راولپنڈی کی قدیم حویلیاں
راولپنڈی نے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ مغلوں نے مغل سرائے اور پرانا قلعہ بنوایا جبکہ سکھوں نے اس علاقے کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا اور یہاں عالیشان خوبصورت حویلیاں اور گردوارے تعمیر کروائے۔ انگریزوں نے اپنے عہد میں پنڈی کینٹ میں ریلوے سٹیشن، کینٹ بورڈ بلڈنگ، ناردرن کمانڈ کے دفاتر مع کلکتہ ہائوس (موجودہ وزارت دفاع) کی عالیشان عمارت تعمیر کروائی۔ مغل دور کی مغل سرائے اور شاہ چن چراغ کا مزار بھی اسی شہر میں واقع ہے۔ اندرون شہر راولپنڈی کی قدیم حویلیوں میں لال حویلی، سردار سوجان سنگھ حویلی، حویلی سردار پردیپ سنگھ اور حویلی راجا پرتاب سنگھ شامل ہیں جو سکھ دور کی مشہور ومعروف یاد گاریں ہیں۔ یہ حویلیاں قدیم طرز تعمیر کا نمونہ اور شہر کی ثقافت کی آئینہ دار ہیں۔
لال حویلی
''لال حویلی‘‘ بھابھڑا محلہ کی نکڑ پر بوہڑ بازار میں واقع ہے اور پرانے عہد کے فن تعمیر کا عظیم شاہکار ہے۔ یہ اپنے وقت کی بڑی خوب صورت عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ حویلی اب بھی اصل حالت میں محفوظ ہے اور پنڈی کا بچہ بچہ اس حویلی سے واقف ہے ۔ناصرف ملک بلکہ دنیا بھر میں معروف یہ حویلی آج کل شیخ رشید احمد کے زیر استعمال ہے۔
''لال حویلی‘‘ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ملکیت ہے اور شیخ رشید احمد اس کے کرایہ دار ہیں۔ لال حویلی کے ساتھ والی گلی بھابھڑا بازار میں جا کر نکلتی ہے۔ یہ بازار پنڈی کا قدیم محلہ تصور ہوتا ہے۔ یہاں مکانات میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اس وقت کی یاد دلاتی ہے جب تقسیم ہند سے پہلے یہاں مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے آباد تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ حویلی جہلم کی امیر ترین سہگل فیملی کے لالہ دھن راج سہگل نے تعمیر کروائی اور اسے اپنی بیوی مدھو بیگم کی رہائش گاہ بنا دیا۔ اس حویلی کو اس وقت ''سہگل حویلی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
حویلی سردار سوجان سنگھ
بھابڑا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں یہ حویلی1890ء میں تعمیر کی گئی۔ یہ عہد ماضی کی یاد گار ہے۔ مشرقی طرز تعمیر کا یہ ایک نادر نمونہ ہے مگر وقت نے اسے شکست وریخت سے دوچار کر دیا ہے۔ سردار سوجان سنگھ کو 1888ء کو ''سر‘‘ اور 1892ء میں ''رائے بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ سردار سوجان سنگھ نے بھابڑا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں محلہ شاہ چن چراغ کے پیچھے '' سوجان سنگھ پیلس‘‘ اور گارڈن تعمیر کروایا۔ اس کا کورڈ ایریا قریباً 30 ہزار مربع فٹ ہے جبکہ مغرب کی طرف تقریباً 1087 مربع فٹ اوپن ایریا ہے۔ یہ چار منزلہ عمارت ہے جو کہ نانک شاہی اینٹوں سے بنی ہے۔ یہ حویلی45کمروں، وسیع دالان اور برآمدے پر مشتمل ہے جو کہ روشن، ہوا دار، نہایت خوبصورت تھا جبکہ فرش نہایت خوبصورت ٹائلوں سے بنے ہوئے تھے گو کہ وقت کے ساتھ یہ شان و شوکت معدوم ہو گئی مگر کھنڈرات آج بھی حویلی کی عظمت رفتہ کا نشان ہیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس حویلی سے ایک لمبی سرنگ موجودہ فاطمہ جناح یونیورسٹی تک جاتی تھی جبکہ دوسری سرنگ باغ سرداراں کے قریب ایک گردوارہ تک جاتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد ان سرنگوں کے آثار اب ختم ہو چکے ہیں۔
تاریک اور تنگ گلیوں میں واقع ہونے کے سبب یہ یونیورسٹی تو نہ بن سکی مگر نیشنل کالج آف آرٹس( این سی اے) کا فیلڈ آفس بن گیا۔اس کے سامنے '' منموہن سنگھ حویلی‘‘ ہے اور یہ دونوں حویلیاں لکڑی کے پل کے ذریعے آپس میں ملی ہوئی ہیں۔
حویلی باغ سرداراں
خوبصورت باغ کے حسین و جمیل چمنستان پھولوں سے لدے ہوئے باغات اور لان میں سر سبز گھاس نہایت خوشگوار احساس اور ٹھنڈک بخشتی ہے۔ باغ سرداراں مرکزی جامع مسجد کے پچھلی طرف واقع ہے۔ جامع مسجد سے کچھ آگے بڑھ کر شاہ نذر کے پل تک آبادی تھی۔ بائیں ہاتھ پل والی سڑک سے آخری نکڑ پر مڑیں تو باغ سرداراں اور اس سے ملحقہ مکانات اور آبادی تھی۔ اس باغ سے ملحق نہرو روڈ پر سردار سوجان سنگھ کی لائبریری تھی جس میں ہزاروں نایاب کتب موجود تھیں، جن سے تمام مذاہب کے لوگ استفادہ کرتے۔ لائبریری کے اوپر گھنٹہ گھر تھا جو ہر گھنٹے بعد بجتا اور اہل شہر کو وقت سے آگاہ کرتا تھا۔
حویلی سردار پردیت سنگھ
''حویلی سردار پردیت سنگھ‘‘ باغ سرداراں کے اندر واقع تھی۔ یہ باغ سردار سوجان سنگھ کی یاد گار ہے، جس کے بیٹے سردار پردیت سنگھ نے یہ حویلی برطانیہ کے شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم کے نام 19 اگست 1902ء کو وقف کر دی تھی۔
حویلی راجہ پرتاب سنگھ
1860ء میں پونچھ کے راجہ پرتاب سنگھ نے راجہ بازار کے اندر یہ حویلی بنوائی اور یہاں بعد ازاں دکانیں بنتی چلی گئیں اور انگریز دور میں ڈپٹی کمشنر نے 1879ء میں اسے باقاعدہ بازار کی شکل دے دی۔