سمیرہ موسیٰ:مصر کی پہلی خاتون جوہری سائنسدان

سمیرہ موسیٰ:مصر کی پہلی خاتون جوہری سائنسدان

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور گلزار


غاروں سے زندگی شروع کرنے والے انسان نے کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شاندار محلات بنا کر اپنی زندگی کو آسان بنادیا اور اسی طرح گھوڑے پر سفر کا آغاکرنے والے انسان نے سپر فاسٹ ٹرینیں جہاز اور خلائوں میں سفر کرنے کے لئے خلائی شٹل بنالئے۔ گو کہ انسان روزِ اول سے ہی جستجو میں لگا رہا اور کامیابی سمیٹتا رہا مگر ان کامیابیوں کے ساتھ انسان میں حسد اور رشک کی خصلت بھی پروان چڑھتی رہی۔ تاریخی اوراق کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کامیابیاں سمیٹنے والے کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہی نہیں بعض اوقات کامیاب انسانوں کو مخالفت اور حسد کی آگ میںزندگی سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ آج ہم ایک ایسی ہی کہانی بیان کرنے جارہے ہیں جس میں ایک مسلمان خاتون نے بہت کم عرصے میں سائنسی شعبے میںبہت بڑی کامیابی حاصل کیں مگر یہی کامیابیاں اس کی موت کا سبب بن گئیں۔
ہم ذکر کر رہے ہیں سمیرہ موسیٰ کاجو 3 مارچ1917ء کو مصر کے شمالی علاقے غریبا میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے جبکہ سمیرہ موسیٰ کی والدہ ان کے بچپن میںہی سرطان کے باعث وفات پا گئی تھیں۔والدہ کی وفات کے بعد سمیرا موسیٰ کے والد خاندان کو لے کر مصرکے دارالحکومت قاہرہ چلے گئے جہاں انہوں نے ریسٹورنٹ کا کاروبار شروع کرلیا۔ سمیرہ موسیٰ کی ذہانت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سکینڈری سکول کے پہلے سال میں الجبراکی نصابی کتاب میں غلطیاں نکال کر ان کی درستی کی اور بعدا زاں اپنے والد کے خرچے پراس کرتاب کو دوبارہ چھپوایا اور اپنے ساتھیوں میں مفت تقسیم کیا۔سمیرا موسیٰ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے پڑھنے کے لئے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔1939ء میں سمیرہ نے شاندار کامیابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ''ایکسرے کی تابکاری کے اثرات‘‘ کے موضوع پرتحقیق کاآغاز کیا۔ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس کے سربراہ مصطفی مشرفۃ کو سمیرہ موسیٰ جیسی ذہین طالبہ سے بہت امیدیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سمیرا موسیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کے پیشہ کو اپنا کر شعبہ سائنس کی خدمت کریں گی۔اپنے استاد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے سمیرا موسیٰ نے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپڑھانا شروع کردیا۔وہ قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر تھیں۔ اسی دوران سمیرا موسیٰ نے برطانیہ سے جوہری تابکاری کے مضمون پر پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے مصر کی پہلی خاتون سائنسدان کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔سمیرا موسیٰ کا خیال تھا کہ جوہری طاقت کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے اور انہوں نے اسی عزم کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔سمیرا موسیٰ بچپن میں اپنی والدہ سے بچھڑ جانے کا دکھ ابھی تک بھلا نہیں پائیں تھیں ۔ان کی والدہ کا انتقال سرطان کے باعث ہواتھا اس لئے انہوں نے اپنی سرطان کے جوہری علاج کے لئے تحقیق شروع کردی۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ سرطان کا علاج اتنا سستا ہونا چاہئے جیسے اسپرین کی گولی۔ سمیرا موسیٰ نے اپنی تحقیق کے دوران کئے گئے تجربات سے دنیا میں ہلچل مچا دی کیونکہ انہوں نے سستی دھاتوں کے ذریعے جوہری طاقت کو حاصل کرنے کے لئے کامیاب تجربات کرلئے۔ شاید سمیرا موسیٰ کی یہی تحقیق ان کے موت کا سبب بنی کیونکہ سستی دھاتوں کے ساتھ جوہری قوت حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں، جو عالمی طاقتوں کے کسی طورپر بھی قابل قبول نہ تھا۔
سمیرا موسیٰ نے ''جوہری توانائی برائے امن کانفرنس‘‘کا انعقادکیا جس میں بہت سے ممتاز سائنس دانوں مدعو کئے گئے اس پلیٹ فارم پر انسانیت دوست سائنس دانوں نے عالمی طورپر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ جس میں سمیرا موسیٰ پیش پیش رہیں۔سمیرا موسیٰ کی تحقیق اور تجربات کی شہرت مصر سے باہر دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور جوہری سائنس میں بے مثال کامیابیوںکو دیکھتے ہوئے 1950 ء میں امریکہ کے شہرت یافتہ فلبرائٹ سکالر شب سے نوازا گیا اور اس کے ساتھ ہی انہیںامریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی۔ انہوں نے یہ پیشکش رد کردی۔امریکہ میں قیام کے دوران وطن واپسی سے پہلے سمیرا موسیٰ کو کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔سمیرا موسیٰ کو دی گئی اس دعوت پر امریکہ میں اختلافات دیکھنے میں آئے۔جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی مخالفت کے باوجود سمیرا موسٰی5 اگست 1952ء کو کیلیفورنیا کے لئے روانہ ہوئیںجہاں راستے میں ان کی کارحادثے کے شکار ہوکر چالیس فٹ گہری کھائی میں جا گری اور زندگی میں کئی شعبوں میں بازی جیتنے والی سمیرا موسیٰ اس حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اس حادثے میں کار کے ڈرائیور نے پہلے ہی چھلانگ لگا کر اپنی جان بچا لی اور رو پوش ہوگیا۔ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی خدشات ہیں کہ سمیرا موسیٰ کو صہیونی طاقتوں نے ہلاک کروایا کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ کہیں سستے جوہری تجربات کی کامیابی کے بعد تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت حاصل نہ کرلیں ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: ساون پاکستان فلم انڈسٹری کا مقبول ویلن

