گوادر اور بیوسیفیلس سکندر اعظم
اسپیشل فیچر
تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی ایسے حکمرانوں کا مقدر رہی ہے جنہیں قدرت نے دوراندیشی اور وژن کی صلاحیت سے مالا مال کر رکھا تھا۔ان صفات سے مالا مال ایک ایسا ہی کردار سکندراعظم کا تھا۔ جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ چلتے چلتے کہیں رک جاتا تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ کچھ خاص دیکھ چکا ہے۔ سکندر اعظم کے وژن یا دور اندیشی کی بھلا اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ جب ہندوستاں فتح کر کے وہ واپس یونان جانے لگا تو اس کا گزر بلوچستان کے علاقے ویران اور چٹیل گوادر سے ہوا۔ چلتے چلتے اس نے ایک نظر اس ویرانے پر ڈالی اور اپنی فوج کو حکم دیا یہاں کچھ عرصہ کیلئے قیام کیا جائے۔ اگلے ہی روز اس نے اپنے نائب خاص کو طلب کیا اور کہا اس علاقے کو غور سے دیکھو۔ کہتے ہیں نائب خاص نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور ناگواری سے کہا یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سکندر اعظم کا تاریخی جواب آج بھی کتابوں میں شاید محفوظ ہو گا ''ہاں یہاں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہاں سب کچھ ہے‘‘۔
آج لگ بھگ 2400 سال بعد وقت نے ثابت کر دکھایا ہے کہ گوادر میں واقعی سب کچھ ہے۔ یہ وژن اسی بادشاہ کا ہی تھا جس نے20 سال کی عمر میں اپنے لئے ایک ایسے اڑیل، وحشی اور سرکش گھوڑے کا انتخاب کیا جو کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دے رہا تھا۔ آگے جا کر دنیا نے دیکھا کہ 12 سال تک ''بیوسیفیلس‘‘ نامی اسی ایک گھوڑے کے ذریعے 12ہزار میل کا سفر طے کر کے آدھی دنیا فتح کرنے والا 32سالہ یہ فاتح عالم بڑا ہو کر ''الیگزینڈر دی گریٹ‘‘ یعنی ''سکندر اعظم‘‘ کہلایا۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ سکندر کو عظیم اس لئے کہا جانے لگا کہ اس نے بہت کم عرصے میں اپنی حکومت یورپ سے لے کر ایشیاء تک قائم کر لی تھی۔ اس کی سلطنت یونان سے لے کر ترکی، شام، مصر، ایران، عراق ، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔
سکندر اعظم کون تھا
شہنشاہ فلپ دوئم کی چوتھی بیوی کے بطن سے جنم لینے والا فاتح عالم سکندر اعظم چونکہ فلپ دوئم خاندان کی پہلی اولاد نرینہ تھی جس کی پیدائش پر خوب جشن منایا گیا کیونکہ سکندر اعظم کے روپ میں فلپ خاندان کو سلطنت کا اصل جانشین مل گیا تھا۔ جہاں تک سکندر کی تعلیم کا تعلق تھا وہ اسے اپنے ہم عصروں سے اس لئے ممتاز کرتی ہے کہ اس نے اپنے زمانے کے لحاظ سے بہترین تعلیم حاصل کی۔جب سکندر 13 سال کاتھا تواس کے اساتذہ میں ارسطو جیسا عظیم فلسفی شامل تھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ سکندر اعظم کی شخصیت میں بہت حد تک ارسطو کی تربیت کی چھاپ نمایاں نظر آتی تھی۔
