ہڑپہ پاکستان کے تہذیبی ورثہ کا امین
اسپیشل فیچر
پاکستان کے ثقافتی ورثے کا امین شہر ہڑپہ ضلع ساہیوال کے مغرب میں 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر کے سینے میں دنیا کی قدیم ترین اور انتہائی ترقی یافتہ تہذیب کے آثار دفن ہیں۔ جنہیں دیکھنے کیلئے ہر سال ہزاروں سیاح دنیا کے کونے کونے سے ادھر آتے ہیں۔ ٹیلوں کی شکل میں ہڑپہ کے کھنڈرات 150 ہیکٹرز رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ہڑپن تہذیب کوہ ہمالیہ کے دامن سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحل تک تقریباًسوا چار لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب مصر میں دریائے نیل اور عراق میں دریائے دجلہ اور فرات کی تہذیب کی ہم عصر تھی۔ یہ شہر 1921 میں کھدائی کے دوران دریافت ہوا۔ 3500 قبل مسیح میں ایک چھوٹا سا گاؤں دریا کی باقیات پر آباد ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے شہر کی شکل اختیار کر گیا۔
ہڑپہ کے اونچے مغربی ٹیلہ پر کھدائی اس تناظر میں کی گئی کہ یہ دیکھا جائے کہ قدرتی زمین سے لے کر آج تک تاریخی اور ثقافتی ادوار نے یکے بعد دیگرے کیا کیا کروٹیں لیں کہ ان ادوار کو آر کیالوجی کی زبان میں پہلا دور (راوی ہاکڑہ) (0 0 8 0،2 0 5 3 قبل مسیح)، دوسرا دور کوٹ ڈیجی (2800-2600 قبل مسیح )، تیسرا دور ہڑپہ (1900-2600قبل مسیح) کہا جاتا ہے۔
کھدائی کی اس جگہ پر ہڑپہ دور کی پکی اینٹوں سے بنے نالے، عمارتوں کی باقیات، کوٹ ڈیجی دور کی آبادی کا پتہ دیتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوٹ ڈیجی دور سے لے کر ہڑپہ دور تک کے مختلف ظروف اور اوزاروں کی شکلوں اور آرائش میں جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ ہڑپہ دور کی تہذیب باہر سے متعارف نہیں ہوئی بلکہ کوٹ ڈیجی دور سے ہی ظہور پذیر ہوئی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وادی سندھ کی ابتدائی تحریر کا ثبوت بھی یہاں سے مل رہا ہے۔ ہڑپہ دور سے قبل ظروف پر کندہ تحریر بھی ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں پر مہر بھی دریافت ہو چکی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں سے پتھر کا ایک باٹ ملا ہے جو ہڑپہ دور کے باٹ کے وزن کے برابر ہے۔ یہ چیز اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ہڑپہ دور سے 200 سال پہلے ناپ تول کا جو نظام تھا وہی ہڑپہ دور میں بھی تھا۔ ہڑپہ سے ملنے والی منقش مہریں تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہوتی تھیں اور ناپ تول میں باقاعدہ اکائی کا نظام موجود تھا۔
موجودہ آثار کی بات کریں تو''ٹیلہ اے بی‘‘ کے شمال میں ''ٹیلہ ایف‘‘ ہے۔ اس ٹیلہ کے مغربی کنارے پر ایک بڑی جگہ پر کھدائی ہوئی ہے۔ یہ حصہ ہڑپہ دور کی آخری صدیوں پر محیط ہے۔
گول چبوتروں کے قریب یہ آثار واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ انیسویں صدی میں یہاں سے زیادہ تر پکی اینٹوں کو نکال کر لاہور ملتان ریلوے لائن بچھانے میں استعمال کیا گیا۔ اس جگہ سے بہت سی نادر اشیاء ملی ہیں، جن میں سے ایک وہ قابل دید اور نہایت شاندار مہر ہے جو اپنی مکمل حالت میں دریافت ہوئی ہے ۔یہ مہر وادی سندھ میں ملنے والی سب سے بڑی مہروں میں سے ایک ہے۔
ایک اور دریافت جو یہاں سے ہوئی ہے وہ ایک چھوٹے سے مکان کا ماڈل ہے جو کہ دو تین ٹکڑوں کی صورت میں ملا ہے۔ اس نایاب نمونہ سے ہڑپہ دور کے مکانات کی شکلوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس ماڈل میں دو شاندار دروازے ہیں۔ اس میں ایک کھڑکی ہے جس کی جالی نہایت خوبصورت ہے ۔اس قسم کی جالیاں آج کل بھی پاکستانی گھروں میں ہوا کی آمد ورفت اور گرمی سے بچاؤ کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ ہڑپہ کو موہنجو داڑو پر کئی لحاظ سے فوقیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود حکومت پاکستان اور یونیسکو نے موہنجو داڑو میں جو سہولتیں فراہم کی ہیں ہڑپہ کو ایسی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔
ہڑپہ میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے قیام کیلئے صرف دو کمروں پر مشتمل ریسٹ ہاؤس ہے اس کا بھی ایک کمرہ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران کے لئے مختص ہے جبکہ دوسرے کمرے میں ایک وقت میں صرف دو آدمی قیام کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کیلئے یوتھ ہاسٹل موجود نہیں۔ ہڑپہ میں کسی ایکسپریس ٹرین کا سٹاپ نہیں، جی ٹی روڈ سے میوزیم تک چھ کلومیٹر سڑک کی حالت خراب ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں کھنڈرات سے دریافت شدہ نوادرات سالہا سال سے صندوقوں میں بند پڑے ہیں کیونکہ ان کی نمائش کیلئے گیلریاں موجود نہیں۔
ان نوادرات کیلئے ایک گیلری کی تعمیر کی گئی ہے مگر سیاحوں اور تحقیق کرنے والوں کو یہاں پر کام کرنے کی اجازت نہیں جن میں تصاویر بنانے پر پابندی خاص طور پر شامل ہیں۔ پنجاب ٹورازم کارپوریشن کی کوئی بس ادھر کا رخ نہیں کرتی۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ہڑپہ کو بین الاقوامی ورثے کی فہرست میں شامل کرانے کیلئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا۔
ہڑپہ 1921ء میں دریافت ہوا جبکہ موہنجو داڑو کے کھنڈرات کی کھدائی 1922ء میں ہوئی۔ ہڑپہ کے کھنڈرات کا رقبہ موہنجوداڑو سے زیادہ ہے۔ موہنجو داڑو میں سیم کے پانی کی وجہ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی نہیں ہوسکتی تاہم ہڑپہ میں کافی گہرائی تک کھدائی کا کام ہوا ہے۔
ان شواہد کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ تحقیق کا کام کرنے والوں کیلئے موہنجو داڑو کی نسبت ہڑپہ میں زیادہ مواقع ہیں۔ حکومت پاکستان اور محکمہ سیاحت کا فرض ہے کہ وہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کریں جو موہنجو داڑو اور ٹیکسلا میں سیاحوں کو حاصل ہیں۔