یادرفتگاں: ساون پاکستان فلم انڈسٹری کا مقبول ویلن

پاکستان کی فلمی تاریخ میں بعض فنکاروں نے بڑی حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ ان میں ایک بڑا نام اداکار ساون کا تھا جو ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کریکٹر ایکٹر کرداروں میں صف اوّل کے اداکار ثابت ہوئے تھے۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اس دراز قد، تنومند، گرجدار آواز کے مالک پہلوان نما اداکار کو سامنے رکھ کر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ چوٹی کے اس اداکار کو نظر انداز کر دیا گیا اور وہ زندہ رہنے کیلئے چھوٹے موٹے فلمی کردار قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔ہماری فلمی صنعت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ عروج کے وقت وہ آرٹسٹ کا بھرپور ساتھ دیتی ہے لیکن جونہی وہ آرٹسٹ زوال پذیر ہوتا ہے، یہ اْس سے منہ پھیر لیتی ہے۔60ء اور 70ء کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ویلن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کامیاب فلمیں کیں۔ ساون اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اسی لئے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ جنگ عظیم دوئم میں وہ برٹش انڈین آرمی میں شامل ہو گئے۔ ملازمت کے دوران انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ ان میں مشرقِ وسطیٰ بھی شامل تھا۔ انہیں جہاں کہیں بھیجا گیا، انہوں بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ساون کو فوج سے سبکدوش کر دیا گیا۔ وہ سیالکوٹ واپس چلے گئے۔ روزی کمانے کیلئے انہوں نے ٹانگہ چلانا شروع کر دیاجوان دنوں بڑی کمائی والا کام سمجھا جاتا تھا۔ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پینٹر بھی بن گئے۔ انہوں نے چھوٹے موٹے کام کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان کا مقصد روزی کمانا تھا۔ اس دوران ان کی ایک سینما کے عملے کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ اپنی شخصیت کی وجہ سے وہ سینما والوں میں بھی مقبول ہو گئے۔ ان لوگوں نے ساون کو مشورہ دیا کہ وہ فلموں میں کام کریں۔ ساون بٹ کو یہ بات پسند آئی۔ انہوں نے فلم سٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیئے۔ آخر کار انہیں فلم ''کارنامہ‘‘ میں اداکار کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا اور یہیں سے ظفر احمد بٹ کا نام ساون رکھ دیا گیا۔ کچھ صحافیوں نے ساون سے کہا کہ وہ لاہور چلے جائیں اور پنجابی فلموں میں اپنی قسمت آزمائیں کیونکہ اپنی گرجدار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ پنجابی فلموں میں زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور آگئے اور انہیں آغا حسینی کی فلم ''سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ''سولہ آنے‘‘ کی ریلیز کے بعد انہیں فلم ''سورج مکھی‘‘ کیلئے کاسٹ کر لیا گیا۔ اس فلم نے ساون کو اداکار بنا دیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس فلم نے انھیں مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھا دیا۔ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ''بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ''شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ سرفہرست ہیں۔ساون نے مقبولیت اور کامیابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔کہا جاتا ہے کہ ہدایت کار اسلم ڈار نے اپنی نئی فلم ''بشیرا‘‘ میں مرکزی کردار کیلئے ساون کا انتخاب کیا۔ ساون نے بھاری معاوضہ طلب کیا لیکن اسلم ڈار نے انکار کر دیا اور ان کی جگہ سلطان راہی کو ''بشیرا‘‘ کے لیے کاسٹ کر لیا۔ اس سے پہلے سلطان راہی کی فلم ''بابل‘‘ سپر ہٹ ہو چکی تھی۔''بشیرا‘‘ باکس آفس پر بے حد کامیاب رہی اور سلطان راہی نے عروج کی سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ساون کا زوال شروع ہوگیا۔ ساون نے خود کہا تھا کہ میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے فلم ''ہاشو خان‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس فلم میں ہاشو خان ایک سفاک اور ملحد حاکم تھا۔ بہرحال یہ سب قدرت کے کھیل ہیں۔ بعد میں ساون فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتے رہے۔ زندگی کے آخری دور میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر میں بیمار پڑے رہے۔ 6 جولائی 1998ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور ساون اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ 

