا اور وہ پہلے ہی سے اس حملے کیلئے تیار تھا۔ اس حملے میں 300 حملہ آور مارے گئے جبکہ 1100 کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔
جونی لوپیز ڈی لاکروز ان باغی حملہ آوروں میں سے ایک تھا جو زندہ گرفتار ہو کر ایک عرصہ تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا ہے۔ وہ اب امریکہ میں ''بریگیڈ نمبر 2506‘‘ کے اراکین کی تنظیم کا صدر ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے 80سالہ جونی اپنی اسیری کی کہانی سناتے ہوئے بتا رہے تھا '' میں ایک پرانی سی بس میں ان سو قیدیوں کے ہمراہ سوار تھا جو کسی نامعلوم مقام کی جانب ہمیں لیکر جا رہی تھی۔ بمشکل چالیس پچاس سواریوں والی بس کے اندر ہم 100 سواروں کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ پسینے سے شرابور تھے۔کچھ بس کے سوراخوں سے تازہ ہوا حاصل کر کے مزید زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے تھے جبکہ بیشتر قیدی بار بار بے ہوش ہو رہے تھے۔ ان میں سے اکثر اس خوف میں مبتلا تھے کہ انہیں منزل پرپہنچتے ہی گولی مار دی جائے گی۔
میرا دم بھی گھٹنے لگا اور لگا جیسے میں بے ہوش ہو جاؤں گا۔میں نے بس کی کھڑکی کھولنے کی کوشش کی اس وقت ہماری بس شہر کے قریب پہنچ کر رینگتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی اور سڑک کے دونوں کنارے لوگوں کا ہجوم ہمارے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔
بس 7 گھنٹوں بعد اپنی منزل پر پہنچتی ہے۔جوں ہی بس کا دروازہ کھولا گیاکئی لاشیں زمین پر آن گریں۔میں جب بس سے اتر رہا تھا تو مجھ سے صحیح طور پر چلا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس'' موت کی بس‘‘ کے علاوہ بھی کئی بسیں ہمارے ساتھ ساتھ ہم سفر تھیں۔ 72 گھنٹے پہلے کیوبا کے ساحل پر شکست کھانے والے ہم 1100 افراد 19 اپریل کو جنگی قیدی بن کر جس مقام پر لائے گئے ہیں یہ کیوبا کا شہر ہوانا ہے۔
ابھی ہمیں جیل بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ کیوبا کا انقلابی لیڈر چی گویرا آ گیا۔اگرچہ وہ پر سکون تھا لیکن نہ جانے کیوں ہم میں سے اکثر کو یقین تھا کہ یہ ہمیں گولی مار دے گا۔
آخر کار ہمیں جیل بھیج دیا گیا۔ تنگ کوٹھڑیوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کو گھسیڑا گیا اور پھر سونا بھی سب کو ننگے فرش پر تھا۔ سگریٹ لینا مشکل تھا، اکثر قیدی ساتھیوں کے استعمال شدہ سگریٹ کے آخری حصے استعمال کر کے سگریٹ نوشی کرتے تھے۔جب ہمیں صحن میں چہل قدمی کیلئے لے جایا جاتا تو آہستہ چلنے پر نگران ہمیں ڈنڈے مارتے ۔ جیل کے برآمدے میں ڈیڑھ سو کے قریب قیدی ٹوائلٹ جانے کیلئے قطار میں کھڑے تھے کیونکہ صرف ایک ٹوائلٹ تھی۔
ہمیں کافی کا ایک کپ دیا جاتا جو حقیقت میں گندا پانی ہوتا تھا۔ کپ ہمارے حوالے کرنے سے پہلے وہ اس میں کئی دفعہ تھوکتے تھے۔روٹی ہمارے سامنے ایسے پھینکی جاتی جیسے جانوروں کے سامنے پھینکی جاتی ہے اور روٹی بھی کیا ہوتی پتھر کی طرح سخت جسے پانی میں ڈبو کے نرم کرنا پڑتا تھا۔ کھانے کی مقدار بھی انتہائی کم ہوتی تھی۔
لوپیز ڈی لا کروز کہتے ہیں میں نے تین ماہ کا عرصہ قید تنہائی میں بھی گزارا تھا کیونکہ میں نے قید سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے مجھے خطرناک قیدی قرار دے دیا گیا تھا۔ہمیں کئی ماہ تک غداری کے جرم میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم میں سے اکثر کا خیال تھا کہ ہمیں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی سے اڑا دیا جائے گالیکن عدالت نے 30سال قید کی سزا سنائی۔
امریکی صدر کینیڈی قیدیوں کی رہائی کیلئے کاسترو سے مکمل رابطے میں رہے۔ انہوں نے ایک نامور وکیل جیمز بی ڈونوون کو کاسترو سے قیدیوں کی رہائی کو آخری شکل دینے کیلئے 30 اگست 1962ء کو ہوانا بھیجا۔ دسمبر 1962ء میں کاسترو نے بھاری جنگی نقصان کے ہرجانے کے عوض قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا۔
آخر کار پین امریکن ائیر لائنز کی پروازوں کے ذریعے 23 دسمبر 1962ء کو جنگی قیدیوں کی میامی روانگی کا سلسلہ شروع ہوا جہاں ''ڈنر کیو آڈیٹوریم‘‘ میں دس ہزار افراد پہلے سے ہی قیدیوں کے استقبال کے منتظر تھے۔ میں چونکہ خطرناک قیدی قرار دیا گیا تھا اس لئے میری باری آخری پرواز پر تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب دوران پرواز میں نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور سوچا کہ اب میں شاید اپنے ملک کیوبا کبھی واپس نہیں جا سکوں گا۔