آب زم زم:کنوئیں کی پر اسراریت برقرار
اسپیشل فیچر
آب زم زم ہم مسلمانوں کے لئے قدرت کا ایک انعام تو ہے ہی ، لیکن اسکی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ ایک عرصہ سے دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے اداروں اور سائنس دانوں کیلئے ایک معمہ بھی بنا ہوا ہے۔ ذرہ سوچئے انسان کا چاند پر قدم رکھنا اب ایک قصہ پارینہ بن چکا، مریخ اور دیگر سیاروں کے کروڑوں سالوں سے چھپے راز اب انسان کیلئے راز نہیں رہے اسی طرح سمندر کی حد گہرائیوں تک انسانی دسترس بھی اب گئے زمانوں کا قصہ بن چکا، لیکن کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے ادارے آب زم زم اور اس کے کنوئیں کی پراسراریت اور اس کی قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ عالمی تحقیقی ادارے کئی دہائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر آب زم زم میں پائے جانے والے خواص کی وجوہات کیا ہیں۔ مثلاً ایک منٹ میں 720 لیٹر، جبکہ ایک گھنٹے میں 43200 لٹر مسلسل پانی فراہم کرنے والے اس کنوئیں میں پانی کہاں سے آرہا ہے جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سیکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود بھی پانی موجود نہیں ہے۔کچھ تحقیقی ادراوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام کنووں میں ہر کچھ عرصہ بعد کائی کا جم جانا، انواع واقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رو پودوں کا اُگ آنا یا مختلف حشرات کا پیدا ہو جانا ایک عام سی بات ہے جس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے۔قدرت کا یہ کیسا کرشمہ ہے کہ زم زم کے کنوئیں کے پانی کو نہ تو کائی لگتی ہے، نہ ہی صدیوں سے رواں اس پانی کا ذائقہ بدلا ہے نہ رنگ۔
ایک اور تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک سیکنڈ میں ہزاروں گیلن پانی کے اخراج کے باوجود بھی کنوئیں میں پانی کی سطح میں رتی برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یعنی جس تیزی سے پانی کا اخراج ہو رہا ہے اسی تیزی سے زیر زمین ذخیرہ آب، پانی کی کمی پوری کر رہا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے ایک جاپانی تحقیقی ادارے ''ہیڈوا انسٹیٹیوٹ‘‘ نے اپنی ایک تحقیق میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آب زم زم کا ایک قطرہ بھی اگر کسی عام پانی میں شامل کر دیا جائے تو اس کے بھی خواص وہی ہو جاتے ہیں جو آب زم زم کے ہیں جبکہ آب زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ایک اور تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ری سائیکلنگ سے بھی زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
دنیا کے اندر پانی کی اور بھی بہت ساری اقسام موجود ہیں ، مگر باری تعالٰی نے ان تمام پر زم زم کو ایسی فوقیت اور فضیلت بخشی ہے جو کسی اور پانی کو نہیں بخشی۔ عام پانی کے پینے میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی اور پانی کو برکت کی امید سے پیا جاتا ہے، مگر زمزم پینے کیلئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عام پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بار گراں سمجھا جاتا ہے جبکہ زمزم کو مبارک اور متبرک جانتے ہوئے حجاج کرام اور زائرین شہروں شہروں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
جہاں تک آب زم زم میں شامل معدنیات کے تناسب کا سوال ہے، اس میں سوڈیم کی مقدار 133،کیلشیم 96، پوٹاشیم 43.3 بائی کاربوریٹ 195.4، کلورائیڈ 163.3 فلورائیڈ 0.72،نائٹریٹ 124.8 اور سلفیٹ 124 ملی گرام فی لیٹر موجود ہیں۔
خانہ کعبہ سے بیس کلومیٹر کی دوری پر زم زم کا کنواں اس کرہ ارض پر پانی کا سب سے پرانا چشمہ قرار دیا جاتا ہے جو 5000سال سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ قدیم ہی نہیں بلکہ مسلسل فراہمی آب کا ذریعہ بھی چلا آرہا ہے۔اگرچہ کچھ عرصہ کیلئے اس کنوئیں کا پانی خشک ہو گیا تھا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں اس کنوئیں کو دوبارہ کھودنے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کنواں دوبارہ کھدوایا اور پانی پھر نکل آیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ کنواں مسلسل فراہمی آب کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