خانہ بدوش پرندہ فلیمنگو

خانہ بدوش پرندہ فلیمنگو

فلیمنگو جسے اردو میں لم ڈھینگ کہا جاتا ہے ایک لمبا استوائی خانہ بدوش پرندہ ہے۔ اس پرندے کی نسل کا تعلق ''فو ئنی کوپٹیریڈا‘‘ (Phoenicopteridae )نسل سے ہے۔اس کی چونچ لمبی، چپٹی اور درمیان میں خمدار ہوتی ہے۔اس کی گردن لمبی،پتلی اور ٹانگیں بھی پتلی ہوتی ہیں۔ اس کے بال اور پروں کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔یہ پرندہ غول کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔عمومی طور پر یہ پرندہ کم گہری جھیلوں اور مرجانیہ ساحلوں پر رہنا زیادہ پسند کرتا ہے اسی لئے اس کی زیادہ افزائش اس طرح کی جھیلوں اور ساحلوں پر ہوتی ہے۔دنیا میں پائے جانے والے مختلف نسل کے سب سے زیادہ فلیمنگو افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔فلیمنگو یا لم ڈھینگ کی چھ اقسام ہیں جن میں بڑا لم ڈھینگ، چھوٹا لم ڈھینگ، امریکی لم ڈھینگ اور چلی لم ڈھینگ قابل ذکر ہیں۔ جیمز لم ڈھینگ اور اینڈئین لم ڈھینگ دنیا میں اب بہت کم نظر آنے والی نسل ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل ''بڑا لم ڈھینگ‘‘ کی ہے جسے انگریزی زبان میں ''گریٹر فیلمنگو‘‘کہتے ہیں۔ بڑا لم ڈھینگ زیادہ تر افریقی ممالک بشمول جنوبی ایشیاء پاکستان اور جنوبی یورپ کے ممالک سپین، فرانس، پرتگال اور البانیہ میں پایا جاتا ہے۔بڑا لم ڈھینگ بڑے لم ڈھینگ کا قد عمومی طور پر 5 فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کا وزن چار کلو تک ہو سکتا ہے۔اس کا رنگ سفیدی مائل گلابی ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اس کی عمومی پہچان ''گلابی لم ڈھینگ ‘‘ سے ہوتی ہے۔پیدائش کے وقت اس کے بچے سفید ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ گلابی ہو جاتے ہیں۔ بڑے لم ڈھینگ کی عمر 60 سال تک نوٹ کی گئی ہے۔ سب سے بڑے لم ڈھینگ کی اونچائی 1.87 میٹر نوٹ کی گئی ہے۔بڑے لم ڈھینگ کو سب سے پہلے 1811ء میں پیٹر سمن پلاس نے متعارف کرایا تھا۔شروع میں یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بڑا لم ڈھینگ اور امریکی لم ڈھینگ بنیادی طور پر دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان دونوں نسلوں کے رنگ ، جسم اور چونچ میں واضح فرق ہے ،جس کے بعد ان دونوں اقسام کو الگ الگ نسل کی پہچان دی جانے لگی۔ چھوٹا لم ڈھینگ یہ ایک چھوٹی جسامت کا لم ڈھینگ ہے اور لم ڈھینگوں کی سب سے چھوٹی نسل سمجھی جاتی ہے۔ جس کی آبادی افریقہ، پاکستان اور بھارت میں پائی جاتی ہے۔چھوٹے لم ڈھینگ دنیا میں سب سے زیادہ افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔شمالی تنزانیہ کی جھیلیں افزائش کیلئے ان کا پسندیدہ مقام ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی تعداد دنیا بھر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ چھوٹے لم ڈھینگ کا قد 80 اور 90 سنٹی میٹر کے درمیان ہوتا ہے جبکہ وزن اڑھائی کلو گرام تک ہوتا ہے جبکہ ان کے پروں کا پھیلائو ایک میٹر تک ہوتا ہے۔ان کا عمومی رنگ گلابی مائل سفید ہوتا ہے۔ان کی چونچ کا رنگ کالا ہوتا ہے جو انہیں بڑے لم ڈھینگوں سے ممتاز کرتا ہے۔چھوٹے لم ڈھینگ کی زیادہ تر خوراک الجی پر مشتمل ہوتی ہے۔الجی بنیادی طور پر اساسی تاثیر رکھنے والی جھیلوں میں اگتی ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ان کی گلابی رنگت بھی اسی الجی کے کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قدرت نے ان کی چونچ کی ساخت اس طرز پر بنائی ہے جس کے ذریعے یہ پانی سے الجی کو فلٹر کر لیتے ہیں۔ بڑے لم ڈھینگوں کی نسبت چھوٹے لم ڈھینگ ہمیشہ مارابوسٹارک، ببون بندر، افریقی مچھلی مار عقاب، جنگلی بلی اور افریقی سنہری بھیڑیا نامی شکاریوں کی زد میں رہتے ہیں۔