مقدونیہ سے تعلق رکھنے والا سکندر اعظم 356قبل مسیح میں پیدا ہوا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب مقدونیہ شمالی یونان سے جزیرہ نما بلکان تک پھیلا ہوا ایک بے ترتیب علاقہ تھا۔ سکندر اعظم کے والد فلپ دوئم کو ان کی سوتیلی بہن یعنی قلوپطرہ کی بیٹی کی شادی کی تقریب کے دوران ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا تھاجس کے فوراً بعد اس محافظ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس کی وجہ سے اس قتل کی وجوہات سامنے نہیں آ سکیں۔ اس وقت سکندر اعظم کی عمر محض بیس سال تھی۔ چنانچہ باپ کی وفات کے بعد بادشاہت کا قرعہ سکندر کے نام نکلا اور یوںسکندر بادشاہ بن گیا۔
جب سکندر اعظم نے عنان اقتدار سنبھالا اس دور میں مقدونیہ ایک غیر موثر ریاست کے طور پر جانی جاتی تھی جبکہ یونان میں ایتھنز، سپارٹا اور تھیبز بڑی قوتیں سمجھی جاتی تھیں یہاں تک کہ یہ ریاستیں مقدونیہ کو وحشی یعنی بائبیرئن کے لقب سے جانتے تھے۔جہاں تک سکندر اعظم کے والد فلپ دوئم کا تعلق ہے اس نے اپنی عسکری صلاحیتوں کے طفیل اپنی فوج کو ایک ایسی پیشہ ورانہ فوج بنا دیا تھا جس کا چرچا دور تک پھیل چکا تھا۔مورخین کہتے ہیں فلپ دوئم نے اپنی فوج کو اعلیٰ درجے کے پیادے، ماہر گھڑ سوار وں، تیر اندازوں اور مشاق نیزہ بازوں سے لیس کر رکھا تھا۔ سکندر اعظم کو یہی منظم فوج ورثے میں ملی تھی۔
سکندر اعظم کی فتوحات کاآغاز
سکندر اعظم ایک ذہین اور بہترین حکمت عملی ساز تھا اس لئے اس نے فارس کے یونان پر حملے کو جواز بنا کر پروپیگنڈا مہم شروع کی کہ مقدونیہ کے لوگ فارس پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک صدی قبل فارس اور یونان کی جنگ میں مقدونیہ سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔ 334 قبل مسیح سکندر اعظم نے 50 ہزار کے لشکر کے ساتھ اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی اور تربیت یافتہ فارس کی فوج کواس کے در پر آ کر للکارا۔ مورخین کیمطابق شہنشاہ فارس، داریوش سوئم کی فوج کی تعداد 25 لاکھ کے لگ بھگ تھی جو جدید اسلحہ اور بہترین تربیت سے آراستہ تھی لیکن اس سب کے باوجود پر اعتماد، ذہین اور موثر حکمت عملی کے حامل سکندر اعظم کے سامنے داریوش کی تمام ترکیبیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
تاریخ دان اس سلطنت کو دنیا کی پہلی سپر پاوروں میں سے ایک سپر پاور بھی کہتے ہیں۔ سلطنت فارس پر قبضے کے بعدسکندر نے مشرق کا رخ کیا تو اس کی نظریں اب ہندوستان پر لگی ہوئی تھیں۔دراصل سکندر کی پے در پے فتوحات نے اس کے اعتماد میں اس حد تک اضافہ کر دیا تھا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ وہ جہاں چاہے فتح حاصل کر سکتا ہے۔ سونے پے سہاگہ یہ تھا کہ اس کی فتوحات کے سحر کی وجہ سے قدیم یونانی اسے ایک عام انسان کی بجائے دیوتا سمجھنے لگے۔
صرف یہی نہیں بلکہ خود سکندر اعظم کو بھی یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ واقعی عام انسان کی بجائے ایک دیوتا ہے۔ ہندوستان فتح کرنے کے بعد جہاں اسے مقامی لوگوں کی مزاحمت کاسامنا تھا وہیں اس کی اپنی فوج کے اندر سے بھی صدائے احتجاج کی خبریں آنے لگیں۔323 قبل مسیح 32 سال کی عمر میں یونان واپسی کے دوران عراق کے علاقے بابل اور نینوا پہنچتے ہی سکندر اعظم کی طبیعت تیزی سے بگڑنا شروع ہو گئی جو اس کی موت کا سبب بنی۔ بعض مورخین اس بیماری کو ملیریا سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ دراصل اس کے زخموں کے اندر پھیلنے والا انفیکشن تھا۔