کوہ چلتن
اسپیشل فیچر
پاکستان کے 44 فیصد رقبے پر محیط صوبہ بلوچستان جو رقبے میں جتنا بڑا ہے آبادی میں اتنا ہی کم ہے۔ مکران سے قلات کی وادیوں تک یہ صوبہ معدنیات سے بھرپور ہے اور جہاں یہ صوبہ اپنے اندر معدنیات کے ذخائر سمیٹے ہوئے ہے وہیں پر اس صوبے میں کئی پر اسرار کہانیاں بھی مدفون ہیں جو اس صوبے کی تاریخ کو دونوں بازوؤں میں لپیٹے عرصہ دراز سے آوارہ لوگوں کی سماعت سے ٹکرا رہی ہیں ۔ کئی منچلے تو اْن کہانیوں کو سن کر یہاں کا رْخ کرتے ہیں اور کئی ان کہانیوں میں ڈوب کر اس دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں۔ یہ داستان بھی ایک ایسے ساکت پہاڑ کی ہے جو عرصے سے ایک کہانی سموئے ساکت پڑا ہے ۔ہر سال سینکڑوں لوگ اس کی ہیبت کو ماپنے کوئٹہ سے بیس کلومیٹر جنوب میں دشتِ بیدولت سے ذرا پار اس علاقے کی جستجو میں آتے ہیں اور اس میں پنہاں پراسرار کہانی کو اپنے لاشعور کی ڈکشنری میں محفوظ کیے چلے جاتے ہیں یا شاید وہیں کہیں بھٹک جاتے ہیں ،یہ معمہ ابھی تک ابہام کا شکار ہے۔
کوئٹہ سے 20 کلومیٹر جنوب میں ہزارگنجی وادی ہے اس وادی کے اطراف میں سلیمانیہ رینج میں واقع پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا نام مقامی لوگوں نے ایک کہانی کے بعد چہل تن (چالیس روحیں ) رکھا۔ چہل تن براہوی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب چالیس جانیں یا چالیس روحیں ہے، پھر وقت کے گزرتے اس نام کو مقامیوں اور یہاں آنے والے سیاحوں نے اپنی آسانی کے لیے چلتن رکھ دیا تب سے یہ پہاڑی سلسلہ کوہِ چلتن کے نام سے مشہور ہو گیا۔
ہزارگنجی وادی میں ایک چرواہا اپنی بیوی کے ساتھ رہا کرتا تھا ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی ۔ منتوں اور ہزار جتن کے بعد ان کے ہاں اولاد ہوئی اور ایک نہیں چالیس اولادوں سے ان کی گود کو بھر دیا گیا۔ غربت کی وجہ سے چالیس بچوں کو پالنا ان کے لیے خاصہ مشکل تھا اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک بچے کو رکھیں گے اور باقی کے بچوں کو اوپر پہاڑ پر موجود جنگل میں چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ایک بچے کو رکھنے کے بعد باقی کے سارے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بچے نوزائیدہ ہیں اور جنگل میں ان کا بچنا نا ممکن ہے لیکن قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ان کے آبا ؤ اجداد سے چلے آ رہے اس قصے کے مطابق وہ تمام بچے زندہ رہے اور قدرت کی گود میں پلنے والے وہ بچے عام لوگوں سے زیادہ قوتوں کے مالک بن گئے۔ پھر ایک دن اس چرواہے کے بچے کو بھی اٹھا لیا گیا اور مقامی کہتے ہیں یہ کام بھی ان بچوں کا ہی تھا اور تب سے وہ چالیس بچے اس پہاڑ پر قابض ہیں۔ ان کے وجود کی حقیقت مبہم ہے پر کسی قوت کی موجودگی کے شواہد وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں۔
کوہِ چلتن جو نام سے ہی اپنی داستان بیان کرتا ہے ایک پتھریلا پہاڑ ہے جس پر سبزہ لگ بھگ ناپید ہے لیکن اس پتھریلے پہاڑ کو ایک سیاحتی وادی میں بدلنے کا فن محض اْس ایک کہانی نے پیش کیا ہے۔ وہاں لوگ وادی کو دیکھنے نہیں بلکہ اس کہانی کی صداقت کو جاننے یا ان بچوں کی موجودگی کے شواہد اکٹھے کرنے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی ان پہاڑوں میں سیاحوں کی ملاقات کچھ مقامی بچوں سے ہوتی ہے جو بظاہر کوئی معیوبی کا عنصر پیش نہیں کرتے پر کچھ سیاح پہاڑ کے اندر ایسے کھوئے کہ اگر ان کے ساتھ کا عملہ وہاں ان کی تلاش میں نا نکلتا تو شاید ان کا واپس آنا ناممکن تھا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہم نے راستہ یہاں موجود بچوں سے پوچھا تھا جبکہ مقامی لوگوں نے نفی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے گھروں میں سے کوئی بچہ بھی پہاڑوں کی جانب نہیں گیا اور نا ہی کسی بچے کو وہاں جانے کی اجازت ہے ۔ تب جا کر معلوم ہوا کہ یہ معاملہ پہلے بھی کئی بار پیش آ چکا ہے کہ سیاحوں کی جانب سے رستہ بھٹکنے پر کچھ بچے نمودار ہوتے ہیں اور وہ مزید راستہ بھٹکا کر چلے جاتے ہیں جس کے باعث سیاحوں کا اس پہاڑ سے واپس آنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ اب وہاں پر موجود مقامی لوگوں کی جانب سے سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ پہاڑ کی جانب مت جائیں اگر پھر بھی کوئی جانا چاہتا ہے تو اسے تاکید کی جاتی ہے کہ بالفرض وہ راستہ بھول بھی جاتا ہے تو رہنمائی کے لیے کسی کی مدد حاصل مت کریں۔
کوہِ چلتن ساحلِ سمندر سے دس ہزار چار سو اناسی (10479) فٹ کی بلندی پر واقع بلوچستان کا تیسرا بڑا پہاڑ ہے اور ایک مکتبہِ فکر کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ کہانی فرضی ہے اور اسے اس لیے گھڑا گیا ہے تا کہ کوہِ چلتن میں موجود بیش قیمتی ذخائر پر کسی کی نظر نا پڑے اب حقیقت کیا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس طرح کی بیشتر کہانیاں بلوچستان کے خطے میں ہر جگہ موجود ہیں جو کئی لوگوں کے لیے تو وہاں نا جانے کی وجہ ثابت ہوتی ہیں تو کئی لوگ صرف ان کہانیوں کو سن کر ان کی کھوج میں ان پہاڑوں کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ کہانی میں سچائی کا عنصر ہو نا ہو لیکن اس جگہ میں کوئی خاص بات ضرور ہے جو اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ میلوں دور شخص اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ اگر آپ کا کبھی بلوچستان جانے کا اتفاق ہو اور اتفاق سے آپ کوہِ چلتن پر بھی جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور وہاں کہیں پہاڑوں کی بھول بھلیاں میں آپ کھو جائیں تو راستہ ہر گز مت پوچھئے گا۔