چلوی لم ڈھینگ چلوی لم ڈھینگ یہ دوسری نسل کی نسبت قدرے دراز قد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا رنگ گلابی تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کا رنگ دوسری نسل کے پرندوں سے ہٹ کر کم گلابی یعنی خاکستری مائل ہوتا ہے ۔یہ نسل جنوبی امریکی ممالک،ایکواڈور پیرو اورچلی میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ارجنٹینا اور برازیل کے کچھ علاقوں میں بھی پائے گئے ہیں۔فطرت اور عادات فطرتاً فلیمنگوز پانی کے دلدلی علاقوں اور کم گہرے لگونز میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انسانی پہنچ سے دور جھیلیں ان کی اوّلین ترجیح شمار ہوتی ہیں۔یہ اپنے پنجوں سے دلدل کھود کر اس میں پانی چوستا رہتا ہے اور پانی میں موجود مخصوص قسم کی کائی کو بطور خوراک سر جھکا کر کھاتا رہتا ہے۔ فلیمنگوز فطرتاً غول بنا کر اپنی الگ کالونیاں بنا کر رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ تنزانیہ کا ماحول ان کیلئے انتہائی سازگار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سب سے زیادہ تنزانیہ کی جھیلوں میں بریڈ کرتے ہیں۔ پالتو فلیمنگوز سوئٹزر لینڈ کو جب اپنے چڑیا گھر کیلئے فلیمنگو کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے افریقی ملک سے بڑا فلیمنگوز کا ایک جوڑا منگوایا تھا۔جسے سوئٹزر لینڈ کے ''باسل زو‘‘ میں رکھا گیا تھا۔ 1959ء میں پہلی مرتبہ اس چڑیا گھر میں فلیمنگو کے انڈوں سے ایک بچہ نکلا تھا۔ اس کے بعد 2000ء کے بعد ہر سال یہاں 25 سے 30 کے درمیان فلیمنگوزکے بچے نکلتے رہے اور ان کی نسل بڑھتی رہی۔ سب سے طویل العمر فلیمنگو کا اعزاز آسٹریلیا کے ایڈیلیڈ چڑیا گھر کو جاتا ہے جہاں ایک فلیمنگو 83 سال تک زندہ رہا۔چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی صحیح عمر اس لئے نہیں بتائی جا سکتی کیونکہ یہ اس چڑیا گھر میں 1933ء میں لایا گیا تھا ، اس وقت یہ ایک بالغ پرندہ تھا جبکہ اس کی موت 2014ء میں ہوئی تھی۔ لم ڈھینگ کی بقا کو لاحق خطراتاگرچہ پرندوں اور جانوروں میں لم ڈھینگوں کی نوع باقی انواع کی نسبت کثرت میں پائی جانے والی جنس ہے لیکن فطرت کے تحفظ پر گہری نظر رکھنے والی سوئٹزرلینڈ کی ایک تنظیم ''آئی یو سی این‘‘ نے حال ہی میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی طور پر فلیمنگو ز کی نسل کو مختلف قسم کے خطرات لاحق ہیں جس سے پرندوں کی یہ نوع تیزی سے معدومیت کی طرف جا رہی ہے۔ اس تنظیم نے اسے '' خطرے سے دوچار‘‘ پرندوں کی کیٹیگری میں شامل کیا ہوا ہے۔ آئی یو سی این نے اس کی بڑی وجہ ان کی آبادی میں کمی اور ان کے بریڈنگ کے علاقوں کی انسانی ہاتھوں تباہی کو قرار دیا ہے۔ حالیہ سالوں میں مشرقی افریقہ کی دو جھیلوں نگورو اور بوریا،جہاں ان کی بہت وسیع پیمانے پر کالونیاں ہیں ، ان کی آبادی حد درجہ متاثر ہوئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان جھیلوں میں فیکٹریوں سے خارج ہونے والے پانی کی آمیزش ہے۔اس پانی میں زہریلے کیمیکل اور دھاتیں پائی جاتی ہیں۔آئی یو سی این نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں موجود ان کی بریڈنگ کی تمام جگہیں خطرات سے دوچار ہیں۔پاکستان اور بھارت میں یہ قدرتی شکار کے علاوہ انسانی شکار کی زد میں بھی ہیں۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فلیمنگوز کی کل آبادی کا تین چوتھائی مشرقی افریقہ میں رہتا ہے۔اور یہاں کی جھیلیں ہر سال دس لاکھ سے زائد لم ڈھینگوں کی میزبانی کرتی آرہی ہیں۔ اب وہاں کی جھیلوں کی سطح میں اضافے کے سبب انہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جس کے سبب یہ معصوم نسل اب اپنے روایتی مسکن سے نکل کر نامعلوم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہو گئی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

