یادرفتگان: لازوال مزاح کے خالق مشتاق احمد یوسفی
اسپیشل فیچر
ادب کی دنیا کے عظیم انسان ابن انشاء نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ''اگر مزاح کے دور کو کسی کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے تو بلاشبہ وہ ایک ہی شخصیت ہے، جس کا نام ہے مشتاق احمد یوسفی۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے بقول ''ہم مزاح کے عہد یوسفی میں زندہ ہیں‘‘۔ لطافت اورمزاح نگاری کی سلطنت پر برسوں راج کرنے والے ممتاز ادیب کی آج چوتھی برسی ہے۔
مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923ء کو بھارتی ریاست راجھستان کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔ 1945ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا۔ 1946ء میں پی سی ایس کر کے وہ ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ اگلے ہی برس یعنی 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور کراچی آ بسا۔کراچی آ کر انہوں نے شعبہ بدل لیا اور سول سروس کے بجائے بینکنگ سے وابستہ ہو گئے۔ اس شعبہ میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے 1974 میں وہ ایک بینک کے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں بینکنگ کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ 1979ء میں انہوں نے لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔1990 میں ریٹائر ہو کر مستقل کراچی آ بسے اور تادمِ مرگ وہیں مقیم رہے۔ بینکنگ کے شعبے میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیںقائد اعظم میڈل سے نوازا گیا۔
مشتاق یوسفی نے اپنی ساری زندگی میں اگر مزاح کیا ہے تو وہ ایسا تھا کہ آپ جب چاہتے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو روا کر دیتے اور جب چاہتے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر جاتے۔ ادبی دنیا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلی بار مشتاق احمد یوسفی نے انہیں جس دن رلایا وہ دن تھا 20 جون 2018ء کا جب وہ انہیں چھوڑ کر دارفانی سے رخصت ہوئے۔
مزاح نگاری کی دنیا میں ہر مزاح نگار نے اپنا ایک منفرد اسلوب متعارف کرایا ہے، اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں امتیاز علی تاج، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں بلکہ صورتحال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی فلسفے کی ڈگری کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ وہ کرداروں سے نہیں بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا بلکہ ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے۔ ملاحظہ ہو ان کے مضمون ''فیوڈل فینٹسی‘‘ سے ایک اقتباس:
''بشارت کے ذہن میں عیش و تنعم کا جو صد رنگ و ہزار پیوند نقشہ تھا وہ بڑی بوڑھیوں کی اس رنگا رنگ رلّی کی مانند تھا جو وہ مختلف رنگ کی کترنوں کو جوڑ جوڑ کر بناتی ہیں۔ اس میں اس وقت کا جاگیردارانہ طنطنہ اور ٹھاٹ، بگڑے رئیسوں کا تیہا اور ٹھسا، مڈل کلاس دکھاوا، قصباتی اِترونا پن، ملازمت پیشہ نفاست، سادہ دلی اور ندیدہ پن۔ سب بری طرح سے گڈمڈ ہو گئے تھے۔ انہی کا بیاں ہے کہ بچپن میں میری سب سے بڑی تمنّا یہ تھی کہ تختی پھینک پھانک، قاعدہ پھاڑ پھوڑ کر مداری بن جاؤں، شہر شہر ڈگڈگی بجاتا، بندر، بھالو، جھمورا نچاتا اور ''بچہ لّوگ‘‘ سے تالی بجواتا پھروں۔ جب ذرا عقل آئی، مطلب یہ کہ بد اور بدتر کی تمیز پیدا ہوئی تو مداری کی جگہ اسکول ماسٹر نے لے لی۔ اور جب موضع دھیرج گنج میں سچ مچ ماسٹربن گیا تو میرے نزدیک انتہائے عیاشی یہ تھی کہ مکھن زین کی پتلون، دو گھوڑا بوسکی کی قمیض، ڈبل قفوں میں سونے کے چھٹانک چھٹانک بھر کے بٹن، نیا سولا ہیٹ اور پیٹنٹ لیدر کے پمپ شوز پہن کر اسکول جاؤں اور اپنی غزلیات پڑھاؤں۔‘‘
یوسفی نے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز 1955ء میں کیااور پہلا مضمون ''صنفِ لاغر‘‘ کے نام سے لکھاجو ترقی پسند رسالے ''سویرا ‘‘ میں شائع ہواجس کے اس وقت مدیر حنیف رامے تھے۔ حنیف رامے کی شہ پا کر یوسفی نے مختلف رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کیے جو 1961ء میں یوسفی کی شائع ہونے والی پہلی کتاب ''چراغ تلے‘‘ کا حصہ بنے۔ لوگوں نے اس سے قبل اس قسم کی تحریریں پڑھی نہیں تھیں اس لیے انہیں لے کر خوب بحث ہوئی، سوال اٹھائے گئے کہ ان ادبی پاروں کو کیا کہا جائے؟ انہیں مضمون کا نام دیا جائے، انشائیہ کہا جائے یا پھر افسانے سمجھا جائے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اب تک درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو!
''اردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکے۔ کھاٹ، کھٹا، کھٹالہ، اُڑن کھٹولہ، کھٹولی، کَھٹ، چَھپر کَھٹ، کھرا، کھری، جھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، چارپائی نواری، مسہری، منجی۔ یہ نامکمل فہرست صرف اردو کی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تمدن میں اس کا مقام ومرتبہ متعین کرتی ہے لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کے بچے کھچے اور ٹوٹے ادھڑے بانوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے محض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتے داروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑے وقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے‘‘۔(چراغ تلے سے اقتباس)
مشتاق یوسفی کی دوسری تصنیف کیلئے ان کے چاہنے والوں کو تقریباً 9 سال انتظار کرنا پڑا۔ ''خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں منظرعام پر آئی اوراسے ادبی اعزاز'' آدم جی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ یہی ایوارڈ 1976ء میں یوسفی کی تیسری کتاب ''زرگزشت‘‘ کو بھی ملا۔ یہ کتاب بھی پچھلی دونوں کتابوں سے مختلف تھی جسے ان کی ڈھیلی ڈھالی خودنوشت سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ خود یوسفی نے اسے اپنی ''سوانحِ نوعمری‘‘ قرار دیا۔ جبکہ اس میں نوعمری کا نام و نشان تک نہیں۔ اس کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب یوسفی نے پاکستان آ کر بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا آغاز کیا ۔
1989ء میں ان کی چوتھی اور ایک اہم ترین کتاب ''آبِ گم‘‘ شائع ہوئی۔ اس کی ہیئت بھی پچھلی تینوں کتابوں سے مختلف تھی، بعض لوگوں نے اسے ناول بھی قرار دیا۔ اس کے بعد یوسفی نے ایک لمبی چپ سادھ لی، چوتھائی صدی کے مراقبے کے بعد یوسفی کی پانچویں کتاب 2014ء میں چھپی جسے پڑھ کر ان کے مداحوں کو خاصی مایوسی ہوئی۔ اس میں مختلف ادوار میں لکھے گئے مضامین، خطبات اور تقاریر اکٹھی کی گئی تھیں۔
ادبی میدان میں ان کی خدمات کا اعتراف حکومتی سطح پر دو بار کیا گیا۔ 1999ء میں انہیں '' ستارہ امتیاز‘‘ جبکہ 2002ء میں ''نشان امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