تاریخی روایات کے مطابق زم زم کا یہ چشمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیاں رگڑنے سے پھوٹا تھا۔ جب حضرت حاجرہ نے بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں کھانا اور پانی ختم ہونے کے بعد صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں چکر لگانے شروع کئے تھے۔ پانی کا یہ کنواں تیس میٹر گہرا ہے۔ اس کنوئیں میں پانی تین مقامات سے آتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کنوئیں میں پانی حجرہ اسود، جبل ابوقیس اور المکبریہ کی سمتوں سے آتا ہے۔ اس کی تفصیل ''العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتاتے ہوئے ڈاکٹر انجینئر یحییٰ کوشک، جو امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی سے انوائرمینٹل انجینئرنگ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ آبی علوم کے ماہر اور پانی کے امور کے پہلے سعودی ماہر اور زم زم کے کنووں کے بارے وسیع اور تاریخی معلومات کا ذخیرہ رکھتے ہیں ، کا کہنا تھا کہ،
جب حضرت حاجرہ صفا اور مروہ کے درمیان دیوانہ وار چکر لگا رہی تھیں اور اپنے رب سے مدد کی دعا مانگ رہی تھیں تو اللہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا جنہوں نے زمین اور پہاڑ کو اپنے پر سے ضرب لگائی۔اس ضرب کے نتیجے میں مکہ کے پڑوس میں واقع پہاڑوں کے دامنوں میں شگاف پڑ گئے۔ان شگافوں میں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ ہروقت موجود رہتا تھا۔ ان پہاڑوں کے اندر جمع شدہ پانی کنوئیں کے مقام تک پہنچ گیا جہاں شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدم رگڑنے سے زیر زمین پانی چشمے کی صورت میں پھوٹ پڑا تھا۔
زم زم کنوئیں کو محفوظ بنانے کیلئے اس کے اردگرد ایک عمارت بنائی گئی ہے۔ مطاف کے وسط میں یہ کئی منزلہ عمارت بنائی گئی ہے۔کنوئیں کے اطراف میں ایک جالی بھی لگائی گئی ہے۔ اس کنوئیں میں ایک پرانا ڈول جس پر 1299ھ کندہ ہے، حرمین شریفین عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
1377ھ میں مطاف کی توسیع کیلئے زمزم کی عمارت مسمار کر کے اس کی جگہ مطاف کے صحن سے ایک راستہ نکالا گیا ہے ، جبکہ حالیہ توسیع میں یہ رستہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
سنہ 1400ھ میں آب زمزم کے کنوئیں کو شاہ خالد مرحوم کے حکم پر صاف کرایا گیا تھا۔سنہ 2010 ھ میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے پانی کو صاف اور محفوظ کرنے کے لئے 700ملین ڈالر کے ایک بڑے منصوبے کی منظوری دی۔اس منصوبے کے تحت مسجد حرام سے ساڑھے چار کلومیٹر دور آب زم زم کو زخیرہ کرنے کا ایک کارخانہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کارخانے میں زم زم کے دولاکھ گیلن پانی کو روزانہ کی بنیاد پر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
2013ء میں سعودی فرماں روا ،شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور میں زم زم کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر اس کی تقسیم کے نظام اور کوالٹی پر نظر رکھنے کیلئے ایک سٹڈی اینڈ ریسرچ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جس کے تحت اس پراجیکٹ کی جدید طریقے سے زم زم کی پمپنگ، فلٹرنگ اور ترسیل کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے باوجود اس بات کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا گیا کہ زم زم کی قدرتی خصوصیات میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔
سعودی عرب کے ادارہ امور الحرمین الشریفین کے شعبہ برائے امور حفظان صحت و آگاہی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسجد الحرام میں فراہم کئے گئے زم زم کے سپلائی ٹینکوں اور کولروں میں موجود پانی کے روزانہ کی بنیاد پر 150 نمونوں کا جدید لیبارٹریوں کے ذریعے مائئیکرو بیالوجیکل اور کیمیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