AK-47کی پیداوار کا آغاز6جولائی 1947ء کو سوویت یونین میں معروف ہتھیار AK-47کی پروڈکشن کا آغاز کیا گیا۔اس رائفل کو روس کے معروف اسلحے کے ڈیزائنرمیخائل کلاشنیکوو کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔ پروڈکشن میں جانے سے پہلے اس کو کئی تجربات سے گزارا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا کے معروف ترین ہتھیاروں میں شمار ہونے لگی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس رائفل سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا کا مہلک ترین ہتھیار بھی تصور بھی کیا جاتا ہے۔نائیجیریا میں سکول پر حملہ6 جولائی 2013 کو، نائیجیریا کے یوبی اسٹیٹ کے گاؤں مامودو میں مسلح افراد نے گورنمنٹ سیکنڈری سکول پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 42 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر طلباء تھے جبکہ عملے کے کچھ ارکان بھی مارے گئے۔ ایک مقامی عینی شاہد نے صورتحال کو بیان کیا کہ یہ ایک دلخراش نظارہ تھا، کچھ زندہ جل گئے جبکہ کچھ گولی لگنے سے مر ے۔ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، حملہ آوروںنے متاثرین کو ایک مرکزی مقام پر اکٹھا کیا اور پھر فائرنگ اور دھماکہ خیز مواد پھینکنا شروع کیا۔ فضائی حادثہایشیانا ایئر لائنز کی پرواز 214 ایک طے شدہ ٹرانس پیسفک مسافر پرواز تھی جس نے جنوبی کوریا کے شہر سیول کے قریب انچیون انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑان بھرنی تھی ۔ 6 جولائی 2013ء کی صبح اپنی منزل کے قریب ریاستہائے متحدہ کے سان فرانسسکو بین الاقوامی ہوائی اڈے پرگر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار 307 افراد میں سے 3 کی موت ہو گئی۔ مزید 187 زخمی ہوئے، جن میں سے 49 کی حالت تشویشناک تھی۔شدید زخمیوں میں چار فلائٹ اٹینڈنٹ بھی شامل تھے ۔ریل حادثہ6جولائی 2013ء کو کینیڈا کے قصبے میں ایک میگنیٹک ٹرین کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ یہ خوفناک حادثہ اس وقت ہوا جب ایک مال بردار ٹرین خام تیل لے کر جارہی تھی وہ اپنی ٹریک سے نیچے اتر گئی جس کے نتیجے میں متعدد ٹینک کاروں میں دھماکے اور آگ لگ گئی۔ اس حادثے میں47 افراد مارے گئے،30 سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا جبکہ شہر کے نصف علاقے میں تباہی کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق ایک کلومیٹر تک اس دھماکے کی آواز بھی سنی گئی۔ 

