یادرفتگاں: سلطان راہی پنجابی فلموں کے سپر سٹار
اسپیشل فیچر
1980ء کے عشرے کا آغاز ہوا تو گنڈاسا بدست سلطان راہی ہماری سکرین کی دنیا پر ایک دیو کی طرح چھائے ہوئے تھے اور آنے والے 15برسوں میں کوئی دنیاوی طاقت سلطان راہی کو اس ہمہ گیر منصب سے ہلا نہ سکی لیکن 9جنوری 1996ء میں موت کے بے رحم پنجے نے شہرت و مقبولیت کے تخت سے کھینچ کر انہیں عدم کے لق و دق صحرا میں لے جا پھینکا۔ جب سلطان راہی نے اس دنیا سے کوچ کیا تو اُن کی 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں جو کہ دنیا بھر میں ایک ریکارڈ ہے۔
سلطان راہی کی سلطانی و حکمرانی کے یہ 15 برس ہماری فلمی تاریخ میں ایکشن فلموں کا زمانہ شمار ہوتے ہیں لیکن اس منصب تک پہنچنے کیلئے سلطان راہی کو جدو جہد کے ایک طویل دور سے گزرنا پڑا تھا۔1963-64ء کی بات ہے جب لاہور کے اوپن ایئر تھیٹر میں ایک کھیل ''کاغذ کے پھول‘‘ پیش کیا گیا جس میں سلطان راہی مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ سلطان راہی کو اردو کی اس ڈرائنگ روم کامیڈی میں دیکھنے کے بعد کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ درست شین قاف کے ساتھ ایسی نستعلیق زبان بولنے والا یہ نوجوان ایک روز خون آلود گنڈاسوں اور گولیاں اگلتی کلاشنکوفوں والی جدال و قتال سے بھرپور پنجابی فلموں کا سپر سٹار بنے گا لیکن فلم نگری میں کچھ بھی ممکن ہے۔
سلطان راہی نے50ء کی دہائی میں ایک ایکسٹرا بوائے کے طور پر فلمی کریئرکا آغاز کیا تھا لیکن انہیں نمایاں کردار 70ء کے عشرے میں ملنے شروع ہوئے ۔1971ء میں انہیں ایک فلم ''بابل‘‘ میں اہم کردار ملا تاہم 31 جولائی 1971ء کو ریلیز ہونے والی فلم' 'بشیرا‘‘ نے انہیں سٹار سے سپر سٹار بنا دیا۔انہوں نے کئی سپر ہٹ فلمیں دیں جن میں سب سے کامیاب ''مولا جٹ‘‘ تھی۔''مولا جٹ ‘‘کا گنڈاسا اس قدر کامیابی سے چلا کہ اسی نوعیت کی درجنوں فلمیں بنیں اور بیشتر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ جن میں ''بشیرا ‘‘(1972 ) اور ''وحشی جٹ‘‘ (1975 ) نے ان کی بقیہ فلمی زندگی کا راستہ متعین کر دیا۔ ''مولا جٹ‘‘ کی بے مثال کامیابی کے کچھ عرصہ بعد 12 اگست 1981ء کو ان کی پانچ فلمیں ''شیر خان‘‘، ''سالا صاحب‘‘، ''چن وریام‘‘، ''اتھرا پتر‘‘ اور ''ملے گا ظلم دا بدلہ‘‘ ایک ساتھ ریلیز ہوئیں۔ اس موقع پر ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا جب ''شیر خان‘‘ اور ''سالا صاحب‘‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ''چن وریام‘‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی کی۔ان کی دیگر کامیاب فلموں میں ''وحشی گجر، آخری جنگ، سانجھی ہتھکڑی، دوبیگھہ زمین، ان داتا، جرنیل سنگھ، شیراں دے پتر شیر، آخری میدان اور سخی بادشاہ‘‘ شامل ہیں۔ فلم ' 'الیکشن‘‘ میں ان کے مقابل پہلی بار اداکارہ صائمہ کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سلطان راہی اور صائمہ کی ایک ایسی فلمی جوڑی قائم ہوئی جو 1996ء میں سلطان راہی کے قتل تک مسلسل فلموں کی کامیابی کا ضامن رہی۔ انہوں نے 7 سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔
پنجابی فلموں کی سب سے بڑے فلمی ہیرو سلطان راہی1938ء میں بھارت کے شہر سہارنپور(یو پی ) میں پیدا ہوئے تھے اور پاکستان بننے کے فوری بعد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔میٹرک کے بعد ان کا شوق انہیں لاہور کھینچ لایا تھا۔ لیکن اب سلطان راہی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 12 سال گزر گئے ہیں۔9 جنوری1996ء میں گوجرانوالہ کے نزدیک ان کی کار پنکچر ہوگئی اس دوران انہیں مبینہ طور پر ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران منہ میں فائر کر کے ہلاک کر دیا گیاتھا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پنجاب میں تشدد کی راہ اختیار کرنے والوں کے بھی وہ آئیڈیل تھے۔ان کا اصل حلیہ فلمی دنیا کے پر تشدد ہیرو سے بے حد مختلف تھا۔ گھنگھریالے بالوں کی وگ اتار کر اور سادہ کپڑے پہن کر میٹھے لہجے میں بات کرنے والے ''آغا جی‘‘ کو بطور سلطان راہی پہچاننا عام آدمی کیلئے مشکل تھا۔ ممکن ہے ڈاکوںانہیں بالکل ہی نہ پہچان سکے ہوں ۔
فروری 2004ء میں اداکار سلطان راہی کے مقدمہ قتل کا چالان 8 سا ل گزرنے کے باوجود عدالت میں نہ بھیجے جانے پر پنجاب اسمبلی میں حزب مخالف نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس داخل کیا۔ حزب مخالف کے رکن تنویر اشرف کیرا نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں یہ نوٹس جمع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے نامور اداکار سلطان راہی کو9 جنوری1996ء میں گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب قتل کیا گیا اورگوجرانوالہ تھانہ صدر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ302 اور دفعہ 392کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔نوٹس میں کہا گیاکہ8سال گزر چکے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ اٹارنی اور پولیس کی غفلت کے باجود اس مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جس کے باعث اس مقدمہ کی سماعت شروع نہیں ہوسکی جو حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے اس نوٹس پر پولیس نے ایک نامعلوم ڈاکو کو مقابلہ میں پار کر کے اس سے سلطان راہی کا قتل منصوب کردیا اور یوں اس عظیم ہیرو کے قتل کی فائل بھی ایک بند فائل بن کر رہ گئی۔