دنیا کی خوبصورت آبشاریں

دنیا کی خوبصورت آبشاریں

ایگوازو فالس (Iguazu Falls): یہ ارجنٹینا میں ہے۔ اس آبشار سے ایک سیکنڈ میں ایک ہزار کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ یہاں کا موسم عام طور پر گرم ہوتا ہے۔ ایگوازو آبشار تقریباً 275 چھوٹے جھرنوں کا مجموعہ ہے۔ یہ 82 میٹر بلند ہے۔ آبشار کا پانی ایگوازو دریا میں جاکر ملتا ہے جو برازیل، پراگ اور ارجنٹائنا سے ہوکر گزرتا ہے۔وکٹوریہ فالس زمبابوے اور زمبیا کی سرحد پر واقع یہ آبشار108 میٹر بلند ہے۔ 1855ء میں ڈیوڈ لیونگ اسٹون نے اس آبشار کو دریافت کرنے کے بعد اسے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ سے موسوم کیا تھا۔ اس آبشار سے ایک سیکنڈ میں ایک ملین کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سات قدرتی عجائبات میں ہوتا ہے۔ مقامی افراد اسے ''موسی اوآتونیا‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ایسا دھواں جس سے بجلیوں کی سی آواز آتی ہے۔ نیاگرا فالزشمالی امریکہ میں واقع یہ دنیا کی سب سے مشہور اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی آبشار ہے۔ 51 میٹر اونچے اس آبشار سے ایک سیکنڈ میںسات ہزار کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ اس آبشار کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تینآبشاروں، ہورس شو فالس، دی امریکن فالس اور برائڈل ویل فالس کا مجموعہ ہے۔ نیاگرا فالس امریکہ اور کنیڈا کی سرحد پر ہے۔اینجل فالز دنیا کی بلند ترین آبشار ہے۔ وینزویلا میں واقع یہ آبشار 979 میٹر بلند ہے۔ 1935ء میں امریکی ہوا باز جیمز کرافورڈ اینجل نے پرواز کے دوران اسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔آبشار انہی سے موسوم ہے۔کائتور آبشار گیانا میں واقع ہے اس آبشار کی بلندی 226میٹر ہے۔ یہ امیزون کے بارانی جنگلات میں واقع ہے۔ اس سے ایک سیکنڈ میں663 کیوبک میٹر پانی گرتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے طاقتور ترین آبشاروں میں ہوتا ہے۔ اسے 1870ء میں چارلس برنگٹن برائون نے دریافت کیا تھا۔ یہ آبشار ایک معمر شخص سے موسوم ہے جسے اس کے رشتہ داروں نے اسے ایک کشتی میں بٹھا کر آبشار سے نیچے گرادیا تھا۔ اس لئے اس کا نام ''کائتور‘‘ یعنی 'بوڑھے آدمی کی آبشار‘پڑ گیا۔ یوسومیٹ فالز یہ یوسومیٹ نیشنل پارک، کیلیفورنیا میں ہے جس کی اونچائی 739 میٹر ہے۔ اس آبشار کے نیچے ایک قبیلہ آباد ہے جسے 'شولوک‘ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ آبشار کے نیچے جادوگرنیوں کی روحیں بھٹکتی ہیں۔گلفوس فالز یہ آئس لینڈ میں واقع ہے جس کی بلندی 32 میٹر ہے۔ موسم گرما میں گلفوس آبشار سے ایک سیکنڈ میں 140 کیوبک میٹر پانی گرتا ہے۔اس آبشار کی خاص بات یہ ہے کہ اوپر سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی نیچے جا کر زمین میں کہیں غائب ہورہا ہے۔ اسے ہالی ووڈ کی متعدد فلموں میں بھی دکھایا گیا ہے۔ ڈیٹیفوس فالز یہ شمال مشرقی آئس لینڈ میں ہے۔ اس آبشار میں پانی وتنجکل نامی برف کے تودے سے آتا ہے۔ اس کی بلندی 44 میٹر ہے۔ اسے یورپ کی سب سے طاقتور آبشار خیال کیا جاتا ہے۔ ڈیٹیفوس فالس کے پانی کے بہائو کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ اس کے اطراف کی چٹانوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔سورج کی روشنی میں آبشار کی بوچھاڑ سے180 ڈگری کی قوس قزح بن جاتی ہے۔پلیٹویزے فالزیہ پلیٹویزے نیشنل پارک، کروشیا میں ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے کئی آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ اس آبشار کو مکمل طور پر دیکھنے کیلئے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ 78 میٹر بلند ہے۔ یہ آبشار 2حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں دریا ہے جہاں پانی جمع ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصہ آبشار ہے۔ سدرلینڈ آبشار یہ نیوزی لینڈ میں ہے جس کی بلندی581 میٹرہے۔ چونکہ یہ عمودی ہے اس لئے نیچے سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آبشار آسمان سے گر رہی ہو۔ اس کی دریافت سکاٹ لینڈ کے شکاری ڈونالڈ سدرلینڈ نے کی تھی۔ جوگ آبشار ہندوستان کی دوسرا بلند ترین آبشار ہے جو کرناٹک میں ہے۔ دنیا کے بہترین آبشاروں میں یہ13 ویں نمبر پر ہے۔ یہ253 میٹر بلند ہے۔ ڈیٹیئن آبشار یہ ویتنام اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ دونوں ممالک کے افراد اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہ آبشار 30 میٹر بلند ہے۔ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑا آبشار ہے جو دو ممالک کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں پودوں کی کم یاب اقسام پائی جاتی ہیں۔ آبشار کے اطراف میں چونے کے پتھروں کی بہتات ہے۔ سیلا لینڈ فوس فالزیہ آئس لینڈ کے جنوبی حصے میں ہے جس کی بلندی 60 میٹر ہے۔ یہ آبشار سیلا لینڈ دریا کا حصہ ہے۔ اس آبشار کو ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں دکھایا گیا ہے۔ جسٹن بیبر کے مشہور البم 'آئی ول شو یو‘ کے چند مناظربھی اسی آبشار کے کنارے شوٹ کئے گئے ہیں۔رائن فالز یہ سوئزر لینڈ اور یورپ کا سب سے بڑا آٰبشار ہے۔ یہ آبشار شمالی سوئزر لینڈ کے شہر زیورخ اور کینٹن شافہ زن کی سرحد پر واقع ہے۔ رائن 23 میٹر بلند ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آبشار 14 ہزار سے17 ہزار سال پہلے جاری ہوا تھا۔اسکوگافوس فالزیہ جنوبی آئس لینڈ کے مشہور دریا اسکوگا پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 60 میٹر ہے۔ سورج کی روشنی میں اس آبشار کے قریب دو قو س قزح بنتی ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ برسوں پہلے ایک جنگجو نے آبشار کے عقب میں واقع غار میں خزانوں کے صندوق چھپائے تھے، جن کی تلاش اب بھی جاری ہے ۔

آج کا دن

آج کا دن

ایرانی جہاز پر امریکی حملہ''ایران ایئر فلائٹ 655‘‘ تہران سے بندر عباس کے راستے دبئی جانے والی ایک طے شدہ مسافر پرواز تھی جسے 3 جولائی 1988 ء کو امریکی بحریہ کے گائیڈڈ کروز میزائل سے مار گرایا گیا ۔ ہوائی جہاز ایئربس A300 میزائل حملے کے بعد تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام 290 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ طیارہ بندر عباس بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد خلیج فارس میں ایران کے علاقائی پانیوں پر پرواز کے معمول کے راستے پر تباہ ہوا۔ یہ واقعہ ایران عراق جنگ کے دوران پیش آیا،جو تقریباً آٹھ سال سے جاری تھی۔راکٹ دھماکہسوویت یونین کا ''N1 راکٹ‘‘ 3جولائی 1969ء میں اپنے لانچنگ پیڈ پر ہی تباہ ہو گیا تھا۔ اسے سیپس راکٹ کی تاریخ کا بدترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب دو عالمی طاقتوں، روس اور امریکہ کے درمیان خلا کو تسخیر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ''N1‘‘کو امریکی اپالو پروگرام کا مقابلہ کرنے کیلئے بنا یاگیا تھا۔ اس پروگرام پر1959ء سے تحقیق کی جارہی تھی اور یقینی بنایا جا رہا تھا کہ اس میں کوئی کمی باقی نہ رہے۔لانچنگ کے وقت اس میں فنی خرابیاں سامنے آئیں اور جامد فائرنگ ٹیسٹ کی خرابی کی وجہ سے اس کا30انجنوں پر مشتمل کلسٹر میں پلمبنگ کے مسائل سامنے آنے لگے، جس کی وجہ سے یہ حادثے کا شکار ہوا۔فالس کرفیو''فالس کرفیو‘‘ جسے ''فالس کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ3جولائی 1970ء کے دوران شمالی آئرلینڈ کے بیلفاسٹ کے فالس ڈسٹرکٹ میں برطانوی افواج کا ایک آپریشن تھا۔یہ آپریشن قوم پرستوں کے ہتھیاروں کی تلاش میں کیا گیا تھا۔تلاشی ختم ہوتے ہی مقامی نوجوانوں نے برطانوی افواج پر پتھروں اور پٹرول بموں سے حملہ کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ جھگڑا برطانوی افواج اور آئرش ریپبلکن آرمی کے درمیان ایک بڑی لڑائی میں بدل گیا۔چار گھنٹے کی مسلسل لڑائی کے بعد برطانوی کمانڈر نے3ہزار گھروں پر مشتمل علاقے کو سیل کر دیا اور کرفیو نافذ کر دیا جو 36گھنٹے جاری رہا۔اسی دوران برطانوی افواج نے دوبارہ تلاشی شروع کی جبکہ آئرش ریپبلکن آرمی کے وقفے وقفے سے حملے جاری رہے۔فضائی حادثہڈین ائیر کی فلائٹ 3 جولائی 1970ء کو سپین کے صوبہ کاتالونیا کے گیرونا میں جنگلاتی ڈھلوانوں سے ٹکرا گئی۔ پرواز مانچسٹر سے بارسلونا کیلئے ایک غیر طے شدہ بین الاقوامی مسافر سروس پر تھی۔اس جہاز میں برطانوی ٹور آپریٹر کا سوار تھا جو چھٹیاں منانے کیلئے جا رہا تھا۔ حادثے کے نتیجے میں طیارہ تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام 112 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ 1970ء میں ہوابازی کا سب سے مہلک حادثہ تھا۔یہ حادثہ ڈیین ائیر کا پہلا حادثہ تھا۔

جڑواں شہر

جڑواں شہر

9 صدی عیسوی میں جڑواں شہروں یا سسٹر سٹی کا تصور موجود تھا ۔ تاریخی حوالوں میں بھی اس بین الاقوامی رابطوں کیلئے جڑواں شہروں کا ذکر ملتا ہے ۔'' ٹوئن سٹی‘‘ کے معاہدے کے تحت دوشہروں کی میونسپل کمیٹیوں کے درمیان تجارتی، ثقافتی اور وسائل کو باہمی طور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے،دیگر انتظامی معاملات اور تعلقات بڑھانے کیلئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے۔ ایک ہی ملک کے دوشہروں کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے موجود ہیں جن میں جیسے کہ آسٹریلیا کے دو شہر البری اور ووٹوڈنگا کو بھی جڑواں شہروںکی حیثیت حاصل ہے حالانکہ یہ دونوں شہروں کا آپسی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں اسلام آباد اور روالپنڈی بھی جڑواں شہر کہلاتے ہیں ان دونوں شہروں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے جبکہ راولپنڈی صوبہ پنجاب کا شہر ہے۔اسی طرح دو ایسے شہرجو مختلف ممالک میں موجود ہیں ان کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے کئے گئے ہیں، جیسے کہ سویڈن کے شہر ہاپرنڈافن لینڈ کے شہر ٹورنیو ، کولمپیا کے شہر لیٹیشیااور برازیل کے شہور تبتینگا، ایسوٹنیا کے شہر یا والگا اور لٹویا کے شہرو والکا کے درمیان بھی جڑواںشہروں کا معاہدہ ہے۔برطانیہ میں''جڑواں شہر‘‘کی اصطلاح سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ''سسٹر سٹیز‘‘ کی اصطلاح عام طور پر امریکہ کے قصبوں اور شہروں کے ساتھ معاہدوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔مین لینڈ یورپ میں، سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات ''جڑواں شہر‘‘،''شراکت دار شہر‘‘، ''پارٹنر ٹاؤنز‘‘ اور ''فرینڈشپ ٹاؤنز‘‘ ہیں۔ یورپی کمیشن ''جڑواں شہر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس عمل کو''ٹاؤن ٹوئننگ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں کے دیگر ممالک کے شہروں کے ساتھ جڑواں شہروں کا معاہدہ کیا گیا ۔ شہر لاہور کا سب سے جڑواں شہروں کے ساتھ معاہدے موجود ہیں۔ شہر لاہو ر چین کے پانچ شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں ژیان، ینتھوئی، چینگڈو، جیانگ اور ہیکو شامل ہیں۔ ازبکستان کے دو شہر وں ثمرقند اور نامنگان، ایران کے دوشہروں اسفہان اور مشہاد، کوریا کے سریوون، تاجکستان کے شہر دوشنبے،امریکہ کے شہر شکاگو ، برطانیہ کے شہر گلاسکو ، ترکی کے شہر استنبول، موراکوکے شہر فیز، بیلجئم کے شہر کورترجک ، سپین کے شہر کورڈوبا اور بیلاروس کے موگیلیو شہر کے ساتھ جڑواں شہر ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دیگر ممالک کے16 شہروں کا جڑواں شہر ہے۔ ان شہروں میں چار شہر چین کے جن میں شنگھائی ،شنیانگ، تینجن،ارومکی ،لبنان کا شہر بیروت ، بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ ، ترکی کا شہر ازمٹ ، سعودی عرب کا شہر جدہ، ملائشیا کا شہر کولالمپور ، بحرین کا شہر منانما ، ایران کے دو شہر ماشاد اور قوم، مارشیئس کا شہر پورٹ لوئس ، کوسوو کا شہر پرسٹینا اور ازبکستان کا شہر تاشقند شامل ہیں۔پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد 8 شہروں کے ساتھ جڑواں شہر ہے جن میں چائنہ کے بیجنگ ، ہائیکوو اور تنجان، اردن کا شہر اومان ، ترکی کا شہر انقرہ، قازکستان کا شہر آسٹانا، انڈونیشیا کاشہر جکارتہ ، بیلا روس کا شہر منسک شامل ہیں۔ملتان چار ممالک کے شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں چین کے دوشہرو شہزوئیاور ژیان، ترکی کے شہر ٹنائے، ایران کے شہر راشٹ شامل ہیں۔پاکستان کے دیگر شہرپشاور انڈونیشیا کے شہر ماکاسارا اور چین کے شہر ارومکی ، ایبٹ آباد چین کے شہر کاشگاراور پیراگوئے کے شہر پورتو ویرس، فیصل آباد چین کے شہر قنگدوئی، گوجر خان برطانیہ کے شہر ریڈیچ ، گوادر چین کے شہر پیئنگ،حیدر آباد امریکی شہر ٹولیڈ، ساہیوال برطانیہ کے شہر روچڈیلے،سیالکوٹ امریکہ کے شہر بلنگ بروک اور سکردو اٹلی کے شہر کورٹینا ڈی امپوزے کا جڑواں شہر ہے۔ اسپین میںجڑواں شہروں کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح کا لفظی مطلب ''سسٹر سٹی‘‘ ہے۔ جرمنی، پولینڈ اور چیک ریپبلک میں جڑواں شہروں کی اصطلاح کیلئے پارٹنر سٹادٹ،جرمنی میں میاسٹو پارٹنرشی، جس کا لفظی مطلب ''پارٹنر ٹاؤن‘‘یا ''پارٹنر سٹی‘‘ ہوتا ہے۔